1:1 پولس جو یسوع مسیح کا خادم ہے کی طرف سے سلام ۔خدا نے مجھے رسول ہو نے کے لئے منتخب کیا ۔ اور خاص طور سے خدا کی خوشخبری سبھی لوگوں کو سنانے کے لئے مجھے مقرّر کیا گیا۔
2 خدا نے بہت پہلے وعدہ کیا تھا کہ اپنے لوگوں کو یہ خوش خبری دے گا ۔ یہ وعدہ کر نے کے لئے خدا نے نبیوں کا استعمال کیا۔ یہ وعدہ مقدس صحیفوں میں لکھا ہوا ہے ۔
3 یہ خوش خبری خدا کا بیٹا ہما رے خداوند یسوع کے بارے میں ہے ۔ وہ ایک شخص کی شکل میں داؤد کے خاندان سے پیدا ہوا ہے ۔ لیکن پا کیز گی کی روح کے ذریعہ سے موت سے جی اٹھ کر عظیم قدرت کے ساتھ یسوع کو خدا کا بیٹا ظاہر کیا گیا ۔
4
5 مسیح کے معرفت خدا نے مجھے رسول کا مخصوص کام دیا۔ خدا نے مجھے یہ کام ساری قوموں کے لوگوں کی رہنمائی کر نے کے لئے دیا تا کہ لوگ خدا پر ایمان رکھے اور اس کی اطاعت کرے۔ اور میں اس کام کو مسیح کے لئے کرتا ہوں۔
6 اور تم روم کے لوگوں کو بھی یسوع مسیح کے ہو نے کیلئے بلا یا گیا ہے ۔
7 ان سب کے نام جو رومہ میں رہتے ہیں میں یہ خط لکھ رہا ہوں جو خدا تم سے محبت کرتا ہے اور اس کے مقدس لوگ ہو نے کیلئے بلا یا گیا ہے۔
8 سب سے پہلے میں یسوع مسیح کے وسیلہ سے تم سب کے لئے اپنے خدا کا شکر ادا کرتا ہوں کیوں کہ تمہا رے ایمان کی شہرت تمام دنیا میں ہو رہی ہے ۔
9 وہ خدا جس کے بیٹے کی خوش خبری سنا نے کی خدمت میں اپنے دل وجان سے کرتا ہوں میرا گواہ ہے کہ میں تمہیں ہمیشہ اپنی دعاؤں میں یاد کرتا رہوں ۔
10 میں اپنی دعاؤں میں ہمیشہ یہ درخواست کرتا ہوں کہ خدا کی مرضی سے تمہا رے پاس آنے میں کس طرح کامیابی ہو۔
11 میں تمہا ری ملاقات کا مشتاق ہوں۔ تا کہ میں تم سے ملکر کچھ روحانی نعمت دینا چاہتا ہوں جس سے تم مضبو ط ہو جا ؤگے۔
12 میرا مطلب ہے کہ میں بھی تمہا رے درمیان آپس میں تمہا رے ایک دوسرے کے ایمان کے ساتھ بندھارہا ہوں تمہا را یقین مجھے مدد کریگا اور میرا یقین تمہا ری مدد کریگا ۔
13 میرے بھا ئیو اور بہنوں! میں چاہتا ہوں کہ تم کو آ گاہ کروں کہ میں نے بار بار تمہارے پاس آنے کا ارادہ کیا تا کہ جیسا پھل میں نے غیر یہودیو ں میں حاصل کیا ہے ویسا ہی تم سے بھی حاصل کر سکوں۔ مگر اب تک رکا رہا ۔
14 مجھ پریونانیوں اور غیریو نانیوں ، داناؤں اور بیوقوفوں کا قرض ہے ۔
15 اسی لئے مجھے تم لوگوں کو بھی جو کہ روم میں ہو خوش خبری سنانے کا بیحد شوق ہے ۔
16 میں خوش خبری سے شرمندہ نہیں ہو ں کیوں کہ وہ خدا کی ایک قوت ہے جس سے خدا ایمان رکھنے والے ہر ایک کو نجات دیتا ہے ۔ پہلے یہودیوں اور غیر یہودیوں کے لئے بھی ۔
17 کیوں کہ خوش خبری میں یہ ظاہر کیا گیا ہے کہ خدا انسان کو کیسے اپنے تئیں کیسے راست باز بناتا ہے یہ آغاز سے انجام تک یقین پر مبنی ہے جیسا کہ لکھا ہے کہ “جو شخص ایمان سے خدا کے ساتھ راستباز ہے ہمیشہ جیتا رہے گا ۔
18 خدا کا غضب آسما ن سے لوگوں کے برے کاموں اور بدکاریوں کے خلاف نازل ہو تا ہے ۔ ان لوگوں کے پاس سچا ئی ہے لیکن اپنی بد کاری کی زندگی سے سچا ئی کو چھپا ئے رکھتے ہیں۔
19 اس لئے اایسا ہو رہا ہے کیوں کہ خدا کے بارے میں وہ ہر طرح کی جانکاری رکھتے ہیں۔ حقیقت میں خدا نے اس کو واضح کر دیا ہے ۔
20 اس کی ا ن دیکھی صفتیں یعنی اس کے ازلی قدرت اور اس کی الوہیت دنیا کی پیدائش کے وقت سے بنائی ہوئی چیزوں سے معلوم ہوکر صاف نظر آتی ہیں۔ اس لئے لوگوں کے پاس کو ئی بہانا نہیں رہا۔
21 اگر چہ انہوں نے خدا کو جان تو لیاہے لیکن اس کی خدا ئی کے لا ئق تمجید اور شکر گذاری نہ کی بلکہ وہ ایسے خیالات میں باطل ہو گئے اور ان کے بے وقوف دلوں پر اندھیرا چھا گیا۔
22 اگر چہ وہ عقلمند ہو نے کا دعویٰ کرکے بے وقوف بن گئے۔
23 اور غیر فانی خدا کے جلا ل کو فانی انسانوں پرندوں، چوپایوں اور رینگنے والے جانوروں سے ملتی جلتی صورتوں میں انہوں نے بدل ڈا لا ۔
24 اسی لئے خدا نے ان کے دلوں کو ناپاک کاموں بری خواہشوں کے حوالے کر دیا اس لئے کہ وہ گناہوں میں پڑکر ایک دوسرے کے جسم کی بے عزتی کر نے لگے ۔
25 انہوں نے انکے جھوٹ کے ساتھ خدا کی سچائی کو تبدیل کر ڈا لا۔اور مخلو قات کی زیادہ پرستش اور عبادت کی بہ نسبت اس خالق کے جو ابد تک محمود ہے ۔ آمین ۔
26 اس لئے خدا نے انکو گندی شہوتوں کے حوالے کر دیا ۔ یہاں تک کہ انکی عورتوں نے جنسی فعل کو خلاف فطرت فعل ے بدل ڈا لا ۔
27 اسی طرح مردوں نے عورتوں کے ساتھ فطری جنسی کا م چھوڑ دیا اور آپس میں جنسی خواہشات میں مست ہو گئے اور انہیں اپنی گمراہی کا پھل بھی مناسب ملنے لگا ۔
28 چونکہ انہوں نے خدا کو پہچاننا پسند نہ کیا اسی لئے خدا نے بھی ان کو چھوڑ دیا ۔ اور ا ن لوگوں کو نالائق حرکتیں کر نے کی چھوٹ دے دی ۔ اور وہ ایسی بری حرکتیں کر نے لگے جو نہیں کر نی چاہئے تھیں ۔
29 پس وہ ہر طرح ناراستی بدی لالچ اور بد خواہی سے بھر گئے اور حسد خونریزی جھگڑے مکّاری اور دوسروں کے بارے میں غلط سوچنا اور دوسروں کے خلاف بری باتیں کر تے رہنے میں مشغول ہو گئے من گھڑت کہانیاں دوسرو ں کے خلاف گھڑتے رہتے ہیں ۔
30 وہ تہمت لگا نے والے خدا سے نفرت کر نے والے گستاخی کر نے والے ، مغرور شیخی باز بد یوں کے بانی اور ماں باپ کے نا فر مان ہیں ۔
31 وہ بے وقوف اپنے وعدے توڑنے والے محبت سے خالی اور بے رحم ہیں ۔
32 حالانکہ وہ راست بازخدا کے حکم کو جانتے ہیں جس کے مطا بق ایسا کر نے سے موت کی سزا کے لا ئق ہو نگے با وجود اسکے ایسے کام کر تے ہیں بلکہ ویسا ہی کر نے والوں سے اتفاق کر تے ہیں ۔
2:1 پس میرے دوست انصاف کر نے والے چا ہے کو ئی بھی ہو تیرے پاس کو ئی عذر نہیں کیوں کہ تو دوسرے کو مجرم ٹھہرا تا ہے تو حقیقت میں خود اپنے جرم کی عدالت کریگا ۔ کیوں کہ تو دوسرے کی عدالت کریگا تو خود وہی کر تا ہے ۔
2 ہم جانتے ہیں کہ جو لوگ ایسا کام کر تے ہیں ۔ خدا انہیں انصاف حق کے مطا بق دیگا ۔
3 لیکن اے میرے دوست کیا تو سوچتا ہے کہ تو جن کاموں کے لئے دوسروں کو قصور وار ٹھہرا تا ہے اپنے آپ ویسا ہی کام کر تا ہے کیا تو سوچتا ہے کہ تو اپنے عمل سے خدا کے انصاف سے بچ جائیگا ؟
4 کیا تو اس کی مہر بانی ، تحمل اور صبر کی دولت کو نا چیز سمجھتا ہے ؟ کیا تو نہیں سمجھتا کہ خدا کی مہر بانی تجھ کو تو بہ کی طرف مائل کر تی ہے ؟
5 بلکہ تو اپنی سختی اور تو بہ نہ کر نے والے دل کے مطا بق اُس قہر کے دن کے لئے اپنے واسطے خدا کا غضب پیدا کر رہا ہے جس دن خدا کی سچی عدالت ظا ہر ہو گی ۔
6 خدا ہر کسی کو اس کے کاموں کے موافق بد لہ دیگا ۔
7 جو لگاتار اچھے کام کر تے ہو ئے جلال اور عزت اور بقا کے طا لب ہو تے ہیں انہیں وہ بد لے میں ابدی زندگی دیگا ۔
8 لیکن جو اپنی خود غر ضی سے سچائی کے منکر ہو کر بدی کا راستہ اختیار کر تے ہیں انہیں بدلے میں خدا کا غضب اور قہر ملیگا ۔
9 لیکن مصیبت اور تنگی ہر ایک برے کام کر نے والے پر آئیگی ۔ پہلے یہودی پر اور پھر غیر یہودی پر ۔
10 اور جو کوئی اچھا کام کر تا ہے اسے جلال ،عزت اور سلامتی ملیگی ۔ پہلے یہودی کو اور پھر غیر یہودی کو ۔
11 کیوں کہ خدا جانب دار نہیں ہے ۔
12 جنہوں نے بغیر شریعت پا ئے گناہ کیا لیکن بغیر شریعت ہلاک بھی ہو نگے اور جنہوں نے شریعت کے ما تحت ہو کر گناہ کیا انکا فیصلہ شریعت کے موافق ہوگا ۔
13 کیون کہ شریعت کو صرف سننے والے راست باز نہیں ٹھہرا ئے جا سکتے بلکہ شریعت پر عمل کر نے والے راستباز ٹھہرا ئے جائیں گے ۔
14 اس لئے کہ جب غیر یہودی جن کے پاس شریعت نہیں ہے بلکہ اعمال سے ہی شریعت کی باتوں پر چلتے ہیں تب چاہے انکے پاس شریعت نہ رہے تو بھی وہ اپنی شریعت آپ ہیں ۔
15 چنانچہ وہ شریعت کی جو باتیں اپنے دلوں پر لکھی ہو ئی دکھا تے ہیں انکا ضمیر بھی ان باتوں کی گواہی دیتا ہے اور انکے خیالات یا تو ان پر الزام لگا تے ہیں یا انکا د فاع کر تے ہیں ۔
16 یہ تمام باتیں اس دن ہو گی جب خدا انسان کی پو شیدہ باتوں کی عدالت کریگا ، جس خوشخبری کو میں نے لوگوں سے کہی اس کے تحت یسوع مسیح کی معرفت خدا لوگوں کا انصاف کریگا ۔
17 لیکن اگر تو اپنے آپکو یہودی کہتا ہے تو شریعت پر ایمان رکھتا ہے اور اپنے خدا کا تجھے فخر ہے ۔
18 اور تو اسکی مرضی جانتا ہے ۔ شریعت تجھے جو سکھا تی ہے اسکے مطا بق تو اہم چیزیں چن لے سکتا ہے ۔
19 اور یہ مانتا ہے کہ اندھوں کا رہنما ہے اور جو اندھیرے میں بھٹک رہے ہیں انکے لئے تو روشنی ہے ۔
20 تو سمجھتا ہے کہ تو بے وقوف کو تربیت دینے والا ہے اور جن کو ابھی تعلیم کی ضرورت ہے انکا تو استاد ہے اور علم اور حق کا جو نمونہ شریعت میں ہے وہ تیرے پاس ہے ؟
21 پس تو جو اوروں کو سکھا تا ہے اپنے آپکو کیوں نہیں سکھا تا ؟ کہ چوری نہ کرنا لیکن خود کیوں چوری کر تا ہے ؟
22 تو جو دوسروں سے کہتا ہے کسی سے زنا نہیں کر نا چاہئے پھر خود کیوں زنا کر تا ہے ؟تو جو بتوں سے نفرت کر تا ہے عبادت گاہوں کی دولت خود کیوں لوٹتا ہے ؟
23 تو جو شریعت کے بارے میں شیخی بگھار تا ہے پھر بھی شریعت کی خلاف ورزی سے خدا کی بے عزتی کر تا ہے ۔
24 چنانچہ تحریر کہتی ہے “تمہارے ہی سبب سے غیر یہودیوں میں خدا کے نام کی بے عزتی ہو تی ہے ۔”
25 اگر تم شریعت پر عمل کرتے ہو تو ختنہ سے فائدہ ہے لیکن اگر تم شریعت کو توڑ تے ہو تو تمہارا ختنہ کر نا نہ کر نے کے برابر ہے ۔
26 اگر کسی کا ختنہ نہیں ہوا ہے وہ شریعت کے حکم پر عمل کرے تو کیا اسکی نا مختونی ختنہ کے برابر نہ گنی جائیگی ۔
27 ایک شخص جس کا ختنہ نہیں ہوا ہے لیکن شریعت پر چلتا ہے تو وہ تجھے شریعت کی نا فر مانی کر نے کا قصور وار ٹھہرا ئے گا ۔ تمہارے پاس لکھی ہو ئی شریعت ہے اور ختنہ شدہ بھی لیکن تم شریعت کو توڑتے ہو ۔
28 جو بظا ہر یہودی ہے وہ سچا یہودی نہیں ہے ۔ جو بظا ہر ختنہ ہے وہ حقیقت میں ختنہ نہیں ہے ۔
29 سچا یہودی وہی ہے جو باطن سے یہودی ہے ۔ ختنہ صحیح وہی ہے جو دل سے کی گئی ہو۔ یہ روح سے کیا جاتا ہے لکھی ہو ئی شریعت سے نہیں ۔ اور جو شخص دل سے ختنہ شدہ ہے انکی تعریف لوگوں سے نہیں خدا کی طرف سے ہو تی ہے ۔
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
3:1 پس یہودی ہو نے کا کیا خاص فائدہ اور ختنہ کا کیا خاص فائدہ ؟
2 ہر طرح سے یہ ایک عظیم فائدہ ہے پہلے خدا کی تعلیم کو انکے سپرد کیا گیا ۔
3 اگر ان میں سے بعض نافرمان ہو بھی گئے تو کیا ہے کیا انکی بے وفائی خدا کی وفا داری کو باطل کر سکتی ہے ؟
4 ہر گز نہیں اگر ہر کو ئی جھو ٹا بھی ہے تو بھی خدا ہمیشہ سچا ٹھہرے گا ۔ جیسا کہ تحریریں کہتی ہیں کہ
5 اگر ہماری نا انصافی خدا کی انصاف کی خوبی کو ظا ہر کر نے میں مدد دیتی ہے تو کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ جب خدا ہمیں سزا دیتا ہے توغلط کر تا ہے ۔ یہ میری سوچ ہے شاید کہ دوسرے لوگوں کی بھی یہی سوچ ہو ۔
6 ہر گز نہیں، ور نہ خدا کیوں کر دُنیا کا انصاف کریگا ؟
7 شاید کو ئی یہ کہے کہ، “اگر میرے جھوٹ کی وجہ سے خدا کی سچائی اس کے جلال کے واسطے اور زیادہ ظا ہر ہو تی ہے تو پھر مجھے گنہگار کیوں قرار دیا جاتا ہے ؟”
8 تب پھر ہم کیوں نہ کہیں آؤ!برے کام کریں تا کہ بھلا ئی پیدا ہو !جیسا کہ ہمارے بارے میں کچھ لوگ ہم پر غلط تہمت لگاتے ہیں کہ ہم ایسا کہتے ہیں وہ لوگ سزا پا ئیں گے جس کے وہ مستحق ہیں ۔
9 پس کیا ہوا ؟ کیا ہم یہودی غیر یہودیوں سے اچھے ہیں ؟ نہیں ! کیوں کہ ہم یہودیوں اور غیر یہودیوں دونوں پر پیشتر ہی یہ الزام لگا چکے ہیں کہ وہ تمام گناہ کے تحت ہیں ۔
10 جیسا کہ صحیفہ کہتا ہے :
11 کو ئی سمجھدار نہیں ۔ایک بھی نہیں ۔
12 سب گمراہ ہیں
13 “انکے منھ کھلی قبر کی طرح ہیں
14 “ا ن کا منھ لعنتوں اور کڑواہٹ سے بھرا ہے ۔”
15 “قتل کر نے کو وہ ہر دم تیز رہتے ہیں ۔
16 وہ جہاں جاتے ہیں تباہی اور بد حا لی لا تے ہیں ۔
17 انکو سلامتی کی راہ کا پتہ نہیں۔”
18 “انکی آنکھوں میں خدا کا خوف نظر نہیں آتا ۔”
19 اب ہم یہ جانتے ہیں کہ شریعت میں جو کہا گیا ہے ان سے کہا گیا ہے جو شریعت کے پا بند ہیں ۔ تا کہ ہر منھ کو بند کیا جا سکے اور ساری دنیا خدا کے انصاف میں آسکے ۔
20 کیوں کہ شریعت پر عمل کر نے سے کو ئی بھی شخص خدا کے سامنے راستباز نہیں ٹھہرے گا ۔ کیوں کہ شریعت کے وسیلہ سے ہی تو گناہ کا پہچان ہو تا ہے ۔
21 لیکن خدا کا طریقہ کارہے کہ شریعت کے بغیر انسان کوراستباز بنا تا ہے اور خدا نے اب ہم کو وہ راہ دکھا ئی ہے ۔ اس راہ کے بارے میں شریعت اور نبیوں نے گوا ہی دی ہے ۔
22 خدا یسوع مسیح میں لوگوں کو ان کے ایمان کے تحت راستبا ز بناتا ہے۔یہ ان کے لئے جو بغیر کسی فرق کے یقین رکھتے ہیں۔
23 کیوں کہ سب نے گناہ کیا ہے اور سبھی خدا کے جلال کو نہیں پا سکتے۔
24 خدا لوگوں کو راستباز بناتا ہے اپنی مہر بانی سے یہ مفت آزادانہ تحفہ ہے ۔ یسوع مسیح کے وسیلے سے گناہوں سے چھٹکارا دلا کر خدا لوگوں کو راستبا ز بناتا ہے ۔
25 خدا نے یسوع کو دنیا میں اس طریقہ سے دیا تا کہ ان کے ایمان کی وجہ سے گناہوں سے چھٹکارا دلا ئے ۔ اس نے یہ کام یسوع کے خون سے کیا خدا نے یہ بتانے کے لئے کیا کہ وہ اپنے تمام ا عمال میں راستباز ہے۔ ماضی میں وہ راستباز تھا جب اس نے لوگوں کو ان کے گناہوں کے لئے بغیر سزا اس کے صبر کی وجہ سے چھوڑ دیا ۔
26 بلکہ اس وقت اس کی راستبازی ظا ہر ہو تا کہ وہ خودبھی عادل رہے اور جو یسوع پر ایما ن لا ئے ۔ اس کو بھی راست باز بنائے گا۔
27 اس طرح انسا نی فخر کہاں رہا ؟وہ ختم ہو گیا ۔ کیوں کہ کونسی شریعت سے؟کیا اعمال کی شریعت سے ؟نہیں یہ ایمان کی شریعت سے ۔
28 کیوں کہ یہ یقین ہے کہ جس سے آدمی را ستبا ز ہو تا ہے اور شریعت کے اعمال کو نہیں مانتا ۔
29 یا کیا خدا صرف یہودیوں کاخدا نہیں ہے ؟ کیا وہ غیر یہودیوں کا بھی خدا نہیں ہے ؟ہاں وہ غیر یہودیوں کا بھی ہے ۔
30 چونکہ خدا ایک ہے وہ یہودیوں کو انکے ایمان کی وجہ سے راستباز بنائے گا ۔ غیر یہودیوں کو بھی انکے ایمان ہی کے وسیلہ سے راستباز بنائیگا ۔
31 لیکن کیا ہم شریعت کو ایمان پر عمل کر نے سے باطل کر تے ہیں ؟ نہیں ہر گز نہیں ۔ بلکہ ایمان ہمیں ایسا بنا تا ہے جس طرح سے شریعت چاہتی ہے کہ سچ مچ میں ایسا ہو ۔
4:1 تو پھر ہم کیا کہہ سکتے ہیں ہمارے اجداد ابراہیم ؟کے ایمان کے بارے میں کہ وہ کیا سیکھا ہے ؟
2 اگر ابرا ہیم کو اس کے اعمال کے تحت راستباز ٹھہرا یا جاتا ہے تو اسکے فخر کر نے کی بات تھی لیکن خدا کے آگے وہ فخر نہیں کر سکتا ۔
3 صحیفہ کیا کہتا ہے ؟ “ابرا ہیم نے خدا پر ایمان لا یا ۔اور خدا نے اسکے ایمان کو قبول کیا ۔ اور خدا نے اسے راستباز بنایا”
4 کام کر نے والے کو مزدوری دینا تحفہ نہیں ہے کیکن وہ تو اسکی کمائی ہے۔
5 لیکن اگر کو ئی شخص کام کر نے کے بجائے اس خدا پر ایمان لا تا ہے جو گنہگار کو راستباز بنا دیتا ہے تو اسکا ایمان اسکی راستبازی کا سبب بن گیا ۔
6 ایسے ہی داؤد بھی اسے مبارک کہتا ہے جسے اعمال کے بغیر ہی خدا راستباز ٹھہرا تا ہے ۔
7 “مبارک ہیں وہ
8 مبارک ہے وہ شخص
9 پس کیا یہ مبارک بادی صرف ان ہی کے لئے ہے جو مختون ہیں یا ان کے لئے بھی جو غیر مختون ہیں ہاں یہ ان پر بھی لا گو ہو تا ہے جو غیر مختون ہے ہم نے کہا، “ابرا ہیم کا ایمان ہی اس کے لئے راستبازی گنا گیا ۔”
10 تو ایسا کب ہوا ؟جب اسکا ختنہ ہو چکا تھا یا جب وہ نا مختون تھا ۔ نہیں ختنہ ہو نے کے بعد نہیں بلکہ جب وہ نا مختون تھا۔
11 اور اس نے ختنہ کا نشان پا یا ۔ اس کے ایمان کی وجہ سے اس کی راست بازی پر مہر لگا دی گئی جبکہ اس نے دکھا یا کہ وہ ابھی تک نا مختون ہے تا کہ وہ سب لو گوں کا باپ ٹھہرے جو با وجود نا مختون ہو نے کے ایمان رکھتے ہیں ۔ اور انکا ایمان بھی انکے لئے راستبازی میں گنے جائیں گے ۔
12 اور وہ انکا بھی باپ ہو جو مختون ہو ئے ہیں ہمارے باپ ابراہیم ان کے باپ ہیں اگر وہ ختنہ پر انحصار نہ کریں بلکہ ہمارے باپ ابرا ہیم کے ایمان کی مثال کی پیروی کریں جو اسکا تھا جب کہ وہ ابھی تک غیر مختون تھا۔
13 کیوں کہ یہ وعدہ کہ وہ دنیا کا وارث ہو گا نہ ابراہیم سے اور نہ اسکی نسل سے نہ شریعت کے ذریعہ سے کیا گیا تھا بلکہ راستبازی کے ذریعہ سے جو ایمان کا نتیجہ ہے ۔
14 کیوں کہ اگر شریعت والے ہی وارث ہوں تو ایمان کا کو ئی معنیٰ نہیں رہتا ۔ اور وعدہ بھی بیکار ہو جا تا ہے ۔
15 کیوں کہ شریعت خدا کا غضب لا تی ہے جہاں شریعت نہیں وہاں عدول حکمی بھی نہیں ۔
16 اسی لئے خدا کا وعدہ ایمان کا پھل ہے اور وہ وعدہ ابراہیم کی تمام نسلوں کے لئے مفت تحفہ کی مانند ہے یہ تحفہ نہ صرف انکے لئے جو شریعت کو مانتے ہیں بلکہ ان سب کے لئے جو ابراہیم کی مانند ایمان رکھتے ہیں جو ہم سب کا باپ ہے ۔
17 صحیفوں میں لکھا ہے کہ“میں نے تجھے کئی قوموں کا باپ بنایا“خدا کی نظر میں وہ سچ ہے ابرا ہیم خدا پر ایمان لایا ۔ جو مرے ہو ئے لوگوں کو زندگی دیتا ہے اور جو چیزیں وجود میں نہیں ہیں ان کو اسی طرح بلا لیتا ہے گو یا وہ ہیں ۔
18 وہ نا امیدی کی حالت میں امید کے ساتھ ایمان لا یا چنانچہ ابرا ہیم بہت سی قوموں کا باپ ہوا جیسا کہ کہا گیا “تمہاری نسل بے شمار ہو گی”
19 اور وہ تقریباً سو برس کا تھا ۔ اپنے مردہ جسم کے باوجود اور سارہ کے بانجھ پن کے لحاظ کے با وجود اس نے اپنے ایمان کو کمزور نہ کیا۔
20 خدا کے دعدے کا منتظر رہا اپنے ایمان کو نہیں کھو یا اتنا ہی نہیں ایمان کو اور مضبوط کر تے ہو ئے خدا کی تمجید کی ۔
21 اسے پو را یقین تھا کہ خدا نے اسے جو وعدہ دیا ہے اسے پو را کر نے پر وہ قا در ہے ۔
22 اور اسلئے خدا نے انکی ایمان کی وجہ سے انکو راستباز بنایا ۔”
23 اور الفاط کہ “انکی ایمان کی وجہ سے انکو راستباز بنایا” نہ صرف اس کے لئے لکھا گیا ہے بلکہ ہمارے لئے بھی ہے۔
24 ہمارا ایمان گنا جائیگا اس لئے کہ ہم ایمان رکھتے ہیں ، ہم انہی پر ایمان رکھتے ہیں جس نے ہمارے خداوند یسوع کو مردوں میں سے زندہ کیا ۔
25 یسوع کو ہمارے گناہوں کے لئے موت کے حوالہ کر دیا گیا ۔ اور ہمیں راستباز بنانے کے لئے مر نے کے بعد جلا یا گیا ۔
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
5:1 کیوں کہ ہم اپنے ایمان کے سبب خدا کے لئے راست باز ہو گئے ہیں ۔ خداوند یسوع مسیح کے وسیلے سے خدا کی طرف سے ہمیں سلامتی ہے ۔
2 کیوں کہ جس کے وسیلے سے اور ایمان کے سبب سے اس فضل تک ہما ری رسائی ہو جس پر قائم ہیں اور خدا کے جلا ل کی امید پر فخر کریں گے۔
3 صرف یہی نہیں کہ ہم اپنی مصیبتوں میں خوش رہیں گے کیوں کہ ہم جانتے ہیں کہ مصیبت سے صبر پیدا ہو تا ہے۔
4 اور صبر سے پختگی اور پختگی سے امیدپیدا ہو تی ہے ۔
5 اور امید ہمیں نا امید نہیں ہو نے دیتی کیوں کہ مقدس روح جو ہم کو بخشا گیا ہے اس کے وسیلہ سے خدا کی محبت ہما رے دلوں میں ڈالی گئی ہے۔
6 کیوں کہ جب ابھی ہم کمزور ہی تھے صحیح وقت پر مسیح نے ہمارے لئے جبکہ ہم خدا کے خلاف تھے اپنی جان تک دیدی۔
7 اب دیکھو کسی راستباز انسان کے لئے بھی مشکل ہی سے کوئی اپنی جان دیگا۔کسی اچھے آدمی کے لئے شاید کوئی اپنی جان تک دے دینے کی جرات کرے۔
8 لیکن خدا اپنی محبت ہم پر یوں ظاہر کرتا ہے جب کہ ہم بھی گنہگار تھے۔ مسیح نے ہمارے لئے اپنی جا ن دی۔
9 کیوں کہ اب جب ہم انکے خون کے باعث راستبازہو گئے ہیں تو اب ان کے وسیلہ سے خدا کے غضب سے یقینی طور پربچیں گے۔
10 کیوں کہ جب ہم خدا کے دشمن تھے اس نے اپنے بیٹے کی موت کے وسیلے سے خدا سے ہما را میل کرایا اب جبکہ ہمارا میل خدا سے ہو چکا ہے تو اس کی زندگی سے ہمارا اور مزیدتحفظ ہوگا۔
11 صرف یہی نہیں ہے ہم ا پنے خداوندیسوع مسیح کے وسیلے سے اب ہمارا خدا کے ساتھ میل ہو گیا۔ اس لئے ہم خدا پر اپنے خداوندیسوع مسیح کے ذریعہ فخر کر سکتے ہیں۔
12 جس طرح ایک آدمی کے سبب گناہ دنیا میں آیا اور گناہ سے موت آئی اور یہ موت سب آدمیوں میں پھیل گئی اس لئے کہ سبھی نے گناہ کئے تھے۔
13 اب دیکھو شریعت کے آنے سے پہلے دنیا میں گناہ تھا لیکن جب تک شریعت نہیں آئی کسی کا بھی گناہ نہیں گنا گیا ۔
14 لیکن آدم سے لے کرموسیٰ تک موت ہر ایک پر حکومت کرتی رہی۔ موت ان پر بھی ویسے ہی حاوی رہی جنہوں نے آدم کی مانند گناہ نہیں کئے تھے۔
15 لیکن خدا کی نعمت آدم کے گناہ جیسی نہیں تھی کیوں کہ اگر ایک شخص کے گناہ کے سبب سے سبھی لوگوں کی موت ہوئی تو اس ایک شخص یسوع مسیح کے فضل کے وسیلے سے خدا کی مہر بانی اور اس کی بخشش تو سبھی لوگوں کی بھلا ئی کے لئے افراط سے نازل ہو ئی۔
16 اور یہ بخشش کا ویسا حال نہیں جیسا آدم کے گناہ کرنے کا ہوا۔ آدم سے ایک بار گناہ سر زد ہو نے کے بعد وہ قصور وار ٹھہرا۔ لیکن خدا کے فضل سے بہت سے گناہ کر نے کے بعد لوگوں کو راستباز ٹھہرا نے کا حکم آیا۔
17 کیوں کہ ایک شحص کے گناہ کے سبب موت سب لوگوں پر حاوی ہو گئی تو کچھ لوگ خدا کا بے انتہا فضل اور بخشش حا صل کر تے ہیں جو انہیں راستباز بنا تے ہیں ۔ وہ ایک شخص یعنی یسوع مسیح کے وسیلے سے وہ لوگ ضرور حقیقی زندگی حاصل کریں گے اور حکو مت کریں گے ۔
18 غرض جیسے ایک گناہ کے سبب سے سبھی لوگوں کو سزا ملی ۔ویسے ہی راستبازی کے ایک کام کے وسیلے سے سب آدمیوں کو وہ نعمت ملی جو راستباز ٹھہر کر سچّی زندگی پا ئی ۔
19 لیکن اس ایک شخص کی نا فر مانی کے سبب سب لوگ گنہگار ٹھہرے ویسے ہی اس ایک شخص فرمانبرداری کے سبب سبھی لوگ راستباز بنادیئے جائیں گے ۔
20 شریعت کے وجود میں آنے کی وجہ سے گناہ بڑھ جائیں گے ۔ جہاں گناہ بڑھے وہاں خدا کا فضل اس سے زیا دہ ہوا ۔
21 جس طرح گناہ کی وجہ سے موت نے بادشاہی کی اس طرح فضل بھی ہمارے خداوند یسوع مسیح کے وسیلے سے ابدی زندگی کے لئے راستبازی کے ذریعے سے بادشاہی کرے ۔
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
6:1 پس ہم کیا کہیں ؟ کیا گناہ ہی لگا تار کر تے رہیں تا کہ خدا کی نہ مہربانی برھتی رہے ؟
2 ہر گز نہیں ۔ ہم گناہ کے لئے مر چکے ہیں کیوں کہ ہم گناہوں میں آئندہ کی زندگی کیسے گزاریں؟
3 کیا تم نہیں جانتے کہ ہم جتنوں نے یسوع مسیح میں شامل ہو نے کے لئے بپتسمہ لیا ہے تو اسکی موت میں شا مل ہو نے کا بپتسمہ لیا ہے ۔
4 جب ہم نے بپتسمہ لیا تو ہم بھی اسکے ساتھ اس کی موت میں شریک ہو ئے اس کے ساتھ دفن بھی کر دیئے گئے تا کہ مسیح باپ کے جلال کے وسیلے سے مرے ہو ؤں میں جلا دیا گیا تھا ویسے ہی ہم بھی اسی طرح ایک نئی زندگی پائیں گے ۔
5 کیوں کہ ہم اسکی موت کی مشابہت سے اسکے ساتھ وابستہ ہو گئے ۔ اس سے اس کے جی اٹھنے کی مشابہت میں بھی اس کے ساتھ وا بستہ ہونگے ۔
6 ہم جانتے ہیں کہ ہماری پرانی انسانی فطرت مسیح کے ساتھ اس لئے مصلوب کی گئی کہ ہمارے گناہ کا بدن تباہ ہو جائے سبب یہ ہے کہ ہم آگے کے لئے گناہ کے غلام نہ بنے رہیں ۔
7 کیوں کہ جو مرگیا وہ گناہ کے بندھن سے آزاد ہو گیا ۔
8 اور جیسا کہ ہم مسیح کے ساتھ مر گئے تو ہمیں یقین ہے کہ ہم اسی کے ساتھ جئیں گے بھی ۔
9 ہم جانتے ہیں کہ مسیح جسے مرے ہو ؤں میں سے زندہ کیا گیا تھا پھر نہیں مرے گا ۔ اس پر موت کا اختیار کبھی نہیں ہو گا ۔
10 گناہ کو شکشت دینے کے لئے ایک ہی بار مرے ہیں ۔ لیکن جو زندگی وہ اب جی رہے ہیں وہ زندگی خدا ہی کی ہے ۔
11 اسی طرح تم اپنے لئے بھی سوچو تم گناہ پر مر چکے ہو لیکن خدا کے لئے یسوع مسیح میں زندہ ہو ۔
12 پس گناہ تمہارے فانی بدن میں بادشاہی نہ کرے اس لئے تم اس گناہ کی خواہشوں پر نہ چلو ۔
13 اپنے بدن کے حصّے کو گناہ کی خدمت کے لئے حوالہ نہ کرو تمہارے جسم برائیاں کر نے کے لئے اوزار نہ بنے اسکی بجائے مرے ہو ؤں میں سے اب زندہ رہنے والوں کی مانند خدا کی خدمت کے لئے حوالے کر دو ۔ اور اپنے بدن کے حصّے کو صحیح کام کے اوزار ہو نے کے لئے خدا کی خدمت کے لئے حوالے کردو ۔
14 اس لئے کہ تم پر گناہ کا اختیار نہ ہو چو ں کہ تم شریعت کے تا بع نہیں ہو بلکہ خدا کے فضل کے سہارے جی رہے ہو ۔
15 تب ہم کیا کریں ؟ کیا ہم گناہ کریں کیوں کہ ہم شریعت کے تا بع نہیں بلکہ فضل کے تا بع ہیں ؟ ہر گز نہیں ۔
16 کیا تم نہیں جانتے کہ تم جسکی فرماں برداری کے لئے اپنے آپکو غلا موں کی طرح حوالہ کر دیتے ہو تب تم اسی شخص کے غلام ہو ۔ وہ تمہارا مالک ہے خواہ تم خدا کو یا گناہ کو اپنا مالک مانتے ہو ۔ گناہ کی فرماں برداری روحانی موت اسکا نتیجہ ہے جس طرح خدا کی فرماں برداری کا انجام راستبازی ہے ۔
17 گزرے زمانے میں تم گناہ کے غلام تھے مگر خدا کا شکر ہے کہ تم اپنے پورے دل سے طریقہ علم میں جو تمہیں سکھا یا گیا اسکے فرماں بردار بنو ۔
18 تمہیں گناہ سے نجات مل گئی اور تم راست بازی کے غلام بن گئے ہو ۔
19 ( میں اس زبان کو استعمال کررہا ہوں جسے سبھی لوگ سمجھ سکیں لیکن اسے سمجھنا تم لوگوں کے لئے مشکل ہے ) گذرے ہو ئے زما نے میں تم نے اپنے بدن کے حصے کو بدکاری کرنے کے لئے ناپا کی اور غلا می کی خدمت کے تابع کر دیا تھا اور تم صرف بدی کے لئے جی رہے تھے۔تم لوگ ٹھیک ویسے ہی اپنے بدن کے حصہ کو پاک ہو نے کے لئے راستبازی کی غلا می کی خدمت کے لئے حوالے کردو تب تم صرف خدا کے لئے جی سکو گے۔
20 کیوں کہ جب ہم گناہ کے غلام تھے تو راست بازی کی زندگی سے آزاد تھے
21 اور دیکھو اس وقت تمہیں کیسا پھل ملا پر ان باتوں سے آج تم شرمندہ ہو ۔ کیوں کہ انکا انجام موت ہے ۔
22 اب تم گناہ سے آزاد ہو اور خدا کے غلا م ہو ئے ہو جسکا نتیجہ صرف خدا کے لئے زندگی جو آخر کار یہ ہمیشہ کی زندگی تک پہنچا ئے گی۔
23 کیوں کہ گناہ کی مزدوری موت ہے مگر خدا کی بخشش ہمارے خدا وند یسوع مسیح میں ہمیشہ کی زندگی ہے ۔
7:1 اے بھا ئیو اوربہنو ! کیا تم نہیں جانتے (میں ان لوگوں سے کہہ رہا ہوں جو شریعت کو جانتے ہیں ) کہ جب تک آدمی جیتا ہے اسی وقت تک شریعت اس پر اختیار رکھتی ہے ۔
2 مثال کے طور پر ایک شادی شدہ عورت شریعت کے مطا بق اپنے شوہر کی زندگی تک ہی پابند رہتی ہے لیکن جب اسکا شوہر مر جاتا ہے تو وہ بیاہتا کی پا بندی سے آزاد ہو جا تی ہے ۔
3 شوہر کی زندگی میں اگر کسی دوسرے شخص سے رشتہ رکھے تو وہ زانیہ ہے ۔ لیکن اسکا شوہر مرگیا ہے تو بیاہتا کی شریعت اس پر لا گو نہیں ہو تی یہاں تک کہ اگر وہ دوسرے مرد کی بھی ہو جائے تو بھی وہ حرام کاری کر نے کا قصور وار نہ ٹھہرے گی ۔
4 پس اے میرے بھائیو اور بہنو! تم بھی مسیح کے بدن کے وسیلے شریعت کے اعتبار سے مر چکے ہو اسی لئے اب تم بھی کسی دوسرے کے ہو جاؤ جو مرُدوں میں سے جلایا گیا تاکہ تم خدا کے لئے کھیتی پیدا کر سکو ۔
5 جب ہم گنہگار فطرت کے مطابق جی رہے ہیں اس سے گناہ کے جذبہ کی خواہش جو شریعت کے باعث آئی تھی وہ ہمارے جسموں پر حاوی تھا تا کہ ہم عمل کی ایسی کھیتی کریں جسکا خاتمہ صرف روحانی موت میں ہو ۔
6 لیکن اب ہمیں شریعت سے آزاد کردیا گیا ہے کیوں کہ جس شریعت کے تحت ہم کو قید میں ڈالا گیا تھا ہم اس کے لئے مر چکے ہیں ۔اور اب خدا کی خدمت روحانی طور پر نئے طریقے سے کر تے ہیں نہ کہ لکھے ہوئے پرا نے اصول کے طور پر کر تے ہیں ۔
7 پس ہم کیا کہیں ؟ کیا ہم کہیں کہ وہ شریعت گناہ ہے ؟ نہیں ہر گز نہیں ۔ حقیقت میں اگر شریعت نہ ہو تی تو میں پہچان ہی نہیں پا تا کہ گناہ کیا ہے ؟مثلاًاگر شریعت نہ کہتی کہ “تو خواہش نہ کر کہ وہ تیرا نہیں ہے” تو میں نہ جانتا کہ خواہش کا کرنا غلطی ہے ۔
8 مگر گناہ نے موقع پا کر اس حکم کے ذریعہ سے مجھ میں ہر طرح کی غلط خواہشات پیدا کردی ۔ کیوں کہ شریعت کے بغیر گناہ مردہ ہے۔
9 ایک زمانے میں میں شریعت کے بغیر میں زندہ تھا ۔ مگر جب شریعت آئی تب گناہ زندگی میں ابھر آیا ۔
10 اور میں مر گیا ۔ وہی شریعت جو زندگی کا حکم دینے کے لئے تھی میرے لئے موت لے آئی ۔
11 کیوں کہ گناہ نے موقع پا کر اس حکم کے ذریعے سے مجھے بہکایا اور اسی کے ذریعے سے مجھے مارڈالا۔
12 پس شریعت مقدس ہے اور اسکا حکم بھی مقدس اور راستباز اور اچھا ہے ۔
13 تب پھر کیا اسکا مطلب یہ ہے کہ جو اچھا ئی ہے وہی میری موت کا سبب بنا ؟ہر گز نہیں ۔ بلکہ گناہ میرے واسطے موت لا نے کے لئے کچھ اچھی چیز استعمال کیا یہ ایسا ہوا تا کہ ہم گناہ کو پہچان سکیں ۔ یہ ایسا ہوا یہ ظا ہر کر نے کے لئے کہ گناہ بہت ہی برا ہے ۔ اور اسے ظا ہر کر نے کے لئے حکم کا استعمال کیا گیا ۔
14 کیوں کہ ہم جانتے ہیں کہ شریعت تو روحانی ہے لیکن میں روحانی نہیں ہوں ۔ مگر میں گناہ کے لئے غلام بنکر بکا ہوا ہوں ۔
15 میں نہیں جانتا کہ میں کیا کر رہا ہوں کیوں کہ میں جو کر نا چاہتا ہوں وہ نہیں کر تا ۔ بلکہ جس سے مجھے نفرت ہے اور وہی کر تا ہوں ۔
16 اور اگر چہ میں وہی کر تا ہوں جو مجھے نہیں کرنا چاہئے اس کا مطلب یہ ہے کہ میں قبول کرتا ہوں کہ شریعت خوب ہے ۔
17 لیکن اصل میں میں وہ نہیں ہوں جو یہ سب کچھ کر رہا ہوں یہ گناہ ہے جو مجھ میں بسا ہوا ہے ۔
18 ہاں میں جانتا ہوں کہ مجھ میں یعنی میرے جسم میں کوئی نیکی بسی ہو ئی نہیں ۔ حالانکہ مجھے نیک کام کر نے کی خواہش تو ہے ۔ نیک کام مجھ سے بن نہیں پڑتے ۔
19 کیوں کہ اچھا کام کر نا پسند کرتا ہوں لیکن وہ تو نہیں کر تا ۔ مگر جس برے کام کا ارادہ نہیں کر تا اسے کر لیتا ہوں ۔
20 اور اگر میں وہی کام کر تا ہوں جنہیں نہیں کر نا چاہتا تو اس کا کر نے والا میں نہ رہا بلکہ گناہ ہے جو مجھ میں رہتا ہے ۔
21 غرض میں ایسی شریعت پا تا ہوں کہ جب نیکی کا ارادہ کر تا ہوں تو بدی میرے پاس رہتی ہے ۔
22 کیونکہ باطنی انسانیت کی رو سے میں خدا کی شریعت میں خوش ہوں ۔
23 لیکن میں اپنے جسم میں ایک دوسری ہی شریعت کو کام کر تے دیکھتا ہوں جو میری عقل کی شریعت سے لڑ کر مجھے اس گناہ کی شریعت کی قید میں لے آتی ہے جو میرے بدن میں ہے ۔
24 میں ایک کمبخت انسان ہوں مجھے اس بدن سے جو موت کا نوالہ ہے نجات کون دلائے گا ۔
25 اپنے خداوند یسوع مسیح کے وسیلہ سے میں خدا کا شکر کر تا ہوں ۔
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
8:1 پس اب جو مسیح یسوع میں ہے ان پر سزا کا حکم نہیں۔
2 کیوں کہ روح کی شریعت نے جو مسیح یسوع کی معرفت زندگی دیتی ہے تجھے گناہ کی شریعت سے جو موت کی جانب لے جاتی ہے آزاد کر دیا ۔
3 وہ شریعت کمزور تھی انسان غیر روحانی انسانی فطرت کے سبب سے کامیاب نہ ہوا ۔ اس لئے خدا نے اپنے بیٹے کو ہمارے ہی جیسے انسا نی بدن میں جس کو دوسرے انسان گناہ کے لئے استعمال کر تے ہیں بھیجا ۔ خدا نے اپنے بیٹے کو ہمارے گناہوں کے لئے قربان ہو نے کے لئے بھیجا۔
4 خدا نے یہ اس لئے کیا تا کہ شریعت کا تقاضہ ہما رے لئے مکمل طور پر پو را ہو جو کہ گناہ کی فطرت پر نہیں بلکہ روح کے مطا بق ہے اور ہم اس کے مطا بق چلتے ہیں۔
5 کیوں کہ جو لوگ گناہ کی فطرت کے خوا ہش کے مطا بق چلتے ہیں وہ صرف ان چیزوں کے بارے میں سوچتے ہیں جو ان کے گناہ کی فطرت چاہتی ہے۔لیکن جوروحانی خیالات کے مطا بق چلتے ہیں انکے خیالات گناہ کے مطابق ہو تے ہیں لیکن جو روحانی خیالات کے مطا بق زندہ ہیں انکے خیالات روح کے خیالات کی طرح رہتے ہیں۔
6 جو خیالات ہماری انسانی فطرت کے تابع ہیں اس کا نتیجہ موت ہے۔ اور جو روح کے تابع ہیں اس کا نتیجہ زندگی اور سلامتی ہے ۔
7 یہ کیو ں سچ ہے اس لئے کہ خیال جو انسانی فطرت کے تابع ہے وہ خدا کے خلاف ہے کیوں کہ یہ خدا کی شریعت کے تابع نہیں رہتا ۔ اور اصل میں اہمیت نہیں رکھتا۔
8 او ر وہ جو فطری گناہوں کے تابع زندہ ہیں وہ خدا کوخوش نہیں کر سکتے۔
9 لیکن تم گناہوں کی فطرت میں حکمران نہیں ہو۔ لیکن روحانی ہو ۔ بشرطیکہ خدا کی روح تم میں بسی ہو ئی ہو ۔ لیکن اگر کسی میں مسیح کی روح نہیں ہے تو وہ مسیح کا نہیں ہے ۔
10 تمہا را بدن گناہ کے سبب مردہ ہے اگر مسیح تم میں ہے۔روح تمہیں زندگی دیتی ہے کیوں کہ تم راستباز بنو۔
11 اور اگر اس خدا کی روح جس نے یسوع کو مرے ہو ئے میں سے جلا یا تھا تمہا رے اندر رہتی ہے تو خدا جس نے مسیح کو مرے ہوئے میں سے جلا یا تھا تمہا رے فانی جسموں کو اپنی روح سے جو تمہا رے اندر بسی ہو ئی ہے زندگی دیگی ۔
12 اسی لئے میرے بھائیواور بہنو! ہم قرضدار تو ہیں مگر ہمارے گنہگار فطرت کے نہیں تا کہ ہم گناہوں کی فطرت کی خواہش کے مطابق زندگی گذاردیں۔
13 کیوں کہ اگر تم فطری گناہوں کی خواہش کے مطا بق زندگی گذارو گے تو روحانی موت مرو گے ۔ لیکن اگر تم روح کے وسیلے سے فطری گناہو ں کی خواہش برے کاموں کو کرنا چھوڑ دو گے تم جیتے رہوگے۔
14 جو خدا کی روح کی ہدایت سے چلتے ہیں وہی خدا کے بچے ہیں۔
15 کیوں کہ وہ روح جو تمہیں ملی ہے تمہیں غلام نہیں بناتی۔ جس سے ڈر پیدا نہیں ہوتی ۔ جو روح تم نے پا ئی ہے تمہیں خدا کے چنے ہوئے اولاد بناتی ہے اس روح کے ذریعہ ہم پکار اٹھتے ہیں “ اباّ، اے باپ!”
16 روح خود ہماری روح کے ساتھ مل کر حقیقت کی گوا ہی دیتی ہے کہ ہم خدا کے بچے ہیں۔
17 اور چونکہ ہم اسکے بچّے ہیں تو وارث بھی ہیں۔ یعنی خدا کے وارث اور مسیح کے ہم میراث ہیں بشرطیکہ ہم اس کے ساتھ درد سہیں اور اس کے ساتھ جلا ل بھی پا ئیں۔
18 کیوں کہ میں سمجھتا ہوں اس زما نے کے دکھ درد اس لا ئق نہیں کہ اس آنے والے جلا ل کے تقابل میں ہو جو ہم پر نازل ہو نے والی ہے ۔
19 کیوں کہ مخلو قات کمال آرزو سے خدا کے بیٹوں کے ظاہر ہو نے کی راہ دیکھتی ہے ۔
20 خدا کی بنائی ہوئی تمام اشیاء اس طرح باطل کے تابع ہوں گی اپنی مرضی سے نہیں ہوں گی بلکہ خدا نے خود فیصلہ کیا کہ اس کے حوالے کردے ۔
21 اس لئے ہم جانتے ہیں کہ تمام مخلوقات اب تک درد زہ اسی طرح تڑپتی کراہتی ہیں اس لئے کہ تمام مخلوقات اپنی فانی غلا می سے چھٹکا رہ پا کر خدا کے بچوں کے جلا ل کی آزادی میں شا مل ہوں گے ۔
22
23 اور نہ صرف وہی بلکہ ہم میں جنہیں روح کا پہلا پھل ملا ہے ہم اپنے اندرکراہتے رہے ہیں۔ہمیں اس کے بچے ہو نے کے لئے مکمل طور سے انتظار ہے جب کہ ہمارا بدن چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے انتظار کر رہا ہے ۔
24 ہمیں نجات ملی ہے ۔ اسی سے ہما رے دل میں امید ہے لیکن جب ہم جس کی امید کر تے ہیں اسے دیکھ لیتے ہیں تو وہ حقیقی امید نہیں رہتی ۔ لوگوں کے پاس جو چیز ہے اس کی امید کون کر سکتا ہے۔
25 لیکن اگر ہم جسے دیکھ نہیں رہے اس کی امید کرتے ہیں تو صبروتحمل کے ساتھ اس کی راہ کو دیکھتے ہیں۔
26 ایسے ہی روح ہماری کمزوری میں مدد کرنے آتی ہے کیوں کہ ہم نہیں جانتے کہ ہمکس طرح سے دعا کریں۔ مگر روح خود آ ہیں بھر کر چلا ّ کر خدا سے ہما ری شفاعت کرا تی ہے جن کا بیان الفاظ میں ممکن نہیں۔
27 لیکن وہ جو دلوں کو پرکھنے وا لا روح کے دماغ کو جانتا ہے کہ روح کی کیا نیت ہے کیوں کہ خدا کی مرضی سے ہی وہ خدا سے اپنے لوگوں کے لئے بات کر تی ہے۔
28 ہم کو معلوم ہے کہ سب چیزیں مل کر خدا سے محبت رکھنے والوں کے لئے بھلا پید ا کرتی ہیں یعنی ان کے لئے جو خدا کے مقصد کے مطا بق بلا ئے گئے۔
29 خدا نے اس دنیا کے پیدا ہو نے سے پہلے ہی ان لوگوں کو مقرر کیا ۔ اور اپنے بیٹے کی ہمشکل میں رہنے کیلئے طے کیا۔تا کہ سب بھائیوں اور بہنوں میں وہ پہلا ہونا چاہئے۔
30 اور جن کو اس نے پہلے سے مقرر کیا ان کو بلا یا بھی اور جن کو بلا یا ان کو راستباز ٹھہرایا اور جن کو راستباز ٹھہرایا ان کو جلال بھی بخشا۔
31 اس کے بارے میں ہم کیا کہیں ؟اگر خدا ہمارے حق میں ہے تو ہمارے خلاف کون ہو سکتا ہے ؟
32 اس نے جو اپنے بیٹے تک کو بچا کر نہیں رکھا بلکہ اسے ہم سب کے لئے مر نے کو چھوڑدیا ۔ وہ بھلا ہمیں اس کے ساتھ اور سب کچھ کیوں نہیں دیگا ؟
33 خدا کے بر گزیدوں پر ایسا کون ہے جو الزام لگائے ؟ وہ خدا ہی ہے جو انہیں راستباز ٹھہراتا ہے ۔
34 ایسا کون ہے انہیں قصور وار ٹھہرائے گا ؟مسیح یسوع وہ ہے جو مر گیا مر دوں میں سے جی اٹھا ۔ جو خدا کے داہنی طرف بیٹھا ہے اور ہماری شفاعت بھی کر تا ہے ۔
35 وہ کیا چیز ہے جو ہمیں مسیح کی محبت سے الگ کریگا ؟مصیبت یا تنگی یا ظلم یا قحط سالی یا ننگا پن یا خطرہ یا تلوار ؟
36 جیسا کہ لکھا ہے :
37 خدا کے وسیلے سے جو ہم سے محبت کر تا ہے ۔ ان سب باتوں میں ہم ایک جلالی فتح پا رہے ہیں ۔
38 کیوں کہ مجھ کو پکاّ یقین ہے کہ خدا کی جو محبت ہمارے خداوند یسوع مسیح میں ہے اس سے ہم کو کو ئی بھی چیز جدا نہ کر سکے گی ،نہ موت ،نہ زندگی ،نہ فرشتے ، نہ بدروحیں ، نہ حال کی ،مستقبل کی چیزیں، نہ قدرت ،
39 نہ بلندی ، نہ پشتی ،اور نہ ہی پو ری کائنات کی کوئی بھی چیز۔
40
9:1 میں مسیح میں سچ کہہ رہا ہوں میں جھوٹ نہیں کہتا اور میرا ضمیر مقدس روح کی مدد سے ہی میرا گواہ ٹھہرے گا ۔
2 میں بہت غمگین ہوں اور میرے دل میں دکھ درد برابر رہتا ہے ۔
3 کاش میں اپنے بھائیوں اور بہنو ں اور اپنے دنیاوی رشتہ داروں کی خا طر لعنت اپنے اوپر لے سکتا ۔ میں ان لوگوں کی مدد کر سکتا اور اگر میرا مسیح سے الگ ہو جانا انکے حق میں اچھا ہو تا تو میں ایسا کر سکتا ۔
4 وہ لوگ اسرائیلی ہیں ۔ وہ لوگ خدا کے چنے ہوئے اولاد ہیں ۔ وہ خدا کا جلال حاصل کر چکے ہیں اور خدا انکے ساتھ خدا نے انہیں موسیٰ کی شریعت دی ہے ۔ خدا نے ان سے وعدہ کیا ہے ۔
5 اور وہ لوگ ہمارے آباؤ اجداد کی نسل ہیں اور وہ لوگ انسانی جسم کے طور سے مسیح میں سے ہیں ۔اور مسیح ہر چیز کے اوپر خدا ہے ۔ ابد تک اسکی تعریف کرو !آمین
6 ایسا نہیں کہ خدا نے اپنا وعدہ پو را نہیں کیا ہے کیوں کہ جو اسرا ئیل کی اولاد ہیں وہ سب ہی سچّے اسرا ئیلی نہیں ۔
7 اور نہ ابرا ہیم کی نسل ہو نے کے سبب وہ سچ مچ میں ابرا ہیم کے فرزند ٹھہرے ہیں بلکہ جیسا خدا نے کہا تیری نسل اسحٰق کے وسیلے سے کہلا ئے گی ۔
8 یعنی جسمانی فرزند جو پیدا ہو ئے خدا کے سچے فرزند نہیں بلکہ وعدہ کے ذریعے پیدا ہو نے والے ہی خدا کے بچے کہلا ئیں گے ۔
9 کیوں کہ وعدہ کا قول یہ ہے، “میں اس وقت کے مطا بق آؤنگا اور سارہ کو بیٹا ہو گا ۔
10 اور صرف یہی نہیں بلکہ رابقہ کو بھی ایک شخص سے اولا دہوگی ہمارے بزرگ ا سحاق ہیں ۔
11 اس سے پہلے دو لڑ کے پیدا ہو ئے تھے اور نہ انہوں نے نیکی یا بدی کر نے سے پہلے رابقہ سے کہا گیا کہ “بڑا لڑکا چھو ٹے کی خدمت کریگا- “ خدا کہتا ہے کہ پس اسکا منصوبہ رہیگا یہ معلوم کرانے کے لئے اور اسکا انتخاب بھی اسکے منصوبہ پر موقوف رہے گا ۔ ان بیٹوں کے کاموں سے نہیں ۔
12
13 جیسا کہ صحیفہ کہتا ہے کہ “میں نے یعقوب سے تو محبت کی مگر یسوع سے نفرت ۔”
14 پس ہم کیا کہیں ؟ کیا خدا کے ہاں بے انصا فی ہے ؟
15 ہر گز نہیں ۔ کیوں کہ وہ موسیٰ سے کہتا ہے کہ” میں جس شخص پر بھی رحم کر نے کی سوچونگا اس پر رحم کرونگا اور جس پر ترس کھا نا منظور ہے اس پر ترس کھا ؤنگا ۔”
16 پس یہ اخلا قی کوشش ارادہ کر نے والے پر منحصر نہیں بلکہ رحم کر نے والے خدا پر ہے ۔
17 کیوں کہ صحیفہ میں فرعون سے کہا گیا ہے “میں نے تجھے اس واسطے کھڑا کیا تھا کہ میں اپنی قدرت تیرے ساتھ جو ہے ظا ہر کروں اور میرا نام تمام روئے زمین پر مشہور ہ
18 پس خدا جس پر رحم کر نا چاہتا ہے رحم کرتا ہے اور جس سے سختی کر نا چاہتا ہے سختی کر دیتا ہے ۔
19 پس یو مجھ سے کہیگا پھر” وہ کیوں عیب لگا تا ہے ؟کون اس کے ارادہ کا مقابلہ کرتا ہے ؟”
20 ا ے انسان بھلا تو کون ہے جو خدا کو جواب دیتا ہے ؟ کیا مٹی بر تن کمہار سے کہہ سکتا ہے کہ“تو نے مجھے ایسا کیوں بنایا ہے ؟”
21 کیا کمہا ر کو مٹی پر اختیار نہیں کہ ایک ہی طرح کی چکنی مٹی سے کچھ برتن اہم کام کے لئے اور کچھ معمو لی استعما ل کے لئے بنائے۔
22 خدا اپنا غضب ظا ہر کرنے اور اپنی قدرت آشکار کرنے کے ارادہ سے غضب کے برتنوں کے ساتھ جو ہلا کت کے لئے تیار ہو ئے تھے نہا یت صبر سے پیش آیا۔
23 اور اس نے چا ہا کہ اپنے عظیم جلال کی دولت رحم کے برتنوں سے آشکار کرے۔جو اس نے جلال کو قبول کرنے کے لئے پہلے تیار کئے تھے۔
24 اور ہم وہی لوگ ہیں جو ہما ری توسط سے جن کو اس نے نہ صرف یہودیوں میں سے بلکہ غیر یہودیوں میں سے ہم کو بلا یا ۔
25 چنانچہ صحیفے کی طرح ہو سیعاہ کی کتاب میں بھی خدا یوں وضاحت کرتا ہے کہ
26 “اور
27 یسعیاہ اسرائیل کے بارے میں پکار کر کہتا ہے کہ
28 جیسا کہ خداوند زمین پر اپنے انصاف کو مکمل طور سے اور جلد ہی پورا کرے گا ۔”
29 چنانچہ یسعیا ہ نے پہلے بھی کہا ہے کہ
30 پس ہم کیا کہیں؟ آخر کار ہم کہہ سکتے ہیں کہ جو غیر یہودی کی راستبازی پا نے کی کوشش نہیں کر تے ہیں۔حقیقت میں راستبازی پا لیتے ہیں ان کی راستبازی ایمان پر مبنی ہے ۔
31 مگر بنی اسرائیل راستباز ہو نے کے لئے جو شریعت پر چلنے کی کوشش کی ۔ لیکن وہ کامیاب نہ ہو ئے۔
32 کس لئے؟ اس لئے کہ انہوں نے ایمان سے تلاش کر نیکی کوشش نہیں کی بلکہ اعما ل سے اس کی تلاش کی ۔ انہوں نے ٹھو کر کھانے کے پتھر سے ٹھو کر کھائی۔
33 چنانچہ صحیفے میں لکھا ہے کہ
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
10:1 اے بھا ئیو ! میرے دل کی آرزو ہے اور میں خدا سے ان سب یہودیوں کے لئے دعا کرتا ہوں کہ وہ نجات پا ئیں۔
2 کیوں کہ میں گوا ہی دیتا ہوں کہ وہ خدا کے بارے میں جوش تو رکھتے ہیں لیکن انکا جوش صحیح علم کے بغیر ہے ۔
3 اس لئے کہ وہ خدا کی جانب سے راستبازی سے نا واقف ہیں اور اپنی راستبازی قائم کر نے کی کوشش کر کے خدا کی راستبازی کے تابع نہ ہو ئے۔
4 کیوں کہ مسیح نے شریعت کا اختتام کیا تا کہ ہر آدمی جو ایمان رکھتا ہے راستبازی حا صل کر نے کے لئے خدا پر یقین رکھے۔
5 راستبازی کے بارے میں موسیٰ نے لکھا ہے کہ وہ شریعت پر عمل کر نے سے حاصل ہو تی ہے “جو شریعت کے اصولوں پر چلے گا وہ انکے وسیلہ سے رہیگا ۔”
6 لیکن ایمان سے ملنے والی راستبازی کے سلسلہ میں صحیفہ کہتا ہے کہ“تو اپنے دل میں یہ نہ کہہ کہ آسمان پر کون جائے گا ؟” (یعنی مسیح کے اتار لا نے کے لئے )
7 عمیق یا گہراؤ میں کون اتریگا؟(یعنی مسیح کو مردوں میں سے اوپر لا نے کے لئے )۔
8 صحیفہ کیا کہتا ہے ؟” کلام تیرے سامنےہے تیرے منھ اور تیرے دل میں ہے ۔” یہ وہی ایمان کا کلام ہے جس کی ہم نے منادی کی ہے ۔
9 کہ اگر تو اپنے منھ سے اقرار کرے کہ“یسوع خداوند ہے “اور تو اپنے دل میں یہ ایمان لائے کہ خدا نے اسے مردوں میں سے زندہ کیا تو نجات پائیگا ۔
10 راست بازی کے لئے اس کے دل میں ایمان ہو نا چاہئے اور اپنے منھ سے اس کے ایمان کو قبول کر نے سے وہ نجات پا ئیگا ۔
11 کیوں کہ صحیفہ کہتا ہے کہ“ہر آدمی جو اس پر ایمان رکھتا ہے اسے کبھی مایوس ہو نا نہیں پڑیگا”
12 یہ اس لئے ہے کہ یہودیوں اور غیر یہودیوں میں کو ئی فرق نہیں کیوں کہ وہی سب کا خدا وند ہے اور اسکا فضل ان سب کے لئے افراط ہے جو اسکا نام لیتے ہیں ۔
13 “کیوں کہ ہر وہ شخص جو خداوند کا نام پکار تا ہے نجات پا ئیگا ۔”
14 مگر وہی جو اس میں ایمان نہیں رکھتے اسکا نام کیسے پکار سکتے ہیں ؟ اور وہی جنہوں نے اس کے بارے میں سنا ہی نہیں اس پر ایمان کیسے لا ئیں گے ؟ اور پھر بھلا جب تک کو ئی منا دی کر نے والا نہ ہو وہ کیسے سن سکیں گے ؟
15 اور جب تک وہ بھیجے نہ جائیں منادی کیوں کر کریں ؟جیسا کہ لکھا ہے“کیا ہی خوشنما ہیں انکے قدم جو خوشخبری لا تے ہیں ۔
16 لیکن بد قسمتی سے تمام لوگوں نے اس خوشخبری کو قبول نہ کیا ۔ چنانچہ یسعیاہ کہتا ہے کہ “اے خداوند ! ہمارے پیغام کا کس نے یقین کیا ہے ؟”
17 پس ایمان خوشخبری کا پیغام سننے سے پیدا ہو تا ہے اور پیغام کی بنیاد مسیح کے کلام پر ہے۔
18 لیکن میں پوچھتا ہو ں، “کیا انہوں نے پیغام نہیں سنا ؟”بیشک سنا ہے چنانچہ صحیفہ میں لکھا ہے:
19 لیکن میں پو چھنا چاہتا ہوں “کیا اسرائیلی نہیں سمجھ سکتے ؟ “پہلے موسیٰ کہتا ہے کہ:
20 پھر یسعیاہ بڑا دلیر ہو کر یہ کہتا ہے کہ
21 لیکن خدا اسرائیلیوں کے بارے میں کہتا ہے،
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
11:1 پس میں پوچھتا ہوں، “کیا خدا نے اپنے ہی لوگوں کو ردّ کر دیا ؟نہیں ! ہر گز نہیں ۔ کیوں کہ میں بھی ایک اسرا ئیلی ہوں ابراہیم کی نسل اور بنیمین کے قبیلے میں سے ہوں ۔
2 خدا نے اسکے لوگوں کو ردّ نہیں کیا جنہیں اس نے پہلے ہی سے چنا تھا ۔ کیا تم نہیں جانتے کہ صحیفہ ایلیاہ کے ذکر میں کہتا ہے ؟ جب ایلیاہ خدا سے اسرائیلی لوگوں کے خلاف فریاد کررہا تھا ؟
3 “اے خداوند ! انہوں نے تیرے نبیوں کو قتل کیا اور تیری قربان گاہوں کوڈھا دیا صرف ایک ہی نبی میں بچا ہوں اور وہ مجھے بھی قتل کر نے کی کوشش کر رہے ہیں ۔”
4 مگر تب خداوند نے اسے اس طرح جواب دیا تھا میں نے اپنے لئے سات ہزار آدمی بچا رکھے ہیں جنہوں نے بعل کی عبادت نہیں کی۔”
5 پس ویسے ہی آجکل بھی کچھ ایسے لوگ بچے ہیں جو خدا کے فضل سے بر گزیدہ بنے ہیں ۔
6 اور اگر یہ خدا کے فضل کا نتیجہ ہے تو لوگ جو عمل کر تے ہیں یہ ان اعمال کا نتیجہ نہیں ہے ۔ ورنہ خدا کا فضل، فضل ہی نہ رہا ۔
7 پس نتیجہ کیا ہوا ؟ بنی اسرائیل جس چیز کی تلاش کر رہے تھے وہ اسے نہیں پا سکے مگر بر گزیدوں کو اسکو پا نے میں کامیابی ہو ئی ۔ جب کہ باقی سب لوگوں کو سخت کر دیا گیا اور وہ اسے پا نہ سکے ۔
8 جیسا لکھا ہے کہ:
9 داؤد کہتا ہے کہ
10 انکی آنکھیں دھند لی ہو جا ئیں تا کہ وہ دیکھ نہ سکیں
11 پس میں پوچھتا ہوں کہ کیا انہوں نے ایسی ٹھو کر کھا ئی کہ وہ گر کر نیست و نابود ہو جا ئیں ؟نہیں ۔ ہر گز نہیں! بلکہ ان کی غلطیوں سے غیر یہودی لوگوں کو نجات ملی تا کہ یہودیوں کو غیرت ہو۔
12 پس اس طرح اگر ان کی غلطیاں دنیا کیلئے باعث برکت اور ان کے بھٹکنے سے غیر یہودیوں کے لئے باعث برکت ہو تب خدا کی خوا ہش کے مطا بق یہودیوں کا بھر پور ہونا ہی دنیا کو بھرپور برکت کا باعث ہوگا۔
13 اب میں تم لوگوں سے کہہ رہا ہوں جو یہودی نہیں ہو۔ کیوں کہ میں خصو صی طور پر غیر یہودیوں کا رسول ہوں۔جہاں تک ہو سکے میں اپنی خدمت کروں گا۔
14 اس امید پر کہ اپنے لوگوں میں بھی غیرت دلا کر ان سے بعض کو نجات دلا ؤں۔
15 کیوں کہ اگر خدا کے وسیلے سے ان کو خارج کر دیئے جانے سے دنیا میں خدا کے ساتھ میل ملا پ پیدا ہو تا ہے تو پھر ان کا خدا کے پاس مقبول ہو نا یقیناً مردوں میں سے جی اٹھنے کے برا بر نہ ہوگا ۔
16 اگر روٹی کا نذرا نہ خدا کی نظر میں مقدس ہے تب تو روٹی بھی مقدس ہے ؟ اگر پیڑ کی جڑ مقدس ہے تو اس کی شا خیں بھی مقدس ہو ں گی ۔
17 کچھ شاخیں کاٹ کر پھینک دی گئیں اور تو جنگلی زیتون کی ٹہنی ہے جس پرپیوند چڑھا دیا گیا ہے تب تم آپس میں زیتون کی روغن دار جڑمیں حصہ دار ہو گے ۔
18 تب تم ان ٹہنیوں کے آگے جو تو ڑ کر پھینک دی گئیں فخر نہ کر۔ اور اگر تو فخر کر تا ہے تو یاد رکھ تو نہیں، جو جڑ کو سہارا دیاہے بلکہ جڑ تجھ کو سنبھا لتی ہے ۔
19 اب تو کہے گا ہاں، “یہ شاخیں اس لئے توڑ دی گئی کہ میرا اس پر پیوند چڑھے۔”
20 یہ سچ ہے کہ اور تو بے ایمانی کے سبب سے تو ڑدی گئی اور توتیرے ایمان کے سبب سے اسی جگہ پر قائم ہے اس لئے اسپر مغرور نہ ہو بلکہ تو خوف کر ۔
21 اگر خدا نے اصلی ڈالیوں کو نہ چھو ڑا تو وہ تجھے بھی نہیں چھوڑیگا۔
22 اس لئے تو خدا کی مہر بانی اور سختی پر توجہ دے۔ اس کی یہ سختی ان کے لئے جو گر گئے مگر خدا کی مہر بانی تیرے لئے ہے ۔ بشرطیکہ تو اس کی مہر بانی پر قائم رہے ورنہ پیڑ سے تجھے بھی کاٹ ڈالا جائے گا۔
23 اور اگر وہ اپنا ایمان میں لوٹیں تو انہیں پھر دوبارہ پیوند کیا جا ئے گا۔ کیوں کہ خدا پھر انہیں پیوند کر کے بحال کر نے پر قادر ہے ۔
24 ایک جنگلی شاخ کے لئے ایک اچھا درخت کا حصہ بن جانا یہ فطری نہیں ہوگا ۔ لیکن تم غیر یہودی لوگ جنگلی زیتون کے درخت سے کاٹے ہو ئے ایک شاخ کی طرح ہو ۔اور تمہیں ایک اچھے زیتون کی درخت میں جوڑا (کاشت کیا) گیا ہے ۔ لیکن وہ یہودی اس شاخ کی طرح ہیں جو کہ ایک اچھے زیتون کے درخت سے بڑھا ہے۔ اس لئے یقینی طور پر انہیں اپنے اصل درخت میں پھر سے جوڑے جا سکتے ہیں ۔
25 اے بھا ئیو اور بہنو! میں تمہیں اس پوشیدہ سچا ئی سے نا واقف رکھنا نہیں چاہتا( کہ تم اپنے آپ کو عقلمند سمجھنے لگو) اسرائیل کا کچھ حصہ ایسے ہی سخت کر دیئے جا ئیں گے جب تک کہ غیر یہودی خدا کا حصہ نہیں بن جاتے۔
26 اور اس طرح تمام اسرائیل نجات پائیں گے ۔ جیسا کہ لکھا ہے کہ
27 اور ان کے ساتھ یہ میرا عہد ہوگا
28 خوش خبری کے اعتبار سے وہ تمہا ری خاطر خدا کے دشمن تھے مگر جہاں تک خدا کی جانب سے انکے منتخب ہو نے کا تعلق ہے وہ انکے باپ دادا کو دئیے گئے وعدوں کی وجہ سے خدا کے پیارے ہیں۔
29 کیوں کہ خدا جسے بلاتا ہے اور جوکچھ وہ عطیہ دیتا ہے اس کی طرف سے اپنا ذہن کبھی نہیں بدلتا۔
30 کیوں کہ جس طرح تم پہلے خدا کے نافرمان تھے مگر اب ان کی نافرما نی کے سبب سے تم پر خدا کا رحم ہوا ۔
31 اسی طرح اب یہ بھی نا فرمان ہوئے تا کہ تم پر رحم ہونے کے باعث اب ان پر بھی رحم ہو سکے ۔
32 اس لئے کہ خدا نے ہر ایک لوگوں کو نا فرمانی میں پکڑے جا نے د یا تا کہ سب پر رحم فرما ئے۔
33 واہ! خدا کی حکمت اور علم کیا ہی عمیق ہے اس کے فیصلے ہماری سمجھ کے باہر ہیں اور اس کی راہوں کو ہم سمجھ نہیں سکتے۔
34 جیسا کہ لکھا ہے:
35 “خدا کو کسی نے کچھ دیا ہے کہ
36 کیوں کہ ساری چیزیں اس کی تخلیق کردہ ہیں اور اسی کے وسیلہ سے ان کے لئے وجود ہے ۔ اسکا جلال ابد تک ہوتا رہے ۔ آمین۔
12:1 پس اے بھائیو اور بہنو! خدا کی رحمتیں یاد دلا کر تم سے التماس کرتاہوں اپنی جان کو ایسی زندہ قربانی کے لئے نذر کرو جو زندہ اور مقدس اور خدا کو پسندیدہ ہو ۔ یہی خدا کے لئے تمہا ری روحانی عبادت ہے ۔
2 اس دنیا کے لوگوں کی مانند تم خود کو نہ بدلو۔ بلکہ اپنے آ پ کو دماغ کی تجدید کے مطابق بدل ڈالو تا کہ تمہیں پتہ چل جا ئے کہ خدا کی مرضی تمہا رے لئے کیا ہے ۔ یعنی تم جان جاؤگے کیا اچھا ہے اور خدا کو کیا پسند ہے اور کیا کا مل ہے ۔
3 میں تو اس فضل کی نعمت کی وجہ سے جو خدا کی طرف سے مجھ کو دی ہے اسے ذہن میں رکھتے ہوئے میں تم میں سے ہر ایک سے کہتا ہوں ۔ جو تم ہو اس سے اپنے آپکو بہتر نہ سمجھو ۔ بلکہ جیسا خدا نے ہر ایک کو اندازہ کے موافق ایمان تقسیم کیا ہے اعتدال کے ساتھ اپنے آپکو ویسا ہی سمجھو ۔
4 کیوں کہ جس طرح ہمارے ان جسموں میں بہت سے اعضاء ہیں ۔اور ہر عضو کے کام ایک جیسے نہیں ہیں ۔
5 اسی طری ہم بھی جو بہت سے ہیں مگر مسیح میں شا مل ہو کر ایک بدن ہیں اور آپس میں ایک دوسرے کے اعضاء کے طور پر کام کر تے ہیں ۔
6 خدا کے فضل کی نعمت کے موافق ہمیں جو طرح طرح کی نعمتیں ملی ہیں اس لئے کہ جس کسی کو نبوت کی نعمت ملی ہو وہ اپنے ایمان کے موافق نعمت کا استعمال کر نا چاہئے ۔
7 اگر کسی کو خدمت کر نے کی نعمت ملی ہو تو اپنے آپکو دوسروں کی خدمت کے لئے وقف کر نا چاہئے ۔ اگر کسی کو معلم کی نعمت ملی ہو تو اسکو تعلیم دینے میں لگا رہنا چاہئے۔
8 اگر کسی کو ہمت بندھا نے کی نعمت ملی ہو تو اسے ہمت بندھا نی چاہئے ۔اگر کسی کو خیرات بانٹنے کی نعمت ملی تو اسے چاہئے کہ سخاوت کرے ۔اگر کسی کو قیادت کی نعمت ملی ہے تو سرگر می سے قیادت کرے اگر کسی کو رحم کر نے کی نعمت ملی ہو تو وہ خوشی سے رحم کرے ۔
9 تمہاری محبت خلوص ہو ۔ برائی سے نفرت کرو ہمیشہ نیکی سے علیٰحدہ نہ رہو ۔
10 بھا ئیوں اور بہنوں کی طرح آپس میں ایک دوسرے کے قریب رہو۔ دوسرے کو احترام کیساتھ اپنے سے بہتر سمجھو۔
11 کام کی کوشش میں سستی نہ کرو ۔ روحانی جوش کو بڑھا ؤ ۔ خدا وند کی خدمت کر تے رہو۔
12 اپنی امید میں خوش رہو مصیبت میں صابر رہو ہمیشہ دعا میں مشغول رہو۔
13 خدا کے لوگوں کی ضرورت کے مطابق مدد کرو ۔ اور مسافر کو گھر بلا کر خدمت کرنے کے موقع میں لگے رہو ۔
14 جو تمہیں ستاتے ہیں انکے واسطے بر کت چاہو۔ ان پر لعنت مت بھیجو ۔ بلکہ بر کت چاہو۔
15 جو خوش ہے انکے ساتھ خوش رہو ۔ جو غمزدہ ہے انکے غم میں غمزدہ رہو ۔
16 آپس میں ایک دوسرے سے مل جل کر رہو ۔ بلکہ معمولی لوگوں کے ساتھ ملکر رہو فخر نہ کرو ۔ اپنے آپکو عقلمند مت سمجھو ۔
17 برائی کا بدلہ کسی کو بھی برائی سے مت دو ۔ جو باتیں سب لوگوں کے نزدیک اچھی ہیں انکی کوشش کرو۔
18 جہاں تک تم سے ممکن ہو سکے سب کے ساتھ امن سے رہو ۔
19 اے عزیزو ! دوسروں سے انتقام نہ لو بلکہ انتظار کرو کہ خدا اپنے قہر میں انہیں سزا دیگا ۔ کیوں کہ صحیفوں میں لکھا ہے: خدا وند نے کہا انتقام لینا میرا کام ہے اور میں ہی بدلہ دونگا ۔”
20 بلکہ
21 بدی سے شکست نہ کھا ؤ بلکہ بجائے اس کے نیکی سے بدی کو شکست دو ۔
22
23
24
25
13:1 ہر شخص کو چاہئے کہ اعلیٰ حکومتوں کا تا بعدار ر ہے۔کیوں کہ کو ئی ایسی حکو مت نہیں جو خدا کی طرف سے نہ ہو ۔ اور جو حکومتیں موجود ہیں وہ خدا کی طرف سے مقرّر ہیں ۔
2 پس جو کوئی حکومت کی مخالفت کر تا ہے، وہ خدا کے قائم کردہ حکم کی مخالفت کر تا ہے ،اور جو خدا کے قائم کردہ حکم کی مخالفت کرتے ہیں وہ سزا پائینگے ۔
3 دیکھو کو ئی بھی حاکم اس شخص کو نہیں ڈراتا ہے جو نیکی کر تا ہے بلکہ اسی کو ڈراتا ہے جو بدکاری کر تا ہے ۔ اگر تم حاکم سے نہیں ڈرناچاہتے ہو تو نیکی کے کام کرو ۔ تمہیں اسکی طرف سے تعلیم ملے گی ۔
4 جو حکومت کر تا ہے وہ خدا کا خادم ہے وہ تیری بھلا ئی کے لئے ہے لیکن اگر تو بدی کرے تو اس سے ڈرنا چاہئے کیوں کہ اس کے پاس تلوار بے فائدہ نہیں ہے ۔ جیسا کہ وہ خدا کا خادم ہے ۔ جو برے کام کر نے والوں کو سزا دینے کے لئے غضب لا تا ہے ۔
5 اسی لئے حاکم کی تابعداری ضروری ہے ۔ نہ صرف غضب کے ڈر سے ضروری ہے بلکہ ضمیر کے لئے ۔
6 اسی لئے تم محصول بھی انہیں دیتے ہو کیوں کہ وہ خدا کے خادم ہیں جو اپنے مخصوص فرض کو نبھا نے میں لگے رہتے ہیں ۔
7 جس کسی کا حق ہو ادا کرو محصول باقی ہو تو محصول ادا کرو جس کی مال گزاری باقی ہو اس کو مال گزاری دو ، جس سے ڈرنا چاہئے اس سے ڈرو اور جس کی عزت کر نی چاہئے اس کی عزت کرو ۔
8 تم کسی طرح سے کسی کے قرضدار نہ رہو لیکن یاد رکھو جو قرض تمہارا ہے وہ ایک دوسرے کے ساتھ محبت کر نا ہے ۔کیوں کہ جو دوسروں سے محبت رکھتا ہے وہ اسی طرح شریعت پر عمل کر تا ہے ۔
9 کیوں کہ شریعت کہتی ہے “زنا نہ کر،خون نہ کر ،چوری نہ کر ،دوسروں کی چیزوں کی خواہش نہ کر “ اور انکے سوا اور جو کوئی حکم ہو ان سب کا خلا صہ اس بات میں پا یا جاتا ہے کہ” اپنے پڑوسی سے اسی طرح محبت رکھو جس طرح تم اپنے آپ سے رکھتے ہو ۔”
10 محبت اپنے ساتھی سے بدی نہیں کرتی ا س واسطے محبت شریعت کی تعمیل ہے۔
11 یہ سب کچھ تم اس لئے کرو کہ جیسے تم جانتے ہو نازک وقت میں ہم رہ رہے ہیں تم جانتے ہو کہ تمہا رے لئے اپنی نیند سے بیدار ہو نے کا وقت آگیا ہے کیوں کہ جس وقت ہم ایمان لا ئے تھے اس وقت کی نسبت اب ہماری نجات بہت قریب ہے ۔
12 رات لگ بھگ گذر گئی اور دن نکلنے والا ہے اس لئے آؤ ہم تا ریکی کے کاموں کو ترک کرکے روشن ہتھیار باندھ لیں۔
13 اس لئے ہم ویسے ہی شائستگی سے رہیں جیسے دن کے وقت رہتے ہیں۔ اس لئے غیر معیاری دعوتوں اور نشہ بازی سے، زناکاری، شہوت پرستی سے جھگڑے اور حسد سے دور رہو۔
14 بلکہ خداوند یسوع مسیح کو پہن لو یہ مت سوچو کہ تمہا رے گناہوں کی تشفیّ کیسے کی جا ئے اور برے کام کرنے کی خواہش کیسے پورا کریں فکر مت کر۔
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
14:1 جس کا ایمان کمزور ہے اس کا بھی خیر مقدم کرو مگر خیالوں کے بارے میں تکراروں کے لئے نہیں۔
2 کس کو یقین ہے کہ ہر چیز کا کھا نا جا ئز ہے اور کمزور ایمان وا لا ساگ پات ہی کھا تا ہے ۔
3 آدمی جو ہر طرح کا کھانا کھاتا ہے اسے اس شخص پر الزام لگانا نہیں چاہئے جو بعض چیزوں کو نہیں کھا تا ۔ ویسے ہی وہ جو بعض چیزیں نہیں کھا تا ہے اسے سب کچھ کھا نے والے پر الزام نہ لگائے ۔ کیوں کہ خدا نے اس آدمی کو قبول کر لیا ہے ۔
4 تو کون ہے جو دوسرے کے نوکر پر الزام لگا تا ہے ؟ اس کا قائم رہنا یا گر پڑ نا اس کے مالک ہی سے متعلق ہے بلکہ وہ قائم ہی کر دیا جائیگا کیوں کہ خدا وند نے اسے قائم رہنے کی قوّت دی ۔
5 ایک شخص یہ یقین کر سکتا ہے کہ ایک دن دوسرے دن سے زیادہ اہم ہیں جب کہ دوسرا شخص سب دنوں کو برابر جانتا ہے جو کچھ بھی ہو ہر کو ئی اپنے دماغ میں اپنے ارادوں کو مکمل رکھے ۔
6 کو ئی کسی دن کو مخصوص مانتا ہے تو وہ خدا وند کے لئے مانتا ہے ۔ کو ئی سب کچھ کھا تا ہے تو وہ خداوند کے واسطے کھا تا ہے کیوں کہ وہ خدا کا شکر ادا کرتا ہے اور جو بعض چیزوں کو نہیں کھا تا وہ بھی خدا کے لئے ایسا کر تا ہے ۔ وہ بھی خدا کا شکر ادا کرتا ہے ۔
7 ہم میں سے کو ئی بھی نہ تو اپنے لئے جیتا ہے اور نہ اپنے لئے مرتا ہے ۔
8 ہم جیتے ہیں تو خدا وند کے لئے اور اگر مرتے ہیں تو بھی خدا وند کے لئے پس چاہے ہم جئیں چا ہے ہم مریں ہم تو خداوند کے ہی ہیں ۔
9 اسی لئے مسیح مرے ،اور اسی لئے دوبارہ زندہ ہو ئے کیوں کہ وہ مردوں اور زندوں دونوں کاخدا وند ہے ۔
10 اسلئے تو اپنے بھا ئی پر کس لئے الزام لگا تا ہے ، یا تو کیوں اپنے بھا ئی کو حقیر جانتا ہے یاد رکھو ہم میں سے ہر ایک کو خدا کی عدالت کے آگے کھڑے ہو نا ہے ۔
11 جیسا کہ صحیفہ میں لکھا ہے:
12 پس ہم میں سے ہر ایک اپنی زندگی کا اپنا حساب خدا کو دیگا ۔
13 پس ہم آپس میں ہر ایک دوسرے کو الزام لگا نا بند کریں بلکہ ٹھان لیں کہ تمہارے بھا ئی کے راستے میں کو ئی رکاوٹ نہ ڈا لیں گے نہ ہی اسے گناہ کے لئے ورغلائیں گے ۔
14 مجھے معلوم ہے بلکہ خدا وند یسوع میں مجھے پختہ یقین ہے کہ کوئی کھانا بذات خود نا پاک نہیں وہ کھا نا صرف اس کے لئے ناپاک ہے جو اسے ناپاک مانتا ہے ۔
15 اگر تیرے بھا ئی کو تیرے کھا نے سے رنج پہنچتا ہے تو پھر تو محبت کے قاعدہ پر نہیں چلتا ۔ تو تو اپنے کھا نے سے انسان کو برباد نہ کر کیوں کہ مسیح نے اس کے لئے مرا ۔
16 جو تیرے لئے بہتر ہے وہ بدنامی کی چیز نہ ہو ۔
17 کیوں کہ خدا کی بادشاہت صرف کھا نے پینے پر نہیں حقیقت میں راستبازی میں ملاپ اور خوشی پر موقوف ہے جو مقدس روح کی طرف سے ہو تی ہے ۔
18 اور جو کوئی اس طور سے مسیح کی خدمت کرتا ہے ،اس سے خدا خوش رہتا ہے اور لوگ اسے اعزاز دیتے ہیں۔
19 پس ہم ان باتوں کے طا لب رہیں جن سے سکون اور باہمی ترقی ہو ۔
20 کھا نے کی خاطر خداکے کام کو تباہ نہ کرو ۔ ہر طرح کا کھا نا پاک ہے ۔ لیکن اس شخص کے لئے برا ہے جس کو اس کے کھا نے سے کسی بھا ئی کے گناہ کا سبب ہو ۔
21 یہی بہتر ہے کہ تو نہ گوشت کھا ئے نہ شراب پئے۔ نہ اور کچھ ایسا کرے جس کے سبب سے تیرا بھا ئی گناہ کی ٹھو کر کھا ئے ۔
22 جو بھی تمہارا اعتقاد ہے اس کو خدا اور اپنے درمیان ہی رکھو ۔ مبارک وہ ہے جو اس چیز کے سبب جسے وہ جائز رکھتا ہے اسکے لئے اپنے کو ملزم نہیں ٹھہرا تا ۔
23 لیکن اگر کوئی کھا نے کو شبہ سے کھا تا ہے تب وہ مجرم ٹھہر تا ہے کیوں کہ اس کا کھا نا اسکے اعتقاد کے مطابق نہیں ہے اور وہ سب کچھ جو اعتقاد پر نہیں ہے وہ گناہ ہے ۔
24
25
26
27
28
15:1 ہم جو روحانی طور پر طا قت ور ہیں ،ناتوانوں کی کمزوریوں کی رعایت کریں اور ہم اپنے آپ کو ہی خوش نہ کریں ۔
2 ہم میں سے ہر ایک اپنے پڑوسی کو اسکی بہتری کے واسطے خوش کرے تا کہ اسکا ایمان مضبوط ہو ۔
3 مسیح نے بھی خود کو خوش رکھنے کی کوشش نہیں کی تھی جیسا کہ لکھا ہے” تیری لعن و طعن کر نے والوں کی لعن وطعن مجھ پر آپڑی ۔”
4 کیوں کہ جتنی باتیں پہلے لکھی گئی ہمیں تعلیم دینے کے لئے لکھی گئی تا کہ جو صبر اور حوصلہ افزائی صحیفوں سے ملتی ہے ہم اس سے امید حاصل کریں ۔
5 اور خدا صبر اور حوصلہ افزائی کا سر چشمہ ہے خدا تم کو اتحاد سے رہنے کی یکسوئی سے تو فیق دے کہ مسیح یسوع کے مطا بق آپس میں ایک دوسرے سے ایک دل ہو کر رہو۔
6 تا کہ تم سب ایک آواز اور ایک زبان ہو کر ہمارے خدا کی تمجید کرو جو ہمارے خدا وند یسوع مسیح کا باپ ہے ۔
7 اس لئے ایک دوسرے کو گلے لگاؤ جیسے تمہیں مسیح نے گلے لگا یا ۔ یہ خدا کے جلال کے لئے کرو ۔
8 میں کہتا ہوں کہ مسیح خدا کی سچائی کی حفاظت کر نے کے لئے مختونوں کا خادم بنا تاکہ ہمارے باپ دادا سے کئے گئے وعدوں کو پو را کرے ۔
9 تا کہ غیر یہودی لوگ بھی اس کے رحم کے لئے خدا کا جلال کریں جیسا کہ لکھا ہے:
10 اور صحیفہ یہ بھی کہتا ہے:
11 یہ پھر بھی کہتی ہے :
12 اور یسعیاہ بھی کہتا ہے کہ،
13 خدا جو امید کا ذریعہ ہے تمہیں کامل خوشی اور سلامتی سے معمور کرے جیسا کہ اس میں تمہا را ایمان ہے تا کہ مقدس روح کی قوت سے تمہا ری امید زیادہ ہو تی جا ئے ۔
14 اور اے میرے بھا ئیو اور بہنو! میں خود بھی تمہا ری نسبت یقین رکھتا ہوں کہ تم نیکی سے معمورہو اور معرفت سے بھرے ہو۔ تم ایک دوسرے کو ہدایت کر سکتے ہو ۔
15 لیکن تمہیں پھریاد دلا نے کے لئے میں نے بعض باتوں کے بارے میں دلیری سے لکھا ہے ۔ یہ اس لئے تم کو لکھا کہ یہ نعمت مجھے خدا کے طرف سے ملی ہے ۔
16 دیگر الفاظ میں غیر یہودیوں کے لئے مسیح یسوع کا خادم بنا ۔ کا ہن کے کاموں کی طرح خدا کی خوشخبری کی تعلیم انجام دے رہا ہوں تا کہ غیر یہودی خدا کی نذر کے طور پر مقدس روح سے مقدس ہو کر مقبول ہو جائیں ۔ اور اسکے لئے وقف ہو جائیں ۔
17 پس میں ان باتوں کو جو خدا کے لئے کر تا ہوں یسوع مسیح میں فخر کر سکتا ہوں ۔
18 کیوں کہ میں انہیں باتوں کو کہنے کی جرات رکھتا ہوں جنہیں مسیح نے میرے ذریعے کی ہیں تا کہ غیر یہودی اپنے قول و فعل سے ۔،
19 نشانیوں اور معجزوں کی قوّت سے خدا کی روح کی قدرت سے خدا کی اطاعت کریں ۔
20 لیکن میں نے ہمیشہ ہوشیاری سے یہی حوصلہ رکھا اور خوشخبری ایسی جگہوں پر نہ پھیلا نے کا ارادہ کیا جہاں مسیح کا نام پہلے ہی سے معلوم تھا ۔ کیوں کہ میں دوسروں کی بنیاد پر عمارت بنا نا نہیں چا ہتا ہوں ۔
21 لیکن صحیفو ں میں لکھا ہوا ہے کہ:
22 اسی لئے میں تمہارے پاس آنے سے کئی مرتبہ رکا رہا ۔
23 چونکہ اب ان ملکوں میں کو ئی جگہ نہیں بچی ہے اور بہت سالوں سے میں تم سے ملنا چاہتا ہوں ۔
24 جب ہم ہسپانیہ جاؤں تو امید کرتا ہو ں تم سے ملوں گا کیونکہ مجھے امید ہے کہ ہسپانیہ آتے ہو ئے راستے میں تم سے ملا قات ہو گی ۔ اور جب تمہاری صحبت سے کسی قدر میرا جی بھر جائے گا تو میری خواہش ہے وہاں کے سفر کے لئے مجھے تمہاری مدد ملیگی۔
25 مگر اب خدا کے لوگوں کی خدمت کر نے کے لئے یروشلم جارہا ہوں ۔
26 کیو ں کہ مکدینیہ اور اخیہ کی کلیسا کے لوگ یروشلم میں خدا کے غریب لوگوں کے لئے چندہ اکٹھا کر نے پر رضاکا رانہ فیصلہ کیا ۔
27 انہوں نے رضا کارانہ فیصلہ کیا کہ انکے تئیں انکا فرض بھی بنتا ہے کیوں کہ اگر غیر یہودی روحانی باتوں میں یہودیوں کے شریک ہو ئے ہیں تو لازم ہے کہ جسمانی باتوں میں یہودیوں کی خدمت کریں۔
28 پس میں اس خدمت کو پورا کر کے اور جو رقم حاصل ہو ئی ان تمام کو حفاظت کے ساتھ انکے ہاتھوں سونپ کر میں تمہارے پاس ہو تا ہوا ہسپانیہ کے لئے روانہ ہو جاؤنگا ۔
29 اور میں جانتا ہوں کہ جب میں تمہارے پاس آؤنگا تو تمہارے مسیح کی کامل برکت لیکر آؤنگا ۔
30 اور اے بھائیو اور بہنو! میں تم سے التجا کر تا ہوں خدا وند یسوع مسیح کے واسطے جو ہمارا خدا وند ہے اس لئے کہ مقدس روح کی محبت کی خا طر میرے لئے خدا سے دعا کر نے میں میرا ساتھ دو ۔
31 کہ میں یہوداہ کے نا فرمانوں سے نجات حاصل کروں اور میرے وہ نذرانے جو میں یروشلم میں لایا خدا کے لوگوں کو قبول آئے ۔
32 تا کہ میں خدا کی مرضی کے مطا بق خوشی کے ساتھ تمہارے پاس آکر تمہار ے ساتھ آرام پاؤں ۔
33 خدا جو اطمینان کا چشمہ ہے تم سب کے ساتھ رہے۔ آمین ۔
34
35
36
37
38
39
40
41
16:1 میں تم سے فیبے کی جو کہ ہماری بہن اور کنخریہ کی کلیسا کی خادمہ ہے سفا رش کرتا ہوں۔
2 کہ تم اسے خداوند میں اس طرح قبول کر اور ایسا خدا کے مقدسوں کے مطا بق ہو اور سب کام جس کی اسے ضرورت ہو اس کی مدد کر کیوں کہ وہ بہتوں کی مددگار رہی ہے بلکہ میری بھی۔
3 پر سلّہ اور اکولہ سے میرا سلام کہو۔وہ مسیح یسوع کے لئے میرے ساتھ مل کر خدمت کئے ہیں۔
4 انہوں نے میری جان بچا نے کے لئے اپنی زندگی کو بھی داؤ پر لگا دیاتھا۔ اور صرف میں ہی نہیں بلکہ غیر یہودیوں کی سب کلیسائیں بھی ان کا شکر گذار ہیں۔
5 اس کلیسا کو بھی میرا سلام جہاں ان کے گھر اجتماع ہو تا تھا۔
6 مریم کو جس نے تمہا رے لئے بہت کام کیا ہے سلام کہو۔
7 اندرفیکس اور یونیاس سے سلام کہو وہ میرے رشتہ دار ہیں اور میرے ساتھ جیل میں تھے اور رسولوں میں بہت عزت وا لے تھے اور مجھ سے پہلے مسیح میں تھے۔
8 اپلیاطس سے سلام کہو جو خداوند میں پیارا ہے ۔
9 ار بانس سے جو مسیح میں ہم جیسا خدمت گار ہے
10 اپلیس سے سلام کہو جو مسیح کی خدمت میں جو آزمایا اور ثابت کیا گیا
11 میرے رشتے داروں ہیرودیوں سے سلام کہو۔
12 تروفینہ اور تروفوسہ جو خداوند میں سخت محنت کرتی ہیں۔
13 روفُس جو خداوند میں چنا گیا بر گزیدہ ہے اور اس کی ماں جو میری بھی ماں ہے دونوں سے سلام کہو۔
14 اسنُکر تسُ فلگون، ہرمیس ،پتر باس اور ہر ماس اور ان کے بھائیوں سے جو ان کے ساتھ ہیں سلام کہو۔
15 فلگس،یولیہ نیر بوس اور اس کی بہن اُ لُمپاس اور سب بزرگ لوگوں سے جو ان کے ساتھ ہیں سلام کہو۔
16 آپس میں مقدس بوسہ لے کر ایک دوسرے کو سلام کہو۔ مسیح کی سب کلیسا ئیں تمہیں سلام کہتی ہیں،
17 اب اے بھا ئیو اور بہنو! میں تم سے گذارش کرتا ہوں کہ ان لوگوں سے بہت ہوشیار رہیں جو لوگوں کے درمیان جھگڑا پیدا کرتے ہیں اور ایمان کو کمز ور کر تے ہیں تم نے جو تعلیم پا ئی ہے اس کے خلاف رویہ اختیار کر تے ہیں۔بس ان سے دور رہا کرو۔
18 کیوں کہ ایسے لوگ ہمارے خداوند مسیح کے نہیں بلکہ اپنے پیٹ کی خدمت کرتے ہیں اور وہ اپنی خوشامد بھری چکنی چپڑی باتوں سے سادہ لوگوں کو بہکا تے ہیں۔
19 کیوں کہ تمہا ری فرمانبر داری سب میں مشہور ہو گئی ہے اس لئے کہ میں تم سے بہت خوش ہوں۔ لیکن میں چاہتا ہوں کہ تم نیکی کے اعتبار سے عقلمند بن جاؤ اور بدی کے اعتبار سے معصوم بنے رہو۔
20 اور خدا جو سلامتی کا ذریعہ ہے شیطان کو تمہا رے پا ؤں سے جلد کچلوا دے گا۔ ہمارے خداوند یسوع کا فضل تم پر ہوتا رہے۔
21 میرا ہم خدمت تیمتھس اور میرے یہودی ساتھی لو کیس ، یاسون ، اور سو سپطرس کی جانب سے تمہیں سلام ۔
22 اس خط کا کاتب میں ترتیس تم کو خداوند میں اپنا سلام کہتا ہوں۔
23 گئیس میرا اور ساری کلیسا کا میزبان تمہیں سلام کہتا ہے۔اراستس شہر کا خزانچی اور ہمارا بھا ئی کو ارتس تم کو اپنا سلام کہتا ہے ۔
24 چند یونانی “اعمال “نسخوں میں اس آیت کو شامل کیا گیا ہے ۔
25 اب خدا کا جلال ہوتا رہے جو تم کو میری خوش خبری کی تعلیم کے موافق مضبوط کر سکتا ہے یہ خوش خبری یسوع مسیح کا پیغام ہے جو ا س بھید کے مکاشفہ کے مطابق ازل سے پوشیدہ رہا۔ اور خدا سے ظاہر ہوتا رہا۔
26 مگر اس وقت ظاہر ہوکر نبیوں کے صحیفوں کے ذریعے سے سب قوموں کو بتایا گیا کہ لا فانی خدا کے حکم کے مطا بق وہ ایمان کے فرمانبردا ر ہو جا ئیں۔
27 یسوع مسیح کے وسیلے سے اسی واحد دانشمند خدا کی ابد تک جلال ہوتا رہے ۔آمین!
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
17:1 پو لس اور سیلاس امفلپس اور اپلونیہ کے شہروں سے گزر کر تھیسلنیکا کے شہر میں آئے وہاں شہر میں ایک یہودی ہیکل تھا۔
2 پولس اندر یہودی ہیکل میں یہودیوں کو دیکھنے گیا جیسا کہ اس نے ہمیشہ کیا۔ ہر سبت کے دن تین ہفتوں تک صحیفوں کے بارے میں یہودیوں سے بحث کی۔
3 پو لس نے انجیل کے بارے میں یہودیوں کو سمجھا یا اور دلیل پیش کی کہ مسیح کو دکھ اٹھا کر مردوں میں جی اٹھنا ضروری تھا۔ پو لس نے کہا ، “یہی یسوع جن کی میں تمہیں خبر دیتا ہوں یہی مسیح ہے۔
4 ا ن میں سے کچھ یہودیوں نے تسلیم کیا اور پولس اور سیلاس نے طے کیا کہ ان کے ساتھ مل جائیں وہاں چند یو نانی لوگ بھی تھے۔ جو سچے خدا کی عبادت کر تے تھے اور بہت ساری شریف عورتیں بھی تھیں۔ جو انکے ساتھ شریک ہو گئیں۔
5 لیکن وہ یہودی جنہوں نے ایمان نہیں لا یا وہ حسد کر نے لگے انہوں نے چند غنڈوں کو کرایہ پر لے آیا جنہوں نے شہر میں آدمیوں کو جمع کر کے دنگا مچا یا مجمع نے یاسون کے گھر جا کر پو لس اور سیلاس کو تلاش کیا وہ پولس اور سیلاس کو لاکر لوگوں کے سامنے پیش کر نا چاہتے تھے۔
6 لیکن وہ لوگ پو لس اور سیلاس کو نہ پا سکے تب انہوں نے یاسون اور دوسرے کئی ایمان والوں کو شہر کے حاکموں کے سامنے کھینچ لایا اور کہا، “ان لوگوں نے ہر جگہ دنیا بھر میں دنگا مچایا ہے۔ اور اب یہ لوگ یہاں بھی آگئے ہیں۔
7 یامون نے ان لوگوں کو اپنے گھر میں رکھا ہے۔ اور وہ قیصریہ کی شریعت کے خلاف ورزی کر رہے ہیں اور وہ دوسرا بادشاہ ہو نے کا دعوٰی کر تا ہے جس کا نام یسوع ہے۔”
8 شہر کے حاکموں اور دوسرے لوگوں نے سنا اور وہ بہت گھبرا گئے۔
9 انہوں نے یامون اور دوسرے ایمان والوں کی ضمانت لیکر انہیں چھوڑ دیا۔
10 اسی رات ایمان والوں نے پو لس اور سیلاس کو شہر بیریا کو روانہ کیا۔ بیریا میں پولس اور سیلاس یہودیوں کے ہیکل میں گئے۔
11 یہودی تھیسلنیکا کے یہودیوں سے بہتر لوگ تھے ان یہودیوں نے پو لس اور سیلاس نے جو خدا کا پیغام دیا دلجوئی سے قبول کیا اور انہوں نے روزانہ صحیفوں کی تحقیق کر تے اور پڑھتے وہ جانتے تھے کہ آیا یہ سب باتیں سچ ہیں۔
12 کئی یہودی ایمان لا ئے اور کئی اہم یونانی مرد اور عورتیں بھی ایمان لائے۔
13 لیکن تھسلنیکا کا کے یہودیوں نے جب یہ سنا کہ پولس کلام خدا کو بیریا میں لوگوں کو سنا رہا ہے تو وہ بیریا آپہونچے اور آکر لوگوں کو پریشان کر نا شروع کردیا۔
14 چنانچہ ایمان والوں نے پولس کو جلد ہی وہاں سے سمندر کے کنارے روانہ کر دیا لیکن سیلاس اور تموتھی بیریا ہی میں ٹھہر گئے۔
15 اور ایمان والوں نے جو پولس کے ساتھ تھے اسکو ایتھنیز شہر لے گئے تب وہ سیلاس اور تیمتھیس کے لئے یہ پیام پو لس کی طرف سے لا ئے کہ جتنا جلد ہو سکے میرے پاس آؤ۔”
16 پولس ایتھینز میں سیلاس اور تمیتھیس کا انتظار کر رہا تھا جب اس نے دیکھا کہ شہر بتوں سے بھرا ہے تو اسکو بہت تکلیف ہو ئی۔
17 پولس نے یہودی ہیکل میں یہودیوں اور یونانیوں سے بات کی جو سچے خدا کی عبادت کرتے تھے۔ اورشہر کے تجارت پیشہ کلیسا سے بھی بات کی اس طرح ہر روز پو لس یہی کرتا رہا۔
18 چند اپیکیو رہن اور اسٹوٹک فلسفوں نے اس سے بحث و تقرار شروع کی۔
19 انہوں نے پو لس کو اریوپگس کی عدالت میں لے آئے اور کہا، “ہم تمہاری نئی تعلیمات کے متعلق جاننا چاہتے ہیں جو تم تبلیغ کر رہے ہو۔
20 جو کچھ تم کہہ رہے ہو وہ ہمارے لئے بالکل نئی بات ہے اور ہم نے اس سے پہلے اس قسم کی باتیں نہیں سنیں۔ اور ہم جاننا چاہتے ہیں کہ تمہاری تعلیم کے معنی کیا ہیں ؟”
21 ایتھینز کے تمام لوگ اور دوسرے جو مختلف مما لک سے ایتھینز میں بس گئے تھے۔ وہ اپنا وقت نئی نئی چیزوں کے تعلق سے باتیں کر تے ہو ئے صرف کر تے تھے۔
22 اس لئے پو لس اریوپگس کی عدالت میں اٹھ کھڑا ہوا اور کہا، “ایتھینز کے لوگو! میرا مشاہدہ ہے تم لوگ ہر چیز میں بہت مذ ہبی ہو۔
23 میں تمہارے شہر سے گزر رہا تھا تب میں نے سب کچھ دیکھا جن کی تم عبادت کر تے ہو۔ میں نے ایک قربان گاہ دیکھا جس پر یہ الفاظ لکھے تھے۔ “اس خدا کے لئے جو نامعلوم ہے “ تم اس خدا کی عبادت کرتے ہو جو تمہارے لئے نامعلوم ہے میں اس خدا کے متعلق کہتاہوں کہ،
24 وہ خدا جس نے ساری دنیا کی تخلیق کی اور اس نے ہر چیز کو پیدا کیا وہی زمین اور آسمان کا خداوند ہے۔ وہ آدمی کے بنائے ہو ئے ہیکل میں نہیں رہتا۔
25 یہ وہی خدا ہے جو انسان کو زندگی سانس اور ہر چیز دیتا ہے۔ وہ آمیوں سے کسی قسم کی مدد کا طلبگار نہیں ہوتا۔ اس کے پاس ہر چیز موجود ہے جس کی اسے ضرورت ہے۔
26 خدا نے ایک آدمی کی تخلیق کی اور اس سے لوگوں کی مختلف قوموں کو بنایا اور دنیا میں ہر جگہ رکھا۔ خدا نے طے کیا ہے کہ کب اور کہاں انہیں رہنا چاہئے۔
27 خدا لوگوں سے چاہتا ہے کہ اسکو ڈھونڈیں اسکو ہر جگہ تلاش کریں لیکن وہ ہم میں سے بہت زیادہ دور نہیں ہے۔
28 ہم اسکے ساتھ رہتے ہیں۔ ہم اسکے ساتھ چلتے ہیں۔ ہم اس کے ساتھ ہیں۔ جیسا کہ تمہارے بعض شاعروں نے کہا ہے: کہ ہم اسکے بچے ہیں۔
29 ہم خدا کے بچے ہیں اس لئے تمہیں یہ نہ سمجھنا چاہئے کہ خدا ایسا ہے جیسا کہ ہم تصور کرتے ہیں اور بناتے ہیں وہ کسی سونا چاندی یا پتھر کے مطابق بنایا نہیں گیا ہے،
30 زمانہ قدیم میں لوگوں نے خدا کو نہیں پہچانا لیکن خدا نے اس بھول کو در گزر کردیا لیکن خدا اب ہر آدمی سے یہ مانگ کر تا ہے کہ وہ اپنے دل اور زندگی کو بدل ڈالیں۔
31 خدا نے طے کر لیا ہے کہ ایک دن جس میں وہ تمام دنیا کے لوگوں کا انصاف کریگا وہ ایک آدمی کو ایسا کر نے کے لئے استعمال کریگا جسے اس نے بہت پہلے چن رکھا ہے اور یہ ثابت کر نے کے لئے اس نے اس آدمی کو موت سے اٹھا یا ہے۔”
32 جو انہوں نے مردے کو جلانے کے متعلق سنا تو بعض لوگوں نے ہنسی اڑائی اور بعض نے کہا، “ہم ان چیزوں کے بارے میں دوسرے وقت میں باتیں کریں گے۔”
33 پو لس ان لوگوں میں سے چلا آیا۔
34 لیکن ان میں سے چند لوگ پولس کے ساتھ مل گئے اور اہل ایمان ہوئے ان میں سے ایک دیونیسی یس تھا جو ایریو پگاس کا ایک حاکم تھا۔ اور دوسری ایمان لا نے والی ایک عورت تھی جس کا نام دمرس تھا اس کے علا وہ کچھ اور بھی ایمان لائے۔
18:1 اسکے بعد پولس ایتھنز کو چھوڑ کر کورنتھ شہر آیا۔
2 کورنتھ میں پولس عقیلہ نامی یہودی سے ملا۔ عقیلہ پنطس نامی جگہ میں پیدا ہوا تھا عقیلہ اور اسکی بیوی پر سکلہ اطالیہ (اٹلی) سے حال ہی میں آئے تھے اور کرنتھس میں بس گئے تھے۔ انہوں نے اطالیہ اس لئے چھو ڑا تھا کیوں کہ کلا دیس نے تمام یہودیوں کو حکم دیا تھا کہ وہ روم کو چھوڑ دیں۔پولس اکولہ اور پر سکلہ سے ملنے گیا۔
3 وہ خیمہ بنا نے والے تھے اور پو لس کا بھی وہی پیشہ تھا۔ پو لس ان کے ساتھ رہ کر کام بھی کیا۔
4 ہر سبت کے دن پو لس یہودی ہیکل میں یہودیوں اور یونانیوں سے بات کیا کرتا اور انہیں یسوع کو ماننے کی رغبت دلا تا۔
5 سیلاس اور تموتھی نے مقدونیہ سے کورنتھ پولس کے پاس آئے۔ تب پولس نے اپنا سارا وقت لوگوں کو خوشخبری سنانے میں وقف کیا اس نے یہودیوں کو بتا یا کہ یسوع ہی مسیح ہے۔
6 لیکن یہودیوں نے پولس کی تعلیمات کو قبول نہیں کیا اور اسے برا کہا۔ اس لئے پولس نے اپنے کپڑوں کی گرد جھا ڑ کریہودیوں سے کہا، “اگر تمہیں نجات نہ ملے تو یہ تمہاری اپنی غلطی ہو گی۔ میں وہ سب کچھ کر چکا ہوں جو میں کر سکتا ہوں۔ اب یہیں سے میں غیر یہودیوں کے پاس جاؤں گا۔”
7 پولس اٹھا اور یہودی ہیکل سے کسی ططِس یُوستس کے مکان گیا یہ آدمی سچّے خدا کا عبادت گزار تھا اس کا مکان یہودی عبادت خانے سے ملا ہوا تھا۔
8 کرسپس یہودی ہیکل کا سردار تھا۔ کرسپس اور اس کے گھر میں رہنے والے تمام لوگوں نے خدا وند پر ایمان لا ئے۔نیز کورنتھ کے رہنے والے دوسرے کئی لوگوں نے پولس کی باتوں کو سنا ایمان لائے اور بپتسمہ لیا۔
9 رات میں پولس نے رویا میں دیکھا کہ خدا وند نے اس سے کہا، “مت ڈرو تبلیغ کو جاری رکھو اور رکو مت۔
10 میں تمہارے ساتھ ہوں کو ئی بھی تمہارے اوپر حملہ کر کے نقصان نہ پہنچا سکیگا کیوں کہ میرے بہت سے لوگ اس شہر میں ہیں۔”
11 پولس وہاں ڈیڑھ سال رہا اور لوگوں کو خدا کی تعلیمات سکھا تارہا۔
12 گلّیو ملک اخیہ کا صوبہ دار بنا تھا تب کچھ یہودی پولس کے مخالف بن کر آئے اور اسے عدالت میں لا ئے۔
13 یہودیوں نے گلّیو سے کہا، “یہ شخص لوگوں کو خدا کی عبادت کر نے کے لئے وہ تعلیمات کو سکھا رہا ہے جو ہمارے یہودی قانون کے خلاف ہے۔”
14 پولس کہنے کے لئے تیار ہوا لیکن گلّیو نے یہودیوں سے کہا، “اے یہودیو! میں یقیناً تم لوگوں کی ضرور سنتا اگر تم لوگ کسی برے کام یا خطر ناک جرم کے بارے میں شکایت کر تے۔”
15 لیکن تم لوگ جو بحث کر رہے ہو الفاظ ناموں اور تمہارے یہودی قانون کے متعلق ہے۔ اس لئے اس مسئلہ کو جو تمہارا ہے تمہیں اپنے طور پر حل کرنا ہوگا میں اس قسم کے موضوعات کا منصف بننا نہیں چاہتا۔”
16 اور گلّیوں نے انہیں عدالت سے جانے کے لئے کہا۔
17 تب ان سب لوگوں نے ہیکل کے سردار سوستھینس کو پکڑا اور اسکو عدالت کے سامنے مارا لیکن گلّیونے ان تمام باتوں کی پر واہ نہ کی۔
18 پولس بھا ئیوں کے ساتھ کئی دن گزارے تب نکل کر جہاز کے ذریعہ ملک شام گیا۔ پر سکّلہ اور اکولہ بھی اسکے ساتھ تھے۔ ایک جگہ جو کنحرییہ کہلا تی ہے۔ پولس نے اپنے بال کٹوائے اس کا مطلب یہ تھا کہ اس نے خدا سے عہد کیا تھا۔
19 تب وہ افُس شہر گیا جہاں پولس نے پر سکلّہ اور اکولہ کو چھوڑا تھا۔ جب پو لس افُس میں تھا تو وہ یہودیوں کے ہیکل میں گیا اور یہودیوں سے بات کی۔
20 یہودیوں نے پو لس سے مزید اور کچھ دن ٹھہر ے رہنے کو کہا لیکن اس نے انکی نہیں مانی۔
21 پولس نے ان سے کہا، “اگر خدا نے چاہا تو میں دوبارہ تمہارے پاس آؤنگا۔” تب افُس سے نکلا اور جہاز سے روانہ ہوا۔
22 پولس قیصریہ شہر کو گیا اور یروشلم میں وہ کلیسا کے ایمان والے گروہ کو سلام کر کے انطاکیہ آیا۔
23 پولس کچھ عرصہ انطاکیہ سے گلتیہ اور فروُگیہ کے ذریعہ دوسرے کئی شہروں اور قصبات کو گیا اور وہاں شاگردوں کو مضبوط کر تا گیا۔
24 اپلّوس جو یہودی تھا افیُس کو آیا اپلّوس سکندریہ میں پیدا ہوا تھا وہ ایک تعلیم یا فتہ آدمی تھا۔ اس کو صحیفوں کے متعلق بہت اچھی معلو مات تھی۔
25 اپلّوس خداوند کے طریقہ کے متعلق پڑھا تھا اور جب کبھی یسوع کے متعلق لوگوں سے کہتا تھا تو جوش میں آجاتا وہ یسوع کے متعلق صحیح صحیح تعلیم دیتا جو اس نے یسوع سے حاصل کی تھی۔ لیکن وہ یوحنا کے بپتسمہ کے متعلق سے بھی واقف تھا۔
26 اپلّس نے یہودی ہیکل میں بلا خوف کہنا شروع کیا پرسکّلہ اور اکولہ نے اسکو تعلیم دیتے سنا ہے وہ اسکو اپنے گھر لے گئے اور اسکو خدا کی راہ کو اور زیادہ صحیح طریقہ سے بتایا۔
27 ا پلّوس شہر اخیہ کے صوبہ جانا چاہتا تھا اسلئے افیُس کے بھا ئیوں نے اس کی مدد کی انہوں نے اخیہ میں یسوع کے شاگردوں کو ایک خط لکھا کہ وہ اپلّوس کا استقبال کریں۔ اخیہ کے شاگرد خدا کے فضل سے ایمان لائے تھے جب اپلّوس وہاں پہونچا تو انہوں نے اس کی بڑی مدد کی۔
28 سب لوگوں کے سامنے اس نے یہودیوں سے زور دار بحث کی اور یہودیوں کے مقابلے میں جیت گیا۔ اس نے صحیفوں کی شہادت سے ثابت کیا کہ یسوع ہی مسیح ہے۔
19:1 جب اپلّوس کورنتھیں شہر میں تھا پولس کئی جگہوں پر گیا جو شہر افیُس کے راستے میں تھے۔ افیس میں پولس اپنے چند دیگر شاگردوں سے ملا۔
2 پولس نے لوگوں سے پو چھا!” کیا تم نے ایمان لا تے وقت روح القدس کو پایا؟” ان شا گردوں نے جواب دیا، “ہم نے کبھی کسی وقت بھی روح القدس کے متعلق نہیں سنا۔”
3 پو لس نے ان سے پوچھا، “تم نے کس قسم کا بپتسمہ لیا؟” انہوں نے جواب دیا، بپتسمہ وہی تھا جیسا کہ یو حناّ نے سکھا یا۔
4 پولس نے کہا، “یو حناّ نے لوگوں سے کہا کہ بپتسمہ لے کر اپنی زند گیوں کو تبدیل کریں۔ اور اس نے ان سے کہا کہ اس پر ایمان لا ئیں جو اس کے بعد آنے وا لا ہے اور وہ آدمی یسوع ہے۔”
5 جب ان شاگردوں نے یہ سنا تو انہوں نے خدا وند یسوع کے نام کا بپتسمہ لیا۔
6 تب پو لس نے اپنے ہاتھ ان پررکھے اور وہ روح القدس ان پر نازل ہوا اور وہ مختلف زبانیں بولنے اور نبوت کر نے لگے۔
7 اس وقت تقریبا ً بارہ آدمی اس گروہ میں تھے۔
8 پو لس یہودیوں کے ہیکل میں گیا اور بلا خوف تقریر کی اس نے تقریباً تین ماہ تک ایسا کیا اس نے یہودیوں سے بات کی اور انہیں خدا کی بادشاہت کے متعلق رغبت دلا ئی۔
9 لیکن چند یہودی جو مخا لف ہو گئے تھے انہوں نے ایمان لا نے سے انکار کیا اور انہوں نے لوگوں کے سامنے خدا کی راہوں کو برا بھلا کہا اور پولس ان یہودیوں سے الگ ہو گیا اور یسوع کے شاگردوں کو الگ کر لیا۔ پو لس ہر روز اسکول میں بحث کیا کر تاتھا اسکو ل کو ترتس نے قائم کیا تھا۔
10 پولس دو برس تک یہی کرتا رہا۔ جس کے نتیجے میں تمام یہودی اور یونانی نے جو ایشیاء کے ملک میں رہتے تھے خدا وند کے کلام کو سنا۔
11 خدا نے پو لس کے ذریعے چند خاص معجزے دکھا ئے۔
12 کچھ لوگ رومال اور کپڑے جو پولس نے استعمال کئے تھے لیکر بیمار لوگوں پر ڈالتے او روہ بیماری سے اچھے ہو جاتے اور بری روحیں ان میں سے نکل جاتی تھیں۔
13 کچھ یہودی جو جھاڑ پھونک کیا کر تے تھے تاکہ بدروحیں نکل جائیں اور سکوا کے سات لڑکے بھی یہی کام کر تے تھے سکوا ایک اعلیٰ پادری تھا وہ لوگ “یسوع کا نام لیکر بد روحوں کو نکالنے کی منا دی کر تے “اور کہتا کہ میں تمہیں اس خدا وند یسوع کے نام جس کا منادی پولس کرتا ہے میں تمہیں حکم دیتا ہوں تم باہر نکل جاؤ۔”
14
15 لیکن ایک دفعہ ایک بد روح نے ان یہودیوں سے کہا میں یسوع کو جانتا ہوں اور پو لس کو بھی جانتا ہوں لیکن یہ بتاؤ کہ تم کون ہو ؟”
16 تب وہ آدمی جس میں بد روح تھی کود کر ان پر جا گرا وہ ان تمام لوگوں سے زیادہ طا قت ور تھا۔ اس نے ان تمام کو مارنا شروع کیا اور کپڑے پھا ڑ ڈالے اور وہ یہودی مارنا شروع کیا اور وہ یہودی ننگے اور زخمی ہو کر بھاگ گئے۔
17 تمام یہودی اور یونانی جو افیس میں رہتے تھے سب کو یہ بات معلوم ہوئی جس وجہ سے سب میں خدا کا خوف آگیا اور سب لوگ خدا وند یسوع کے نام کی حمد کر نے لگے۔
18 کئی اہل ایمان آنا شروع کئے اور برائی کے کام جو وہ کر چکے تھے اسکا اقرا رکر نے لگے۔
19 بہت سے ایمان والے جو جادو کر تے تھے ان جادو کی کتابوں کو جمع کیا اور سب کے سامنے جلا ڈالیں ان کتابوں کی قیمت ۵۰۰۰۰ چاندی کے سکّے تھی۔
20 اس طرح خدا وند کا پیغام تیزی کے ساتھ پھیل رہا تھا اور زیا دہ سے زیادہ لوگ ایمان لا نے والے ہو گئے۔
21 ان واقعات کے بعد پولس مگدنیہ اور اخیہ سے گزرتے ہو ئے یروشلم جانے کا منصوبہ بنایا۔ اس نے کہا، “یروشلم جانے کے بعد مجھے روم بھی جانا چاہئے۔”
22 پولس نے تمیتھیس اور اراستس کو جو دونوں اس کے مدد گار تھے مگدنیہ بھیجا اور وہ ایشیاء میں کچھ روز اور رہا۔
23 اس دوران افیُس میں کچھ یسوع کی راہ کے بارے میں شدید فساد ہوا۔
24 ارتمس نامی ایک چاندی بنانے والا تھا جو چاندی میں اترمس دیوی کے ہیکل سے مشابہ نمونہ بنایا کا ریگروں نے اس تجارت کے ذریعہ کافی رقم حاصل کی۔
25 دیمیریس نے ان کاری گروں کو اور دوسروں کو بھی جو اسی قسم کی تجارت کررہے تھے جمع کیااور کہا، “لوگو ! تم جانتے ہو کہ ہم اس کام سے کافی رقم کما رہے ہیں۔
26 لیکن دیکھو جیسا کہ تم دیکھتے ہو اور سنتے ہو یہ آدمی پو لس بہت سے لوگوں کی سوچ فکر کو راغب کر کے یہ کہتے ہو ئے تبدیل کر دیا ہے کہ جن خداؤں کو آدمی بنائے وہ حقیقت میں خدا نہیں اس طرح کی باتیں وہ سارے افیُس میں ہی نہیں بلکہ سارے ایشیاء کے صوبے میں کر رہا ہے۔
27 پولس کا یہ کام شاید ہمارے کام کے لئے نقصان دہ ہو۔ ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ لوگ یہ سوچنا شروع کردیں کہ عظیم دیوی ارتمس کا مندر غیر اہم ہے اس طرح دیوی کا وقار ختم ہو جائے گا ارتمس وہ دیوی ہے جس کی نہ صرف ایشیاء میں بلکہ ساری دنیا میں اس کی عبادت کی جاتی ہے۔”
28 جب لوگوں نے یہ سنا تو غصّہ سے بپھر گئے اور چلا نے لگے “ارتمس شہر افیس کی دیوی ہے اور وہ عظیم ہے۔”
29 گاؤں کے تما م لوگ بے چین ہو گئے لوگوں نے گیتس ارستر خس کو پکڑ لیا اور یہ دونوں مگد نیہ سے تھے اور پو لس کے ساتھ سفر کرہے تھے۔ اور تمام لوگ تماشہ گاہ کی طرف دوڑ پڑے۔
30 پولس تماشہ گاہ میں اندر جاکر ان لوگوں سے بات کر نا چاہتا تھا۔ لیکن شاگردوں نے اسے اندر جا نے نہیں دیا۔
31 اسکے علاوہ کچھ رہنما اس ملک میں پولس کے دوست تھے۔ انہوں نے پو لس کے نام ایک پیغام بھیجا جس میں کہا کہ وہ تماشا گاہ کے اندر نہ جائیں۔
32 بعض لوگ کچھ چلا رہے تھے تو بعص لوگ کچھ اور ہی چلا رہے تھے۔ مجلس درہم برہم ہو گئی چونکہ لوگ یہ نہیں جان پا ئے کہ وہ کیوں اکھٹے ہو ئے ہیں۔
33 یہودیوں نے اسکندر نام کے شخص کو لایا لوگوں کے سامنے کھڑا کیا مجمع میں سے کچھ لوگ اس کو حالات سمجھا ئے اس نے اپنے ہاتھ سے اشارہ کر کے لوگوں کی توجہ اپنی طرف کر نا چاہا۔
34 لیکن لوگوں کو معلوم ہوا کہ اسکندر یہودی ہے تو لوگ ایک آواز ہو کر دو گھنٹے تک چلا تے رہے “افیس کی ارتمس عظیم ہے ““افیس کی ارتمس عظیم ہے۔”
35 اور شہر کے محرر نے شہر کے لوگوں کو خاموش کر نا چاہا اس لئے اس نے کہا، “افیس کے لوگو تم سب جانتے ہو کہ افیس ایک ایسا شہر ہے جس میں ارتمس عظیم دیوی کا مندر اور مقدس چٹان اسکی حفاظت میں ہے۔
36 کو ئی بھی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ سچ نہیں ہے اس لئے آپ لوگ خاموش ہو جائیں اور کچھ نہ کریں اور کچھ کر نے سے پہلے سوچیں۔
37 تم ان آدمیوں کو لا ئے ہو لیکن انہوں نے نہ تو تمہاری دیوی کے خلاف کوئی برا ئی کی اور نہ ہی کو ئی چیز اس کے مندر سے چرائے ہیں۔
38 ہمارے پاس شریعت کی عدالت ہے منصف بھی ہیں اگر دیمتیریس اور اس کے آدمی نے ان کے خلاف کو ئی الزام لگایا ہے۔ تو انہیں عدالت کی طرف رجوع ہو نا چاہئے جس کو دلچسپی ہے وہاں جا سکتے ہیں اور اپنا مقدمہ میں بحث کر سکتے ہیں اور جواب میں دعویٰ پیش کر سکتے ہیں۔
39 اگر مزید اور کو ئی بات ہے تو جس کے متعلق تم گفتگو کر نا چاہو تو شہر کے اجلاس میں آؤ وہیں اسکا فیصلہ ہو گا۔
40 ہم خطرہ میں ہیں آج کے فساد کی وجہ سے ہم اپنی وضاحت اپنے بچاؤ میں پیش کر نے سے قاصر ہیں جس کی کو ئی وجہ ہی نہیں ہے۔”
41 اس کے بعد محرر شہر نے لوگوں کو اپنے اپنے گھر جانے کی تاکید کی اور سب لوگ چلے گئے۔
20:1 جب ہلچل رک گئی تو پو لس نے یسوع کے شاگردوں کو مدعو کیا ان کی اہمیت بندھا کر وہاں سے اپنا سفر مقرر کر کے مگدنیہ کے لئے روانہ ہوا۔
2 اپنے مگدنیہ کے راستے میں اس نے مختلف مقا مات پر یسوع کے شاگردوں کو بہت ساری نصیحتیں کیں تا کہ وہ ثابت قدم رہیں۔ اور پھر یونان روانہ ہوا۔
3 وہاس وہ تین مہینے تک رہا پھر سوریہ جانے کے لئے تیار ہو گیا۔ لیکن یہودی اس کے خلاف منصوبے بنا رہے تھے۔
4 کچھ لوگ جو اس کے ساتھ تھے وہ ٹیٹرس کا بیٹا سوپترس جو بیرییہ کا تھا۔ ارستر خس اور سکندس تھسلنیکا کے تھے اور گیس جو دربے کا تھا۔اور تیمتتھیس اور ایشیاء کا نحکس ترخمس ایشیا تک اس کے ساتھ تھے۔
5 یہ لوگ پہلے شہر تراوس گئے اور ہما را انتظار کیا۔
6 ہم جہاز کے ذریعہ فلپی سے بغیر خمیر کی روٹی کی تقریب کے بعد روا نہ ہو ئے اور ان لوگوں سے ترا وس میں پانچ دن بعد ملے۔اور سات دن تک وہیں رہے
7 ہفتہ کے پہلے دن ہم سب وہاں جمع ہو ئے تا کہ خداوند کا کھا نا کھا ئیں پو لس نے گروہ سے کہا کہ دوسرے دن وہ یہاں سے نکلنے کا منصوبہ بنایا ہے اور وہ تقریباً آدھی رات تک باتیں کرتا رہا۔
8 ہم سب بالا حانہ کے کمرہ میں جمع تھے اور وہاں کئی چراغوں کی روشنی تھی۔
9 وہاں ایک نو جوان آدمی یُو تخس نامی کھڑ کی میں بیٹھا تھا۔ پولس کی باتیں سن کر آخر کار وہ نیند کے زور میں کھڑ کی کے باہر گرا وہ تیسری منزل سے نیچے گرا اور لوگ نیچے جا کر اس کو اٹھا نا چا ہا تو دیکھا کہ وہ مر چکے تھے۔
10 پولس نیچے گیا جہاں یُوتخس پڑا تھا اور اس پر جھک کر اسے گلے لگا لیا پو لس نے ایمان وا لوں سے کہا، “جو یہاں جمع ہیں پریشان مت ہوں وہ زندہ ہے۔
11 پو لس دوبارہ اوپر آیا اور روٹی کے ٹکڑے کر کے کھا یا اور ان سے دیر تک باتیں کی جب اس نے اپنی باتیں ختم کیں تو صبح ہو چکی تھی تب پولس روانہ ہوا۔
12 لوگ یُوتخس کو گھر لے گئے دیکھا تو وہ زندہ ہے اور لوگوں کو بڑی تسلی ہو ئی
13 ہم بذریعہ جہاز شہراُسس گئے کہ پہلے جاکرپولس کو لے لیں اس نے ہم سے اُسس میں ملنے کا منصوبہ بنا یا تھا اور جہاز کو ٹھہرا کر اُسس تک پیدل جانے کا منصوبہ بنایا تھا۔
14 پو لس ہم سے اُسس میں ملا اور ہم سب جہاز سے شہر متلینے گئے۔
15 دوسرے دن متلینے سے جہازسے روانہ ہوئے اور جزیرہ خُیس کے قریب ایک جگہ پہو نچے اور وہ تیسرے دن جہاز سے سامُس پہونچے اور اگلے دن شہر میِلیتُس پہونچے۔
16 پو لس نے یہ طئے کر لیا تھا کہ افیس میں نہ رکے کیوں کہ وہ زیادہ دن ایشیاء میں گذارنا نہیں چا ہتا تھا وہ جلدی میں تھا کیوں کہ پنیکست کے دن وہ یروشلم میں رہنا چا ہتا تھا۔
17 میلیتس میں پولس نے افیُس کو پیغام بھیجا اور اس نے کلیسا کے بزرگوں کو ملنے کے لئے بلا یا۔
18 جب بزرگ وہاں آئے تو پولس نے کہا، “آپ جانتے ہیں میں نے کس طرح اپنا سا را وقت گذارا۔ میں آپ کے ساتھ ایشیاء آنے کے پہلے دن ہی سے تھا۔
19 یہودیوں کے میرے خلاف بنائے ہو ئے منصوبوں سے مجھے کئی دکھ اٹھا نے پڑے اور اکثر میں رو پڑا جیسا کہ تم جانتے ہو کہ میں نے ہمیشہ خداوند کی خدمت کی میں نے اپنے بارے میں کبھی نہیں سوچا
20 میں نے ہمیشہ تمہا ری بہتری کے لئے ہی سوچا اور میں نے تمہیں خوش خبری یسوع کے متعلق عام لوگوں میں دی اور تمہیں گھر میں بھی سکھا یا۔
21 میں نے یہودیوں سے کہا اور یونانیوں سے بھی کہا کہ وہ اپنے دلوں کو بدلیں اور خدا کی طرف رجوع ہو جائیں۔اور خداوند یسوع پر ایمان لائیں۔
22 لیکن اب میں یروشلم جا رہا ہوں رو ح القدس کی مجبوری سے میں نہیں جانتا کہ وہاں میرے ساتھ کیا ہوگا۔
23 لیکن ایک بات جانتا ہوں کہ روح القدس خبر دار کرتا ہے ہر شہر میں مجھے مصیبتوں میں گھر نا ہے اور قید حاصل کرنا ہے۔
24 میں نے کبھی اپنی زندگی کی پر واہ نہیں کی میرے لئے اہم بات یہ ہے کہ اپنا کام پو را کر لوں جسے خداوند یسوع نے مجھے دیاہے وہ کام ہے۔ خدا کے فضل کی خوشخبری کی تعلیم۔
25 “اور اب سنو ! میں جانتا ہوں تم میں سے کو ئی بھی مجھے آئندہ نہیں دیکھے گا۔ جب میں تمہارے ساتھ تھا تومیں نے تمہیں خدا کی بادشاہت کی خوشخبری دی ہے۔
26 اور آج میں تم سے ایک بات کہوں گا اس یقین سے کہ تم میں سے اگر کسی کی نجات نہ ہو ئی ہو تو خدا مجھے ذمہ دار نہ ٹھہرا ئے گا۔
27 میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ میں نے تمہیں ہر چیز سے آگاہ کر دیا ہے جس کو خدا نے تمہیں پہونچا نا چاہا۔
28 خبر دار رہ اپنے آپ کے لئے اور ان تمام لوگوں کے لئے جو خدا نے تمہیں دی ہیں۔ روح القدس نے تمہیں یہ ذمہ داری دی ہے کہ تم خدا کے بندوں کی دیکھ بھا ل کرو۔ تم خدا کی کلیسا کے چرواہے کی مانند ہو۔ یہ کلیسا خدا نے اپنے خاص خون سے مول لیا ہے۔
29 میں جانتا ہوں میرے جانے کے بعد تمہارے گروہ میں کچھ لوگ داخل ہو نگے جو جنگلی بھیڑوں کی مانند ہونگے وہ لوگ تمہارے ریوڑ کو تباہ کر نے کی کو شش کریں گے۔
30 اور تمہارے گروہ میں کچھ برے قسم کے لوگ رہنما بنیں گے۔ وہ لوگ برائی کی تعلیم شروع کریں گے اور یہ لوگ یسوع کے ماننے والوں کو سچائی سے دور کر نے کی کوشش کریں گے تا کہ وہ انکے ساتھ ہو سکیں۔
31 اس لئے تم ہو شیارر ہو اور یہ بات ہمیشہ اپنے ذہن میں رکھو کہ میں تمہارے ساتھ تین سال تک تھا، میں نے ہمیشہ برائی کے خلاف انتباہ کیاہے اور تمہیں دن رات سکھا تا رہا اور اکثر تمہا رے لئے رویا بھی ہوں۔
32 “اب میں تمہیں خدا کی نگرانی کے حوالے کرتا ہوں اور خدا کے فضل کا پیغام تمہیں خدا کی رحمت دیگی اور وہ پیغام خدا کے اپنے مقدس لوگوں کو میراث دیتا ہے۔
33 جب میں تمہارے ساتھ تھا تو میں نے کبھی تمہاری دولت اور قیمتی پو شاک نہیں چا ہا۔
34 تم جانتے ہو کہ میں نے ہمیشہ اپنی ضرورتوں کے لئے کام کیا اور انکی ضرورتوں کے لئے جو میرے ساتھ تھے۔
35 میں تمہیں کہہ چکا ہوں کہ تمہیں اسی طرح سخت کام کر نا چا ہئے جس طرح میں نے کیا ہے اور کمزور لوگوں کی مدد کر نے کے قابل بنائیں۔ میں نے تمہیں سکھا یا ہے کہ خدا وند یسوع نے کیا کہا ان باتوں کو یاد کریں۔ یسوع نے کہا تھا دینے میں زیادہ خوشی ہے بنسبت دوسروں سے لینے میں۔”
36 جب پولس نے اپنی تقریر ختم کی تو وہ سب کے ساتھ گھٹنوں کے بل جھک گیا اور سب نے مل کر دعا کی۔
37 وہ سب بہت روئے سب لوگ بہت غمگین تھے کیوں کہ پولس نے کہا کہ اسے پھر کبھی نہ دیکھ سکیں گے۔ انہوں نے پولس کے گلے لگ کر اسے بوسہ دیا اور اسکے ساتھ اسے جہاز تک پہونچا نے گئے اور الوداع کہا۔
38
21:1 ہم سب نے بزر گوں کو الوداع کہا تب ہم نے جہاز سے ا پنا سفر شروع کیا اور جزیرئہ کوس پہونچے۔ دوسرے دن جزیر ہ رُدُس گئے اور رُدُس سے پترہ گئے۔
2 پترہ میں ہم نے دیکھا کہ جہاز فینیکے جا رہا ہے۔ ہم جہاز پر سوار ہو ئے۔
3 اور جزیرئہ کپرس کے قریب پہونچے۔ ہم کو کپرس شمالی جانب نظر آیا لیکن وہاں رکے نہیں اور ٹھیک سوریہ روانہ ہو گئے ہم شہرصور پر رکے کیوں کہ جہاز کو وہاں اپنا مال اتار نا تھا۔
4 صور میں کچھ یسوع کے ماننے والوں سے ملے ہم انکے ساتھ سات دن تک ٹھہرے انہوں نے پولس سے کہا کہ یروشلم نہ جائے اسلئے کہ روح القدس نے ان کو خبر دار کیا تھا۔
5 جب ہم نے وہاں سات دن مکمل کئے ہم نے اپنا سفر جاری رکھا تمام یسوع کے شاگرد جن میں عورتیں اور بچے بھی تھے شہر سے باہر آئے تا کہ الوداع کہیں ہم سب نے گھٹنوں کے بل جھک کر دعا کی۔
6 تب ہم نے الوداع کہا اور جہاز پر سوار ہو گئے اور شاگرد گھر واپس ہوئے۔
7 اپنا سفر ہم نے صور سے جا ری رکھا اور شہر پتلمیس گئے۔وہاں اپنے ایمان وا لے بھا ئیوں سے ملے اور ایک دن ان کے ساتھ رہے۔
8 دوسرے دن ہم پتلمیس سے شہر قیصریہ گئے ہم فلپ کے گھر گئے اور اس کے ساتھ رہے فلپ کا کام خوش خبری کی تبلیغ کا تھا وہ ان سات مددگاروں میں سے ایک تھا۔
9 اس کی چا ر لڑکیاں تھیں جن کی شادیاں نہیں ہو ئی تھیں اور یہ کنواری بیٹیاں نبوت کے تحفے تھیں۔
10 جب ہم وہاں چند روز ٹھہرے تو اگبُس نامی ایک آدمی جو نبی تھا یہوداہ سے آیا۔
11 وہ ہمارے پاس آیا اور پولس کا کمر بند لیا اگبُس نے کمر بند سے اس کے ہاتھ پیر باندھے اور کہا، “روح القدس مجھ سے کہتا ہے کہ یہودی یروشلم میں آدمی کو اسی طرح باندھیں گے جسے یہ کمر بند باندھا ہو گا اور ان کو غیر یہودیوں کی تحویل میں دیا جائے گا۔”
12 جب ہم نے یہ سنا تو مقا می شاگردوں نے اس سے التجا کی کہ وہ یروشلم نہ جا ئے۔
13 لیکن پولس نے کہا، “تم کیوں رورہے ہو ؟” “اور کیوں مجھے ایسا رنجیدہ کر رہے ہو؟ میں یروشلم میں نہ صرف باندھے جا نے پر راضی ہوں بلکے خداوند یسوع کے نام پر مر نے کے لئے بھی تیار ہوں۔
14 ہم اس کو یروشلم جانے سے نہ روک سکے اور اس سے التجا کرنا چھوڑ کر کہا، “ہماری دعا ہے کہ خداوند کا منشاء پورا ہو۔”
15 وہاں ہمارے رہنے کا وقت ختم ہو نے کے بعد ہم یروشلم جانے کے لئے تیار ہو ئے۔
16 کچھ یسوع کے ماننے والے قیصریہ سے ہمارے ساتھ آئے تھے اور یہ شاگرد ہمیں مناسون کے گھر لے آئے تا کہ ہم اس کے ساتھ ٹھہر سکیں۔ مناسون کپرس کا تھا اور وہ یسوع کے ماننے والوں میں پہلا شخص تھا۔
17 یروشلم میں ایما ن وا لے ہمیں دیکھ کر بہت خوش ہو ئے۔
18 دوسرے دن پو لس ہمارے ساتھ یعقوب سے ملنے آیا سب بزرگ بھی وہاں تھے۔
19 پولس ان سب سے ملا اس نے تفصیل سے ان کو دوسری قوموں میں اس کی وزرات کے متعلق اور تمام چیزیں جو اس کے ذریعہ خدا نے کی اسے کہا۔
20 جب قائدین نے یہ سنا تو انہوں نے خدا کی تمجید کی اور پولس سے کہا، “بھا ئی تم جانتے ہو ہزاروں یہودی ایمان لا ئے ہیں لیکن ان کا مضبوط ایمان ہے وہ سوچتے ہیں موسیٰ کی شر یعت کا پالن کرنا اہم ہے۔
21 یہ یہودی تمہا ری تعلیمات کو سن چکے ہیں اور یہ بھی سن چکے ہیں کہ تم یہودیوں کو جو دوسرے ملکوں میں رہتے ہیں یہ تعلیم دیتے ہو کہ موسیٰ کی شر یعت سے ہٹ جا ئیں اور تمہیں یہ کہتے سنا ہے کہ اپنے لڑ کو ں کا ختنہ نہ کرو اور نہ ہی موسیٰ کی شر یعت و رسم پر عمل کرو۔
22 ہمیں کیا کرنا ہوگا ؟ یہ یہودی اہل ایمان کو یقیناً معلوم ہوگا کہ تم یہاں آئے ہو۔
23 اس لئے ہم تم کو مشورہ دیتے ہیں حسب ذیل احکام کو بجا لا ؤ ہمارے یہاں چار آدمیوں نے خدا سے ایک منت مانی ہے۔
24 تم انہیں اپنے ساتھ لے جاؤ اور ان کی پا کی کی تقریب میں شامل رہو ان کے اخرا جات کو ادا کرو تا کہ وہ اپنے سر منڈ وائیں جس سے ہر ایک کو معلوم ہو گا کہ جو کچھ انہوں نے تمہا رے بارے میں سنا ہے وہ سچ میں ہے۔ وہ یہ جان لیں گے کہ تم خود موسیٰ کی شر یعت کے مطا بق رہتے ہو اور تم اس پر عمل کرتے ہو۔
25 ہم فیصلہ کے بعد غیر یہودی ایمان وا لوں کو ایک خط روا نہ کر چکے ہیں جو درج ذیل ہے:
26 تب پو لس نے چارآدمیوں کو اپنے ساتھ لیا اور دوسرے دن اپنے آپ کو پاک کر کے ہیکل کو گیا تا کہ خبر دے سکے کہ کب پاک کر نے کی رسم ختم ہو گی آ خری دن ہر ایک کی جانب سے نذر لی جا ئے گی۔
27 تقریباً سات دن ختم ہو نے کو تھے اور ایشیاء کے کچھ یہودیوں نے پولس کو ہیکل میں دیکھاوہ تمام لوگوں کی پریشا نی کا سبب بنے اور پو لس کو پکڑ لیا۔
28 وہ چلا ئے “اے یہو دیو ہماری مدد کرو یہ وہی آدمی ہے جو سب لوگوں کو موسیٰ کی شریعت کے خلاف کر نے کی تعلیم دیتا ہے اور ہما رے لوگوں کو اور ہم لوگوں کی اس ہیکل کے خلاف کہتا ہے۔ یہ اس قسم کی تعلیم ہر جگہ لوگوں کو دیتا ہے اور اب چند یو نانی آ دمیوں کو ہیکل کے آنگن میں لا یا ہے اور پاک جگہ کو نا پاک کردیا ہے۔”
29 انہوں نے یہ تمام چیزیں اس لئے کیں کیوں کہ انہوں نے تروفیمس کو پولس کے ساتھ یروشلم میں دیکھ چکے تھے۔ تروفیمس یونانی تھا اور وہ افیس کا تھا۔ یہودیوں نے سمجھا کہ پولس اسکو ہیکل کی مقدس جگہ پر لا یا ہے۔
30 یروشلم میں سب لوگ پریشان تھے اور تمام لوگ دوڑ دوڑ کر جمع ہو ئے اور پولس کو ہیکل کی مقدس جگہ سے باہر کھینچ لا ئے اور ساتھ ہی ہیکل کے دروازوں کو فوراً بند کر دیا۔
31 لوگ پولس کو قتل کرنا چاہتے تھے اور جب فوج کے سربراہ کو خبر ملی کہ پو رے شہر میں گڑ بڑ ہے۔
32 فوجی سردار تیزی سے فوجی افسروں اور سپاہیوں کے ساتھ وہاں پہونچ گئے لوگ فوجی سپاہیوں اور سرداروں کو دیکھا اور پولس کو مار پیٹ کر نے ے باز آئے۔
33 فوجی سردار پولس کی طرف بڑھا اور اس کو گرفتار کر لیا اور اپنے سپاہیوں کو حکم دیا، “اسے زنجیروں سے باندھ دو ! اور پھر پوچھا کہ یہ کون ہے اور اس نے کیا ہے؟”
34 مجمع میں سے کچھ لوگ ایک بات پر چلا رہے تھے اور دوسرے لوگ کسی اور بات پر۔ کو ئی مختلف باتیں بتا رہا تھا اس ہلٹر بازی میں فوجی سردار کچھ سمجھ نہ سکا کہ اصل واقعہ کیا ہے اس لئے اس نے سپاہیوں کو حکم دیا کہ پولس کو فوجی قلعہ میں لے جایئے۔
35 اور ساری بھیڑ ساتھ ہو گئی جب سپاہی سیڑھیوں پر پہونچے تو مجمع تشدد پر اتر آیا انہیں پو لس کو اٹھا کر لے جانا پڑا اور اس طرح پو لس کی حفاظت کر نی پڑی کیوں کہ لوگ اس کو ضرر پہونچانا چاہتے تھے اور چلا رہے تھے کہ “اسکو مار ڈا لو۔”
36
37 جب سپا ہی پو لس کو قلعہ میں لے جا رہے تھے تو پو لس نے فوجی سردار سے کہا، “کیا میں تم سے کچھ کہہ سکتا ہوں؟”
38 تب تو تم وہ آدمی نہیں جو میں نے سوچا تھا میں نے سوچا تھا کہ تم وہی مصری ہو جس نے کچھ عرصہ پہلے حکو مت کے خلاف گڑ بڑ شروع کی تھی اور تقریباً چار ہزار آدمیوں کو باغی بنا کر انہیں ریگستان میں لے گیا تھا ؟”
39 پولس نے کہا، “نہیں میں تو ترسس کا یہودی ہوں اور ترسس کلکیہ میں ہے اور میں اس کا اہم شہری ہوں براہ کرم مجھے لوگوں سے بات کر نے دیجئے۔”
40 فوجی افسر نے پو لس کو لوگوں سے بات کر نے کی اجازت دی پو لس نے سیڑھیوں پر کھڑے ہو کر لوگوں کو ہاتھ ہلا کر اشارہ کیا جس سے لوگ خاموش ہو گئے پو لس ان سے یہودیوں کی زبان میں بولا۔
22:1 پو لس نے کہا، “اے میرے بزرگو اور بھا ئیو ! سنو میں اپنی صفائی میں تم سے کچھ کہنے جا رہا ہوں۔”
2 جب یہودیوں نے سنا کہ پو لس عبرانی زبان میں باتیں کر رہا ہے تو چپ ہو گئے۔ پو لس نے کہا۔
3 “میں یہودی ہوں اور میں ترسس میں پیدا ہوا ہوں جو ملک کلکیہ میں ہے میری پر ورش شہر یروشلم میں ہو ئی اور میں گملی ایل کا طالب علم تھا جس نے مجھے خاص توجہ سے ہمارے باپ دادا کی شریعت کی تعلیم دی میں سچی لگن سے خدا کی خدمت کر رہا تھا جیسا کہ تم لوگ آج یہاں جمع ہو۔
4 میں ان لوگوں کو بہت ستا یا جو مسیحی طریقہ پر چلتے تھے ان میں سے چند لوگوں کی موت کا سبب میں ہوں۔ میں نے مردوں اور عورتوں کو گرفتار کرکے قید خا نہ میں ڈا لا۔
5 اعلیٰ کاہن اور بزرگ یہودی سربراہ ثابت کر سکتے ہیں کہ یہ سچ ہے۔ ایک مرتبہ ان سربراہوں نے مجھے خطوط دیئے۔ دمشق میں یہودی بھائیوں کے لئے تھے۔ اس طرح میں وہاں یسوع کے شاگردوں کو گرفتار کر نے کے لئے جا رہا تھا تا کہ سزا دینے کے لئے انہیں یروشلم لے آؤں۔
6 “میرے دمشق کے سفر کے دوران کچھ واقعہ رونما ہوا۔ دو پہر کے قریب جب میں دمشق کے نز دیک تھا کہ اچا نک آسمان سے ایک چمکتا نور میرے چاروں طرف چھا گیا۔
7 میں زمین پر گر گیا ایک آواز آئی جو کہہ رہی تھی “ساؤل، ساؤل تو مجھے کیوں ستا تا ہے۔
8 میں نے جواب دیا کہ تم کون ہو اے خدا وند ؟ آواز نے جواب دیا، “میں ناصری یسوع ہو ں میں وہی ہوں جسے تم نے ستا یا تھا۔
9 جو آدمی میرے ساتھ تھے انہوں نے آواز کو نہ سمجھا لیکن انہوں نے نور کو دیکھا۔
10 میں نے کہا اے خدا وند میں کیا کروں ؟ خدا وند نے جواب دیا، “اٹھو اور دمشق جاؤ وہاں تجھے تمام چیزوں کے متعلق کہا جائیگا جو میں نے تیرے کر نے کے لئے مقرر کیا ہے۔”
11 میں دیکھ نہیں سکا کیوں کہ اس نور کی تجلی نے مجھے اندھا بنا دیا اس لئے جو آدمی میرے ساتھ تھے میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے دمشق لے گئے۔
12 “دمشق میں ہننیا ہ نامی ایک شخص میرے پاس آیا جو پر ہیز گار آدمی تھا۔ اور موسیٰ کی شریعت کا اطا عت گزار تھا وہاں تمام یہودی اس کی عمت کر تے تھے۔
13 اس نے میرے قریب آکر کہا، “بھا ئی ساؤل دوبارہ دیکھو اور اسی لمحہ اچانک میں اسکو دیکھ سکا۔
14 اس نے کہا میرے باپ دادا کے خدا نے تمہیں بہت پہلے منتخب کر لیا ہے تا کہ تم اس کے منصوبہ کو جان لو اور اس راستباز کو دیکھ لو اور اس کے الفاظ کو سن لو۔
15 تم اس کے گواہ ہو گے۔ سب لوگوں پر اور جو کچھ تم نے دیکھا اور سنا۔
16 اب زیادہ انتظار مت کرو اٹھو اور بپتسمہ لو۔ اور اپنے گناہوں کو اسکے نام کا بھروسہ کر کے نجات کے لئے دھو ڈا لو۔
17 اس کے بعد میں واپس یروشلم آیا اور جب میں ہیکل میں دعا کر رہا تھا تو میں نے رویا دیکھا۔
18 میں نے یسوع کو دیکھا اس نے مجھ سے کہا جلدی سے یروشلم کو چھو ڑد و یہاں لوگ میرے متعلق تمہاری نبوت قبول نہیں کریں گے۔
19 میں نے کہا اے خدا وند ! لوگوں کو یہ معلوم ہے کہ میں وہی آدمی ہوں جس نے تمہارے ایمان والوں کو مارا پیٹا اور جیل میں ڈا لا اور یہودی عبادت خانوں میں گھوم گھوم کر انہیں تلاش کرتا اور ان لوگوں کو جو تم پر ایمان لا ئے گرفتار کر تا رہا۔
20 اور جب تمہارے گواہ اسٹیفن کا خون ہوا تھا میں وہاں موجود تھا اور اسکو مارڈالنے کے لئے میں نے منظوری دی تھی۔ اور انکے کپڑوں کی حفاظت بھی کی تھی جنہوں نے اسکو مارا تھا۔
21 لیکن یسوع نے مجھ کو کہا، “جاؤ اب میں تمہیں غیر یہودی قوموں کے پاس بھیجونگا جو بہت دور ہیں۔”
22 جب پو لس نے غیر یہودی قوموں کے پاس بھیجے جانے کی بات کہی تو لوگوں نے اپنی خاموشی کو توڑا اور چلا ئے “اسکو مار ڈالو اور اسکو زمین سے فنا کر دو ایسے آدمی کازندہ رہنا منا سب نہیں۔”
23 وہ چلا کر اپنے کپڑے پھینکتے ہو ئے دھول ہوا میں اڑا نے لگے۔
24 فوجی افسر نے سپا ہیوں سے کہا کہ پو لس کو قلعہ میں لے جاؤ اس نے سپاہیوں سے کہا کہ پو لس کو مارو تا کہ معلوم ہو کہ لوگ کس سبب سے اس کی مخالفت میں چلا رہے تھے۔
25 اس لئے سپا ہیوں نے پو لس کو باندھ دیا اور اسے مارنے کے لئے تیار تھے۔ لیکن پو لس نے ایک فوجی افسر سے کہا، “کیا تمہارے نزدیک یہ جا ئز ہے کہ ایک رومی شہری کو مارو جب کہ اسکا جرم ابھی تک ثابت نہیں ہوا ہے۔”
26 افسر نے جب یہ سنا تو سردار کے پاس گیا اور سب کچھ کہا پھر افسر نے اس سے کہا، “تم جانتے ہو کہ تم کیا کر رہے ہو ؟” یہ شخص پولس روم کا شہری ہے۔
27 اعلیٰ سربراہ نے پو لس کے قریب آکر پو چھا مجھ سے کہو کیا تم واقعی روم کے شہری ہو ؟” پولس نے کہا، “ہاں۔”
28 اعلیٰ سربراہ نے کہا، “میں نے روم کا شہری بننے کے لئے بڑی رقم دی ہے لیکن پو لس نے کہا میں پیدائشی روم کا شہری ہوں۔”
29 جو لوگ پو لس سے تفتیش کر نے کی تیاری کرر ہے تھے وہاں سے فوراً چلے گئے۔ اعلیٰ سربراہ ڈر گیا کیوں کہ وہ پو لس کو باندھ چکا تھا اور پولس روم کا شہری تھا۔
30 دوسرے دن سردار کا ہن نے طے کیا کہ وہ اس بات کا پتہ لگائے کہ یہودی کیوں پو لس کے خلاف ہو گئے ہیں چنانچہ اس نے کاہنوں کے رہنما اور عدالت کے صدر کو جمع ہو نے کا حکم دیا اور پو لس کی زنجیریں کھولدیں اور اس کو مجلس کے سامنے کھڑا کر دیا۔
23:1 پولس نے یہودی عدالت والوں کو غور سے دیکھ کر کہا، “اے بھائیو ! میری زندگی آج نیک دلی سے خدا کی راہ میں گزری ہے اور جو بھی میں نے ٹھیک سمجھا وہی کیا۔”
2 اعلیٰ کاہن حننیاہ بھی وہاں تھا اس نے ان آدمیوں کو جو پولس کے قریب تھے کہا کہ پو لس کے منھ پر طمانچے مارو۔
3 پو لس نے حننیاہ سے کہا، “تو ایک ایسی گندی دیوار ہے جسے اوپر سے سفیدی کی گئی ہے خدا تجھے بھی ما ریگا تو شریعت کے مطا بق فیصلہ کر نے کے لئے ہے لیکن تو مجھے مارنے کے لئے حکم دے رہا ہے جو موسیٰ کی شریعت کے خلاف ہے۔”
4 جو لوگ پو لس کے قریب کھڑے تھے انہوں نے کہا، “تم اس قسم کی باتیں اعلیٰ کا ہن سے نہیں کہہ سکتے تم انکی بے عزتی کر رہے ہو۔”
5 پو لس نے کہا، “بھا ئیو مجھے نہیں معلوم تھا کہ یہ اعلیٰ کا ہن ہے صحیفوں میں لکھا ہے کہ تم اپنے اعلیٰ کا ہن کو برا نہ کہو۔“
6 اس مجلس میں کچھ صدوقی اور کچھ فریسی بھی تھے اس لئے پو لس کو ایک ترکیب سوجھی اس نے کہا، بھا ئیو! میں فریسی ہوں اور میرے باپ دادا بھی فریسی تھے۔ مجھ پرمقدمہ اس لئے ہو رہا ہے کیوں کہ مجھے یقین ہے کہ لوگ مر نے کے بعد اٹھا ئے جائیں گے۔”
7 جب پو لس نے یہ کہا تو فریسیوں اور صدوقیوں میں تکرار بحث شروع ہو ئی اور وہ دو گروہ میں بٹ گئے۔
8 صدوقیوں کا عقیدہ ہے کہ لوگ مرنے کے بعد دوبارہ جی نہیں اٹھیں گے اوروہ فرشتہ میں اور نہ کو ئی روح میں عقیدہ رکھتے ہیں مگر فریسی کا دونوں پر عقیدہ ہے۔
9 تمام یہودی زور شور سے چلا نا شروع کیا اور فریسیوں میں سے بعض شریعت کے معلمین اٹھے اور بحث کی اور کہا، “ہم اس آدمی میں کو ئی برا عمل نہیں پا تے ہو سکتا ہے دمشق کے راستے میں کسی فرشتہ یا روح نے اس سے کلام کیا ہو۔”
10 بحث و تکرار لڑائی میں تبدیل ہو گئی اور پلٹن کے سردار نے خوف محسوس کیا کہ کہیں یہودی پو لس کے ٹکڑے ٹکڑے نہ کر ڈا لیں اس لئے سپاہیوں کو حکم دیا کہ پو لس کو ان میں سے نکال کر قلعہ میں لے آؤ۔
11 دوسری شب خداوند یسوع پو لس کے پاس آ کھڑے ہو ئے اور کہے، “ہمت رکھ جس طرح تو نے یروشلم میں میری گواہی دی اسی طرح تجھے روم میں بھی میری گوا ہی دینی ہو گی۔”
12 دوسری صبح کچھ یہودیوں نے پو لس کو مار ڈا لنے کی سازش بنائی۔ انہوں نے وعدہ کیا کہ جب تک وہ پو لس کو قتل نہیں کریں گے وہ کچھ بھی نہیں کھا ئیں گے اور نہ پئیں گے۔
13 جنہوں نے یہ منصوبہ بنایا تعداد میں چالیس سے زیادہ تھے۔
14 انہوں نے یہودی کا ہنوں کے رہنما اور بزرگ قائدین کے پاس جا کر کہا، “وہ قسم کھا ئے ہیں کہ جب تک ہم پو لس کو نہ قتل کریں گے ہم کو ئی چیز اپنے منھ میں نہ ڈا لیں گے نہ کھا ئیں گے نہ ہی پیئیں گے۔
15 اور اب تم پلٹن کے سردار کو اپنی طرف سے اور صدر عدالت کی جانب سے پیغام بھیجو تم انہیں لکھو کہ وہ پولس کو تمہارے سامنے پیش کرے جب وہ آرہا ہو تو پولس کے مقدمہ میں مزید تفتیش کرے اسی اثناء میں ہم تیا رہیں کہ اسے راہ میں ختم کر دیں۔”
16 لیکن پولس کے بھتیجے کو یہ منصوبہ معلوم ہو گیا وہ قلعہ میں گیا اور پو لس کو اس کے متعلق اطلاع دی اس لئے پو لس نے ایک فوجی افسر کو بلایا اور کہا۔
17 “اس نوجوان کو سردار کے پاس لے جاؤ یہ اس کے لئے یہ ایک پیغام لا یا ہے۔”
18 اور فوجی افسر نے پولس کے بھتیجے کو پلٹن کے سردار کے پاس لے گیا اور کہا، “قیدی پو لس نے مجھ سے کہا کہ اس نوجوان کو آپ کے پاس لے جاؤں کیوں کہ یہ آپ کے لئے کوئی پیغام لا یا ہے۔”
19 پلٹن کے سردار نے اس نوجوان کو تنہائی میں لا کر کہا، “کہہ دے کہ تو مجھ سے کیا کہنا چاہتا ہے؟۔”
20 نو جوان نے کہا، “یہودیوں نے اتفاق کیا ہے کہ آپ اسے کہیں کہ پو لس کو کل صدر عدالت میں لے آئیں تا کہ وہ اس سے پولس کے مقدمہ میں مزید تحقیق کریں۔
21 لیکن آپ ان کا یقین نہ کریں وہ چالیس سے زیادہ یہودی ہیں جو پو لس کو مار ڈالنا چاہتے ہیں ان لوگوں نے پو لس کو مار نے کے لئے قسم کھا ئی ہے کہ جب تک اسے نہ ماریں گے وہ کو ئی چیز نہ کھا ئیں گے نہ پئیں گے۔ وہ اب تیار ہیں صرف آپ کی مرضی کے انتظار میں ہیں۔”
22 سردار نے نو جوان کو یہ کہتے ہو ئے بھیج دیا، “کسی کو بھی یہ معلوم نہ ہو نے دینا کہ تم نے مجھ سے کچھ کہا ہے۔”
23 پلٹن کے سردار صوبہ داروں کو بلا کر کہا، “دو سو سپا ہی اور ستر سوار اور دو سو نیزہ بر دار رات گئے قیصریہ جا نے کو تیار رکھنا۔
24 اور پولس کی سواری کے لئے بھی گھو ڑے رکھیں تا کہ اسے صوبہ دار فیلکس کے پاس سلامتی سے پہنچا دیں۔”
25 پلٹن کے سردار نے اس طرح ایک خط لکھا:
26 کلو دیس لوبیاسیہ خط
27 اس شخص کو بھی یہودیوں نے پکڑ کر مارڈالنا چاہا مگر جب مجھے معلوم ہوا کہ وہ روم کا شہری ہے تو میں نے موقع پر اپنے سپا ہیوں کی مدد سے اس کو بچا لیا۔
28 میں نے یہ معلوم کر نا چاہا کہ وہ کس لئے اس پر نالش کرنا چاہتے ہیں اس لئے میں اس کے ساتھ صدر عدالت میں گیا۔
29 تب یہ معلوم ہوا کہ وہ اپنی شریعت کے مسئلوں کی بات پر الزا مات لگا رہے ہیں لیکن اس پر ایسا کوئی الزام نہیں لگایا گیا کہ قتل یا قید موجب بنے۔
30 مجھے معلوم ہوا ہے کہ یہودی اس کو قتل کر نے کا منصوبہ بنا رہے ہیں اس لئے میں نے اس کو تمہا رے پاس روا نہ کیا اور نالش کر نے وا لوں سے بھی کہا ہے کہ اپنا دعویٰ وہ تمہا رے سامنے پیش کریں۔
31 سپا ہیوں نے ویسا ہی کیا جیسا انہیں کہا گیا۔ سپا ہیوں نے پولس کو لیا اور اس رات اسے شہرانیپترس پہنچا دیا۔
32 دوسرے دن سپا ہیوں نے پولس کو گھو ڑے کی پیٹھ پر قیصریہ لے گئے لیکن دیگر سپا ہی اور نیزہ بردار واپس قلعہ یروشلم کو آئے۔
33 گھوڑسوار قیصریہ پہنچ کر گورنرفلیکس کو خط دیا اور پولس کو بھی اس کے سامنے پیش کیا۔
34 حاکم نے خط پڑھا اور پو لس سے کہا، “تمہا را تعلق کس ملک سے ہے؟” اور حاکم کو معلوم ہوا کہ پو لس سلیکیہ کا ہے۔
35 تب حاکم نے کہا، “میں تمہا را مقدمہ اس وقت سنوں گا جب تک وہ نہ آجا ئیں جو تمہاری مخالفت میں ہیں یہاں آئیں۔” پھر حاکم نے حکم دیا کہ اسے اس محل میں رکھا جائے جس کو ہیرودیس نے بنا یا تھا۔
24:1 پانچ دن بعد حننیاہ جو اعلیٰ کا ہن تھے چند بزرگ یہودی قائدین اور تر طلس نامی وکیل کے ساتھ قیصریہ آئے۔ وہ قیصریہ آئے تا کہ پولس کے خلاف الزا مات عا ئد کر کے حاکم کے سامنے پیش کریں۔
2 جب اسے بلا یا گیا تو ترطلس نے الزا مات لگانا شروع کئے۔
3 ہم ان تمام کو قبول کرتے ہیں ہم اسی لئے آپ کے ہمیشہ اور ہر طرح شکر گذار ہیں۔
4 میں آپ کا زیادہ وقت لینا نہیں چاہتا لیکن میر ی ایک درخواست ہے برا ئے مہر بانی چند باتیں جو میں کہنا چاہتا ہوں سکون سے سن لیں۔
5 یہ شخص پو لس ایک مفسد اور دنیا بھر میں یہودیوں کے لئے فتنہ کا ذمہ دار ہے اور ناضری گروہ کا سردار ہے۔
6 چند یونانی نسخوں میں آیت ۸-۶ شامل ہے جو اس طرح سے ہے: “اور ہم نے چاہا کہ اپنی شریعت کے مطابق اس کی عدالت کریں-۷ لیکن یولیاس سردار آکر اسے ہم سے چھین لیا -۸ اور لوسیاس اس کے لوگوں کو حکم دیا کہ ان لوگوں تک جا؛یں اور تم سب پر الزام لگائیں
7
8 اور یہ ہیکل کو نجس کرنا چاہتا ہے لیکن ہم نے اس کو روکا۔ آپ اسی سے دریافت کر کے معلوم کر سکتے ہیں جو الزام ہم نے اس پر لگا ئے ہیں وہ سچ ہیں یا نہیں۔”
9 دوسرے یہودیوں نے بھی متفق ہو کر کہا، “یہ سب سچ ہے۔”
10 حاکم نے پولس کو کہنے کے لئے اشارہ کیا تو اس نے کہا! “اے حاکم فلیکس! میں جانتا ہوں کہ آپ بہت بر سوں سے اس قوم کے منصف ہیں اس لئے میں بڑی خوشی کے ساتھ آپکے سانے اپنا عذر بیان کر تا ہوں۔
11 میں صرف بارہ دن قبل یروشلم میں عبادت کر نے گیا تھا۔ آپ خود دریافت کر سکتے ہیں۔
12 یہ یہودی جو مجھ پر الزام لگا رہے ہیں نہ انہوں نے مجھے ہیکل میں کسی سے بحث کر تے دیکھا اور نہ شہر میں یا کسی اور جگہ اور نہ ہی کسی یہودی عبادت خا نہ میں فساد کر تے دیکھا۔
13 اور یہ لوگ میرے خلاف جو الزام لگا رہے ہیں کبھی بھی ثابت نہیں کرسکتے۔
14 لیکن میں اقرار کر تا ہوں کہ میں اپنے آباؤ اجداد کے خدا کی عبادت بحیثیت شاگرد یسوع کے طریقے پر کر تا ہوں یہودی کہتے ہیں کہ یسوع کے طریقے غلط ہیں۔ لیکن جو کچھ موسیٰ کی شریعت میں ہے اس پر ایمان رکھتا ہوں اس کے علاوہ اور نبیوں کی کتابوں میں جو لکھا ہے ان سب پر میرا ایمان ہے۔
15 میں خدا سے وہی امید رکھتا ہوں جیسا کہ یہودی رکھتے ہیں کہ اچھے اور برے سبھی لوگ مر نے کے بعد اٹھا ئے جائیں گے۔
16 اسی لئے میری ہمیشہ یہی کو شش ہے کہ جن چیزوں کو میں صحیح سمجھتا ہوں وہ خدا وند اور اسکے آدمیوں کی نظر میں صحیح ہے۔
17 “میں یروشلم میں کئی سالوں سے نہیں تھا یروشلم واپس اس لئے آیا تا کہ اپنے لوگوں کے لئے کچھ رقم لاؤں اور کچھ نذریں چڑھا ؤں۔
18 اور جب میں ایسا کر رہا تھا تو یہودیوں نے مجھے ہیکل میں دیکھا اور میں صفائی کی تقریب ختم کرچکا تھا میں نے کو ئی مجمع اپنے اطراف اکٹھا نہیں کیا اور کو ئی گڑ بڑ نہیں کی۔
19 لیکن ایشیاء کے کچھ یہودی وہاں تھے وہ یہاں آپکے سامنے ہو نگے اگر میں نے واقعی کو ئی غلطی کی ہے تو ایشیاء کے وہ یہودی مجھ پر الزام لگا سکتے ہیں۔
20 یا ان یہودیوں سے دریافت کیجئے کیا انہوں نے مجھ میں کو ئی خرابی دیکھی جب میں یروشلم میں یہودی عدالت میں کھڑا تھا۔
21 میں نے صرف ایک بات کہی تھی کہ میرا عقیدہ ہے کہ لوگوں کو موت کے بعد جلا یا جائے اور اس لئے مجھ پر آج مقدمہ چلا یا جا رہا ہے۔”
22 فلیکس جو صحیح طور پر یسوع کے طریقے سے واقف تھا اس نے مقد مہ یہ کہہ کر ملتوی کر دیا، “جب فوجی سردار لوسیاس آئیگا تب میں تمہارے مقدمہ کی تفتیش کرونگا۔
23 اور حا کم نے فوجی افسر کو حکم دیا کہ پولس کو قید میں آرام سے رکھے اور اسکے کسی دوست کو اس سے ملنے اور خدمت کر نے سے منع نہ کر نا۔
24 فلیکس چند روز بعد اپنی بیوی دروسلہ کے ساتھ آیا وہ یہودی تھی۔ فلیکس نے پو لس کو پیش کر نے کے لئے کہا اور پو لس سے مسیح یسوع کے ا یمان کے متعلق اسکے دین کے بابت سنی۔
25 جب پو لس راست بازی اور پر ہیز گاری کے متعلق بات کر رہا تھا وہ دہشت زدہ ہو گیا اور پو لس سے کہا، “اب تو چلا جا اور جب مجھے وقت ملیگا تجھے بلا ؤنگا۔”
26 در حقیقت وہ پو لس سے بار بار گفتگو کر رہا تھا وہ امید کر رہا تھا کہ پو لس کی طرف سے اسے رشوت کے طور پر کچھ روپئے ملے۔
27 لیکن دو سال کے بعد پر کیس اور فیستس حاکم بنا۔ تب فلیکس اب حاکم نہ رہا۔ لیکن فلیکس پو لس کو جیل میں چھو ڑدیا۔ کیوں کہ فلیکس چاہتا تھا کہ یہودیوں کی خوشنودی کے لئے کچھ نہ کچھ کرے۔
25:1 فیستس صوبہ دار بنا اور تین دن بعد وہ قیصر یہ سے یروشلم آیا۔
2 سردار کاہنوں اور یہودی قائدین نے پو لس کے خلاف الزا مات لگا کر انہیں فیستس کے سامنے پیش کیا۔
3 انہوں نے فیستس سے کہا کہ ان کے لئے کچھ کرے اور پو لس کو یروشلم بھیجے اور انہوں نے منصوبہ بنا یا کہ پو لس کو راستے میں مار ڈا لیں۔
4 لیکن فیستس نے جواب دیا، “نہیں پو لس کو قیصر یہ میں ہی رکھا جا ئیگا۔ میں خود جلد ہی قیصریہ جاؤنگا۔
5 تم میں سے چند قائدین کو میرے ساتھ چلنا ہو گا اگر اس نے واقعی کچھ غلطی کی ہے تو اسکے خلاف قیصریہ میں الزام رکھ سکتے ہیں۔”
6 فیستس یروشلم میں مزید آٹھ یا دس دن ٹھہرا رہا۔ تب وہ قیصریہ کے لئے روا نہ ہوا اور دوسرے دن اس نے سپاہیوں سے کہا کہ پو لس کو اس کے سامنے پیش کرے۔ تب اس نے اپنی جگہ لی وہ فیصلہ کی نششت پر تھا۔
7 جب پو لس عدالت میں داخل ہوا تو وہ یہودی جو یروشلم سے آئے تھے اس کے اطراف آکر کھڑے ہو گئے اور اس پر بہت سارے سخت الزا مات لگا نے لگے مگر ان کو ثابت نہ کر سکے۔
8 پو لس نے اپنی صفائی میں کہا، “میں نے کو ئی جرم یہودی شریعت کے یا ہیکل کے خلاف یا قیصر یہ کے خلاف نہیں کیا ہے۔”
9 لیکن فیستس نے یہودیوں کو خوش کر نے کی غرض سے پو لس سے کہا، “کیا تم یروشلم جانا چاہتے ہو۔ تمہارے مقدمہ کا فیصلہ وہاں میرے سامنے ہو؟”
10 پو لس نے کہا، “میں قیصر یہ کی عدالت میں کھڑا ہوں اور صرف یہیں میرے مقدمہ کا فیصلہ ہو نا چاہئے۔ میں نے یہودیوں کے ساتھ کو ئی برائی نہیں کی اور اس سچا ئی کو تو بہتر جانتا ہے۔
11 اگر میں نے کو ئی جرم کیا ہے اور شریعت کہتی ہے کہ اسکی سزا موت ہے تو میں موت کی سزا قبول کر نے کے لئے تیار ہوں۔ لیکن اگر انکے الزامات ثابت نہ ہو سکے تب کو ئی بھی مجھے ان یہودیوں کے حوالے نہیں کر سکتا۔ میں قیصر سے اپیل کر تا ہوں کہ وہی میرا مقدمہ کا فیصلہ کرے۔”
12 فیستس نے اس بارے میں اپنے مشیروں سے گفتگوکی تب اس نے کہا چونکہ تم نے “قیصر سے اپیل کی ہے تو قیصر ہی کے پاس جائیگا۔”
13 اور کچھ دن بعد بادشاہ اگرپا اور بر نیکے قیصریہ آئے اور فیستس سے ملاقات کی۔
14 وہ وہاں بہت دن ٹھہرے رہے فیستس نے پو لس کے مقدمہ کے تعلق سے بادشاہ سے کہا “فیستس نے کہا ایک آدمی کو قید میں چھو ڑا ہے۔
15 جب میں یروشلم گیا تو سردار کاہنوں اور بزرگ یہودی قائدین نے اس شخص کے خلاف الزامات لگا ئے اور مجھ سے اسکی موت کے حکم کی درخواست کی۔
16 لیکن میں نے انکو جواب دیا، “جب کسی آدمی پر کسی خطا کا الزام لگا یا جائے تو رومی قانون اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ ایسے آدمی کو دوسروں کے حوالے کرے۔ سب سے پہلے تو جو آدمی ملزم ہے اس کو چاہئے کہ الزامات کا سامنا لوگوں سے کرے اور اس آدمی کو اپنی دفاع میں الزامات کے خلاف عذر خواہی کا موقع ملنا چاہئے۔
17 اس لئے جب یہ یہودی قیصریہ کی عدالت میں مقدمہ پیش کر نے کے لئے آئے تو میں نے وقت ضائع کئے بغیر فیصلہ کی نششت پر بیٹھ کر اس آدمی کو لا نے کا حکم دیا۔
18 جب یہودی بطور مدعی کھڑے ہو گئے تو جن برائیوں کا مجھے گمان تھا ان میں سے انہوں نے کسی کا الزام اس پر نہ لگا یا۔
19 بلکہ وہ ان موضوعات پر جو انکے دین اور یسوع نامی شخص کے بارے میں بحث کر رہے تھے۔ جو مر چکا ہے۔ لیکن پو لس نے کہا وہ زندہ ہے۔
20 چونکہ میں ان موضوعات کے بارے میں کچھ زیادہ نہیں جانتا اسی لئے میں نے اس بحث میں دخل اندازی کو غیر موزوں محسوس کیا۔ چونکہ میں نے اس کو پو چھا، “کیا تم یروشلم جانا چاہتے ہو تا کہ یہ مقدمہ وہاں چلا یا جاسکے؟
21 پو لس نے کہا اس کو قیصریہ میں رکھنا چاہئے اور وہ شہنشاہ قیصر سے فیصلہ چاہتا ہے۔ اس لئے میں نے اس کے متعلق احکام دیئے جب اسے قیصر کے پاس نہ بھیجا جائے اس وقت تک اسے قیصر یہ کے جیل میں رہنا ہوگا۔”
22 اگرپا نے فیستس سے کہا، “میں بھی اس آدمی کو سننا چاہتا ہوں “فیستس نے کہا، “تم اسے کل سن سکو گے۔
23 دوسرے دن اگرپا اور برنیکے بڑی شان و شوکت اور فخر کے ساتھ کمرئہ عدالت میں داخل ہو ئے اور ساتھ ہی پلٹن کے سردار اور قیصریہ کے ہم لوگ بھی کمرئہ عدالت میں داحل ہو ئے فیستس نے سپا ہیوں کو حکم دیا کہ پو لس کو اندر لے آئے۔
24 فیستس نے کہا، “بادشاہ اگرپا اور تمام لوگ یہاں جمع ہیں۔ اس آدمی کو دیکھو۔ تمام یہودی یروشلم کے اور یہاں کے اس کے خلاف مجھ سے شکایت کی۔ جب وہ اس کے بارے میں شکایت کی تو چلا ئے کہ اس کا زیادہ دیر زندہ رہنا مناسب نہیں۔
25 جب میں نے جانچ کی کچھ بھی غلطی محسوس نہ کرسکا۔ میں نے ایسا کوئی سبب نہیں دیکھا یہ صاف تھا کہ اس نے کچھ نہیں کیا جس کی وجہ سے وہ قتل کی سزا کا مستحق ہو لیکن وہ چاہتا ہے کہ قیصر کو اسکا فیصلہ کر نا ہو گا۔ یہی وجہ ہے کہ میں نے طے کیا ہے اس کو روم بھیجا جائے۔
26 میں صحیح معنوں میں نہیں جانتا کہ قیصر کو کیا لکھوں، کہ اس شخص نے غلط کام کیا ہے۔ اسی لئے میں نے اسکو آپ سب کے سانے لایا ہوں خاص طور سے بادشاہ اگرّپا کے سامنے مجھے امید ہے اس چھان بین کے بعد قیصر کو لکھنے کے لئے کچھ نہ کچھ میرے پاس ہو گا۔
27 کیوں کہ قیدی کے بھیجتے وقت ان الزاموں کو جو اس پر لگائے گئے ہوں ظا ہر نہ کر نا مجھے خلاف عقل معلوم ہو تا ہے۔”
26:1 اگرپا نے پو لس سے کہا، “تجھے اپنے دفاع میں بولنے کی اجازت ہے۔ تب پولس نے اپنا ہاتھ اٹھایا اور کہنا شروع کیا۔
2 “بادشاہ اگرّپا! جن الزا مات پر یہودیوں نے مجھ پر نالش کی ہے میں ان الزا مات کا جواب دوں گا اور میں اسے اپنی خوش نصیبی سمجھوں گا کہ میں خود اپنا دفاع آج آپ کے سامنے پیش کروں گا۔
3 میں بہت خوش ہوں کیوں کہ آپ یہودیوں کی رسموں اور تمام مسئلوں سے اچھی طرح واقف ہیں۔ لہذٰا براہ کرم صبرو تحمل سے میری بت سن لیں۔
4 “تمام یہودی میری زندگی کے حالات سے واقف ہیں اور وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ میں اپنے ملک میں کس طرح ابتدا ء سے رہا ہوں اور میں یروشلم میں بھی کس طرح رہا ہوں۔
5 یہ یہودی مجھے شروع سے جانتے ہیں اگر وہ چا ہیں تو میرے گواہ ہوسکتے ہیں۔ کہ میں ا یک اچھا فریسی ہوں ہمیشہ یہودیوں کی شریعت کی اطاعت کرتے ہیں۔ اور دوسرے یہودیوں کی نسبت فریسی اپنے دین کے متعلق نہا یت سخت ہیں۔
6 وہ اس وعدہ کی امید کے سبب سے مجھ پر مقدمہ دائر کر چکے ہیں جو خدا نے ہما رے باپ داداسے کیا تھا۔
7 اس وعدہ کے پورا ہو نے کی امید پر ہم لوگوں کے بارہ قبیلے دن رات خدا کی عبادت میں جٹے رہتے ہتں۔اے بادشاہ یہ یہودی صرف اس لئے مجھ پر الزام لگاتے ہیں کہ میں اس امید پر ہوں۔
8 آخر یہ لوگ اس کو کیوں نا قابل یقین پا تے ہیں کہ خدا مردوں کو اٹھا تا ہے۔
9 “بحیثیت فریسی میں نے بھی سوچا تھا کہ مجھے کئی باتیں یسوع ناصری کے نام کی مخالفت میں کر نی چاہئے۔
10 اور جب میں یروشلم میں تھا اس نے ایسا ہی کیا میں نے کا ہنوں کے رہنما سے اجازت پا کر یسوع پر ایمان رکھنے والوں کو قید میں ڈالا اور جب انہیں قصور وار مان کر قتل کیا جاتا تو میر ی طرفداری بھی قصور کے موافق ہی ہو تی۔
11 میں ہر یہودی عبادت خانے میں گیا اور انہیں اکثر سزا دی اور انہیں یسوع کے خلاف کہنے پر مجبور کیا میں بہت تشدد پسند ہو گیا تھا۔ میں دوسرے شہروں میں بھی گیا اور اہل ایمان کا تعاقب کرتا اور انہیں ستاتا۔
12 “ایک بار سردار کاہنوں نے مجھے اختیارات کے ساتھ شہر دمشق جانے کی اجازت دی۔
13 جب میں دمشق جا رہاتھا تو اے بادشاہ!” میں نے دوپہر کے وقت راستے میں یہ دیکھا کہ آسمان میں ایک نور تھا جو سورج سے زیادہ چمک دار تھا۔ یہ نور میرے اور میرے ساتھیوں کے اطراف چھا گیا۔
14 ہم سب زمین پر گر گئے تو میں نے ایک آواز یہودی زبان میں سنی “ساؤل ساؤل تو مجھے کیوں ستاتاہے۔اس طرح میرے خلاف لڑ تے ہو ئے تو اپنے آپ کو نقصان پہنچا رہا ہے۔”
15 میں نے پوچھا !”خداوند آپ کون ہیں؟” اس نے کہا، “میں یسوع ہوں میں وہی ہوں جسے تم اذیت دے رہے ہو۔
16 اٹھ اور اپنے پیروں پر کھڑا ہوجا میں نے تجھے اپنا خادم چناہے تا کہ تو نے جو کچھ آج میرے بارے میں دیکھا ہے اور جو کچھ میں مستقبل میں بتاؤں گا اس کے لئے تو میرا گواہ رہے گا اسی لئے آج میں تجھ پر ظاہر ہوا ہوں۔
17 میں تجھے تیرے اپنے لوگوں سے بچا ؤں گا کہ وہ تجھے ضرر نہ پہنچا ئیں۔ اور میں تجھے غیر قومو ں سے بھی بچا تا رہوں گا۔ میں تجھے ان کے پاس بھیج رہا ہوں۔
18 تم ان لوگوں کی آنکھیں کھولو اور انہیں اندھیرے سے باہر نکا لو اور انہیں روشنی میں لے آؤ تب وہ شیطان کی ملکت سے باہر آکر خدا کی طرف رجوع ہو نگے۔ تب ان کے گناہ معاف کئے جائیں گے اور ا ن لوگوں کو ان میں شامل کیا جائے گا جو مجھ پر ایمان لا کر مقدس بن گئے ہیں۔”
19 پولس نے اپنی تقریر کو جاری رکھا، “اور کہا بادشاہ اگرپاّ! جب میں نے آسمان میں رویا دیکھا تو اس کا اطا عت گذار ہوا۔
20 اور میں نے لوگوں سے باتیں کر نا شروع کیں تا کہ وہ اپنے گناہوں پر نادم ہوں اور اپنے دلوں اور زندگیوں کو بدل کر خدا کی طرف رجوع ہوجا ئیں میں نے یہ باتیں سب سے پہلے دمشق کے لوگوں سے کہیں اور پھر یروشلم گیا اور یہوداہ کے ہر خطے میں جا کر لوگوں سے یہی کہا۔ میں نے غیر یہودیوں سے بھی یہی باتیں کہیں۔
21 یہی وجہ ہے کہ یہودیوں نے مجھے ہیکل میں پکڑا اور مجھے مارڈالنے کی کوشش کی۔
22 لیکن خدا نے میری مدد کی اور آج تک بھی مدد کر رہا ہے اور خدا کی مدد سے ہی آج میں یہاں کھڑا ہوں اور جو کچھ میں دیکھ رہا ہوں لوگوں سے کہہ رہا ہوں اور کو ئی نئی بات ان سے نہیں کہتا میں وہی کہتا ہوں جو نبیوں نے اور موسیٰ نے ہو نے والے واقعات کے متعلق کہا تھا۔
23 انہوں نے کہا تھا کہ مسیح مریگا وہ پہلا شخص ہو گا جو مر کر بھی زندہ ہو گا موسیٰ اور نبیوں نے کہا کہ یہودیوں اور غیر یہودیوں دونوں میں مسیح نور کی آمد کا اعلان کریگا۔”
24 جب پو لس اپنی دفاع میں یہ سب کچھ کہہ رہا تھا تو فیستس نے بلند آواز سے کہا، “پو لس ! تو دیوانہ ہے زیادہ علم نے تجھے دیوانہ کر دیا ہے۔”
25 پو لس نے کہا، “عزت مآب فیتس میں دیوانہ نہیں ہوں جو کچھ میں کہہ رہا ہوں وہ سچّ ہے میری باتیں دیوانہ کی تقریر نہیں ہیں میں منطقی ہوں۔”
26 بادشاہ اگرپّا ان تمام باتوں کے متعلق جانتا ہے اور ان سے میں بے باک کہتا ہوں اور مجھے یقین ہے وہ یہ سب کچھ اچھی طرح جانتے ہیں۔ کیوں کہ یہ تمام چیزیں کہیں خفیہ نہیں ہو ئیں بلکہ سب لوگ ان کو دیکھ چکے ہیں۔
27 اے اگرپّا بادشاہ کیا تم نبیوں کی لکھی ہو ئی باتوں پریقین کر تے ہو میں جانتا ہوں کہ تمہیں یقین ہے۔”
28 بادشاہ اگرّپا نے پو لس سے کہا، “کیا تو سوچ رہا ہے کہ تو اس طرح نصیحت کر کے مجھے مسیحی بنا سکے گا ؟”
29 پو لس نے کہا، “اگر یہ آسان ہے یا اگر یہ مشکل ہے، یہ اہم بات نہیں ہے میں تو خدا سے دعا کر تا ہوں کہ نہ صرف تم بلکہ ہر ایک جو آج میری باتوں کو سنا انہیں نجات ملے اور میری طرح ہو جائیں، سوا ان زنجیروں کے۔”
30 تب بادشاہ اگرّپا اور حاکم اور برنیکے اور ان کے ہم نشیں اٹھ کھڑے ہو ئے۔
31 اور کمرہ سے باہر چلے گئے اور آپس میں ایک دوسرے سے کہنے لگے، “یہ آدمی ایسا تو کچھ نہیں کیا جس کی وجہ سے وہ موت یا قید کا مستحق ہو۔”
32 اگرّپا نے فیستس سے کہا، “ہم اسکو چھوڑ سکتے تھے لیکن اس نے قیصر سے ملنے کی درخواست کی ہے۔”
27:1 یہ طے کیا گیا ہم بذریعہ جہاز اطالیہ جائیں گے یولیس نامی فوجی افسر جو انچارج تھا پو لس کی اور دوسرے قیدیوں کی نگرانی کر تا رہا۔یولیس حکمران فوج میں خدمت انجام دے چکا تھا۔
2 ایک جہاز جو ادرتئیم سے آیا تھا اور ایشیاء کے مختلف ملکوں کے بندرگاہوں کو جا نے کے لئے تیار تھا۔ ہم اس جہاز میں سوار ہو گئے۔ ارسترخس بھی ہمارے ساتھ تھا تھسلنیکے اور مکدنیہ سے آیا تھا۔
3 دوسرے روز ہم شہر صیدا میں آئے۔ یولیس پو لس پر مہربان تھا اس نے پولس کو دوستوں کو دیکھنے کی آزادی دی تو دوستوں نے اسکی خاطر تواضع کی۔
4 ہم صیدا سے روانہ ہو ئے اور جزیرئہ کُپرس کے قریب پہونچے ہم کپرس کے جنوبی سمت سے بڑھے کیوں کہ ہوا مخالف تھی۔
5 ہم کلیکیہ اور پمفیلیہ سے ہو کر سمندر کے پار گئے اور لوکیہ کے شہر مورہ میں اترے۔
6 مورہ میں فوجی افسر نے ایک جہاز پا یا جو اسکندریہ سے اطالیہ جانے والا تھا اس نے ہمیں اس جہاز میں سوار کر دیا۔
7 ہم آہستہ آہستہ اس جہاز سے کئی دن تک سفر کرتے رہے کیوں کہ ہوا مخالف تھی۔ مشکل سے کندُس پہنچے۔ چونکہ مزید آگے نہ بڑھ سکے تھے۔ ہم جنوبی ساحل سے ہو تے ہو ئے سلمونی کے قریب جزیرئہ کریت پہنچے۔
8 اور بمشکل اس کے کنارے کنارے چلکر حسین بندر گاہ نامی ایک مقام میں پہنچے، جہاں سے لسائیہ شہر نزدیک تھا۔
9 لیکن ہم نے بہت سا وقت ضائع کیا اور اس وقت جہا ز سے چلنا خطرہ سے خالی نہ تھا۔ کیوں کہ یہودیوں کے روزہ کا دن گذر چکا تھا اس لئے پو لس نے انہیں انتباہ دیا۔
10 “اے لوگو ! مجھے معلوم ہو تا ہے کہ اس سفر میں ہمیں تکلیف اور نقصا ن ہے نہ صرف جہاز کا اور سامان کا بلکہ ہما ری زندگیوں کا بھی نقصان ہو گا۔”
11 مگر جہا ز کے کپتان اور مالک جہا ز نے پولس کی باتوں سے اتفاق نہیں کیا اور فوجی سردار نے بھی پولس کی باتوں کو بنسبت کپتان اور مالک جہا ز کی بات پر توجہ دی۔
12 اور چونکہ وہ بندرگاہ جا ڑوں کے موسم میں جہا ز کے ٹھہر نے کے لئے محفوظ جگہ نہ تھی۔ اسی لئے لوگوں کی اکثریت نے طئے کیا کہ جہا ز کو چھوڑ دیا جائے اور فلکیس میں پہنچ کر جا ڑا وہیں گذار دیں۔ فلکیس ایک شہر تھا جو جزیرہ کریتے پر واقع تھا۔ وہاں پر بندرگاہ تھی جس کا رخ جنوب مشرق اور شمال مشرق میں تھا۔
13 جب جنوبی ہوا چلنی شروع ہو ئی تو جہا ز کے لوگوں نے خیال کیا “جو ہم چا ہتے ہیں ویسا ہی ہوا اور یہ ہمیں مل گئی۔”جہا ز کا لنگر اٹھا یا اورجزیرہ کریتے کے کنارے کنارے چلنے لگے۔
14 لیکن تھو ڑی دیر میں طوفانی ہوا جو “یورکلون “کہلا تی ہے اس پار سے آئی۔
15 جب جہاز تیز ہوا کی زد میں آیا تو جہا ز ہچکو لے کھا نے لگا اور ہوا کے بر خلاف آگے بڑھ نہیں پا رہاتھا اور لا کھ کوشش کے باوجود اسے قابو نہیں کیا جا سکا۔ آخر کار لا چار ہو کر جہاز کو ہوا اور موجوں پر بہنے کے لئے چھوڑ دیا۔
16 ہم بہتے بہتے کودہ نامی ایک چھو ٹے جزیرہ کی طرف پہنچے اور بڑی جد وجہد کے بعد ڈونگی( بچا ؤ کشتی) کو قابو میں لا ئے۔
17 ڈونگی جہا ز پر لا نے کے بعد اسے جہا ز کے ساتھ رسیوں سے مضبوطی سے باندھا انہیں ڈرتھا کہ کہیں سورتس کی ریت میں جہا ز دھنس نہ جا ئے اور اس ڈر سے جہا ز کا سازو سامان اتار نا شروع کیا اور جہاز کو ہوا پر چھوڑ دیا۔
18 دوسرے دن طوفانی ہوا شدید تھی انہو ں نے کچھ چیزوں کو جہاز کے با ہر پھینکنا شروع کیا۔
19 تیسرے دن اپنے ہی ہا تھوں جہا ز کے آلا ت اور اسباب بھی پھینکنے لگے۔
20 کئی دنوں تک سورج تا رے دکھا ئی نہیں دیئے کیوں کہ شدید آندھی چل رہی تھی بچنے کی تمام امیدیں ختم ہو چکیں تھیں۔
21 لوگوں نے کئی روز سے کچھ نہیں کھایا تب پو لس ان کے سامنے ایک دن کھڑا ہو گیا اور کہا، “معزز حضرات میں نے تم سے کہا تھا کریتے سے مت نکلو تم نے میرا کہا نہ مانا۔ اگر مانتے تو یہ تکلیف اور نقصان نہ اٹھا تے۔
22 لیکن اب میں تم سے کہتا ہوں کہ خوش ہو جا ؤکیوں کہ تم میں سے کو ئی نہیں مریگا صرف جہا زکا نقصان ہوگا۔
23 گذشتہ رات کو خدا کے جانب سے ایک فرشتہ میرے پاس آیا وہ خدا جس کی میں عبادت کرتا ہوں میں اس کا ہوں۔
24 خدا کے فرشتہ نے کہا، “اے پولس ڈرومت تمہیں قیصر کے سامنے حاضر ہو نا چاہئے تمام لوگوں کو جو تیرے ساتھ جہاز میں سوار ہیں بچا لئے جائیں گے۔
25 تو اے لوگو ! خوش ہو جا ؤ میں خدا پر بھروسہ کرتا ہوں اور ہر چیز اسی طرح پوری ہوگی جیسا کہ اس کے فرشتہ نے مجھ سے کہا۔”
26 لیکن ہمیں جزیرہ پر حادثہ کا سامنا کرنا پڑیگا۔”
27 چودھویں رات جب ہما را جہازبحر ادریہ کے اطراف چل رہا تھا توملاحوں نے سمجھا کہ ہم کسی زمین سے قریب ہیں۔
28 انہو ں نے پانی میں رسہ پھینکا جس کے سرے پر وزن تھا اس سے انہوں نے معلوم کیا کہ پانی ۱۲۰ فیٹ گہرا ہے وہ تھو ڑا اور آگے بڑھے اور دوبارہ رسہ پھینکا تو معلوم ہوا کہ پانی ۹۰ فیٹ گہرا ہے۔
29 ملا حوں کو ڈرتھا کہ کہیں جہاز چٹانوں سے نہ ٹکرا جا ئے اس لئے جہاز کے پیچھے سے پانی میں چا ر لنگر ڈال دیئے اور صبح ہو نے کی دعا شروع کردی۔
30 کچھ ملاح جہاز کو چھوڑ کر بھاگ جانا چاہتے تھے انہوں نے بچا ؤکشتیوں کو نیچے کرنا شروع کیا تا کہ وہ جہاز کے سامنے سے لنگر ڈالنا شروع کر سکتے ہیں۔
31 لیکن پولس نے فوجی سردار اور سپاہیوں سے کہا، “اگر یہ لوگ جہاز میں نہ ٹھہریں تو تمہا ری زندگیاں نہیں بچا ئی جا سکتیں۔”
32 اسی لئے سپا ہیوں نے رسیوں کو کاٹ دیا اور بچاؤ کشتیاں پانی میں گر پڑیں۔
33 مختصر دن سے نکلنے سے پہلے پولس نے ہر ایک کو تھوڑا کچھ کھا لینے کے لئے کہا، “تم لوگ گذشتہ چودہ دن سے انتظار کرتے رہے ہو اور تم فاقہ کررہے ہو کچھ نہیں کھایا۔
34 میں تم سے تقاضہ کرتا ہوں کچھ تو کھا لو یہ تمہا رے زندہ رہنے کیلئے ضروری ہے اور تم میں سے کسی کا ایک بال بیکا بھی نہ ہوگا۔”
35 اتنا کہنے کے بعدپولس نے تھوڑی روٹی لی اور سب کے سامنے خدا کا شکر ادا کیا تب وہ روٹی توڑ کرکھانا شروع کیا۔
36 تب سب لوگوں کی ہمت بندھی اور وہ بھی کھا نا شروع کئے۔
37 کل ملا کر جہازپر۲۷۶ آدمی تھے۔
38 جب سیر ہو کر کھا چکے تب انہوں نے طئے کیا کہ جہا ز کے وزن کو کم کیا جائے اور غلہ کو پانی میں پھینکنا شروع کیا۔
39 جب صبح ہو ئی تو ملا حوں نے زمین کو دیکھا لیکن وہ پہچان نہ سکے لیکن ایک کھا ڑی جس کا کنارہ صاف تھانظر آیا اور ملاح اس ساحل پر ممکن ہوا توجہاز کو لنگر انداز کر نا چا ہا۔
40 انہوں نے لنگر کی رسیاں کا ٹ ڈالیں اور لنگر کو سمندر میں چھوڑ دیا۔اور ساتھ ہی پتوار کی رسیوں کو بھی کھو ل دیا اور جہاز کو ہواکے رخ پر چھوڑ دیا۔
41 لیکن جہاز ریت سے ٹکرا گیا اور جہاز کا اگلا حصہ پھنس گیا اور جہاز آگے نہ بڑھ سکا اور بڑی بڑی موجوں نے جہاز کے پچھلے حصہ کو متاثر کیا اور وہ ٹوٹ کر ٹکڑے ہو گیا۔
42 سپا ہیوں نے طئے کیا کہ قیدیوں کو ما ر ڈالیں تا کہ کوئی قیدی تیر کر بھا گ نہ جائے۔
43 لیکن فوجی سردار پولس کی زندگی بچا نا چاہتا تھا اس لئے اس نے سپا ہیوں کو ان کے منصوبہ پر عمل کر نے کی اجا زت نہیں دی۔ اور لوگوں سے کہا کہ جو تیر سکتے ہیں وہ کود کر کنارے پر پہونچ جائیں۔
44 دوسروں نے جہازکے ٹکڑے اور تختوں کا سہا را لے لیا اس طرح تمام آدمی کنا رے پر پہونچ گئے اور ان میں سے کو ئی بھی نہ مرا۔
28:1 جب سب حفاظت سے کنارے پر پہونچ گئے تب ہمیں معلوم ہوا کہ وہ جزیرہ ما لٹا کہلا تا ہے۔
2 وہاں کے رہنے والے ہم پر مہر بان تھے۔ چونکہ شدید سردی اور بارش ہو رہی تھی ہم لوگوں نے ہی لکڑیاں اور آ گ مہیا کئے اور ہم سب کا استقبال کیا۔
3 پو لس نے ایک ایک لکڑی کا گٹھا جمع کیا اور ان کو آ گ میں ڈا لا اس میں سے ایک زہریلا سانپ آ گ کی گرمی سے نکل آیا اور پو لس کے ہاتھ پر ڈس لیا۔
4 جزیرے کے لوگوں نے دیکھا کہ سانپ پولس کے ہاتھ پر لپٹا ہوا لٹک رہا ہے تو انہوں نے آپس میں کہا، “بے شک یہ آدمی قاتل ہے اگر یہ سمندر میں نہیں مرا لیکن انصاف اسکو زندہ نہ چھو ڑیگا۔”
5 لیکن پولس نے سانپ کو آ گ میں جھٹک دیا اور اسے کسی بھی طرح کا نقصان نہیں پہونچا یا۔
6 لو گ سمجھے کہ اس کا بدن سوج جائیگا وہ مردہ ہو کر گر پڑیگا وہ کا فی دیر تک وہ پو لس کو دیکھتے رہے لیکن اس کو کچھ بھی نہیں ہوا اور لوگوں نے پولس کے تعلق سے اپنی رائے بدل ڈا لی اور کہا، “یہ تو دیوتا ہے۔”
7 وہاں اطراف میں کچھ کھیت تھے جو جزیرہ کا مشہور پبلئیس نامی شخص کی ملکیت تھی اس نے اپنے مکان پر ہمارا استقبال کیا اور ہمارے ساتھ اچھا سلوک کیا۔ہم اسکے مکان میں تین دن تک رہے۔
8 پبلئیس کا باپ بہت بیمار تھا۔ اسکو بخار اور پیچسش تھی لیکن پو لس نے اسکے پاس جا کر اس کے لئے دعا کی۔ پولس نے اس پر اپنا ہاتھ رکھا اور وہ تندرست ہو گیا۔
9 اس واقعہ کے بعد جزیرہ کے دوسرے بیمار لوگ بھی پو لس کے پاس آئے پولس نے انہیں بھی تند رست کیا۔
10 جزیرہ کے لوگوں نے ہر طریقہ سے ان کی دیکھ بھا ل کی۔ ہم وہاں تین مہینے تک ٹھہرے جب ہم وہاں سے جانے کے لئے تیار ہو ئے تو وہاں کے لوگو ں نے ہماری ضرورت کی چیزیں مہیا کر دیں۔
11
12 ہم نے سُر کوسہ میں جہاز کا لنگر ڈا لا اور تین دن ٹھہرے۔
13 وہاں سے پھر ایگیم میں آئے دوسرے دن جنوب سے ہوا چلی تو ہم چلے۔ ایک دن بعد ہم پتیلی کو آئے۔
14 وہاں ہم چند ایمان والے بھائیوں سے ملے جنہوں نے ہم سے منت کی اور ہم وہاں سات دن رہے آخر کار روم پہونچے۔
15 روم میں ہمارے ایمان والے بھا ئی ہمارے آنے کی خبر سن کر ہم سے ملنے اپئیس کے چوک اور تین سرامی سے آئے۔ جب پو لس نے ان ایمان والوں کو دیکھا تو مطمئن ہو کر خدا کا شکر بجا لا یا۔
16 تب ہم روم آئے جہاں پو لس کو اکیلا گھر میں رکھا گیا تھا اور ایک سپا ہی اس کے لئے پہرہ دیتا تھا۔
17 تین دن بعد پو لس نے مقا می مشہور یہودی شخصیتوں کو بلایا جب وہ آئے تو پو لس نے کہا، “میرے یہودی بھا ئیو!میں نے اپنے لوگوں کے خلاف کچھ نہیں کیا اور نہ ہی اپنے باپ دادا کی رسموں کے خلاف کچھ کیا تب بھی مجھے یروشلم میں گرفتار کر کے رومیوں کے حوالے کیا گیا۔
18 رومیوں نے مجھ سے کئی سوالات کئے لیکن وہ کو ئی وجہ نہ پا سکے جس کی بنا پر وہ مجھے قتل کر تے اس لئے انہوں نے مجھے چھوڑ دینا چا ہا۔
19 لیکن وہاں کے یہودیوں نے اعتراض کیا اس لئے مجھے روم آنے کے لئے اجازت کی درخواست کر نی پڑی تا کہ میرا مقدمہ قیصر سماعت کرے۔ میں یہ نہیں کہہ رہا ہوں کہ میرے لوگوں کے خلاف میرا کسی قسم کا الزام دھر نے کا ارادہ ہے۔
20 اسی لئے میں تم لوگوں سے مل کر بات کر نا چا ہا کیوں کہ اسرائیل کی امید کے سبب سے میں اس زنجیر میں جکڑا ہوا ہوں۔”
21 یہودیوں نے پو لس کو جواب دیا، “ہمیں یہوداہ سے کو ئی خط تمہارے بارے میں موصول نہیں ہوا اور نہ ہی کو ئی یہودی بھا ئی جو یہوداہ سے یہاں آئے انہوں نے تمہارے بارے میں کو ئی خبر لا ئے اور نہ ہی کوئی بات تمہارے بارے میں کہی۔
22 لیکن تم سے سننا چاہتے ہیں کہ تمہارا کیا ایمان ہے۔ ویسے جہاں تک تم جس گروہ سے تعلق رکھتے ہو ہم جانتے ہیں کہ ہر جگہ لوگ اس کے خلاف کہتے ہیں۔”
23 پولس اور یہودیوں نے طے کیا کہ ایک مقررہ دن جمع ہوں اس دن کئی دوسرے لوگ پو لس کو دیکھنے آئے جہاں وہ ٹھہرا تھا وہیں دن بھرخدا کی بادشاہت کے بارے میں انہیں سمجھا تا رہا۔ پو لس نے انہیں یسوع پر ایمان لا نے کی ترغیب دیتا رہا اور ایسا کر نے میں اس نے موسیٰ کی شریعت اور دوسرے نبیوں کی صحیفوں کا حوالہ دیا۔
24 چند یہودی جو کچھ پو لس نے کہا اس پر ایمان لا ئے لیکن بعض نہیں لا ئے۔
25 اور وہ آپس میں بحث کر نے لگے اور جانے کے لئے اٹھ کھڑے ہو گئے لیکن پو لس نے انہیں ایک اور بات بتائی کہ “کس طرح روح القدس نے تمہارے باپ دادا کو یسعیاہ نبی کے ذریعہ کہا تھا کہ۔
26 ان لوگوں کے پاس جاؤ اور ان سے کہو
27 ان لوگوں کے دماغ اب بند ہو گئے ہیں
28 “تم کو معلوم ہو نا چاہئے کہ خدا نے نجات کا پیغام دوسری قوموں کے پاس بھیجا ہے وہ سن بھی لیں گے۔”
29 اعمال کے چندیو نانی نسخوں میں یہ آیت۲۹ شامل کی گئی ہے: “پولس کے کہنے کے بعد یہودی اٹھ گئے اور دوسرے سے بحث کر نے لگے۔”
30 پولس مکمل دو سال اپنے کرایہ کے مکان پر رہا اور جو بھی اس سے ملنے آتا سب کا خیر مقدم کر تا اور ان سے ملتا تھا۔
31 پو لس انہیں خدا کی بادشاہت کی تعلیم دیتا رہا اور خدا وند یسوع مسیح کے متعلق سکھا تا رہا وہ بہت دلیر تھا اور کو ئی بھی اس کو ایسا کہنے سے روک نہ سکا