Matthew

1:1 یسوع مسیح کی خاندانی تاریخ۔ وہ داؤد کے خاندان سے ہے اورداؤد،ابراہیم کے خاندان سےہے 2 ابراہیم اسحاق کا باپ تھا۔ 3 یہوداہ فارص اور زارح کا باپ تھا 4 رام عمّینداب کا باپ تھا۔ 5 سلمون بو عز کا باپ تھا۔ 6 یسّی داؤد بادشاہ کا باپ تھا 7 سلیمان رحُبعام کا باپ تھا 8 آساہ یہوسفط کا باپ تھا 9 عُزیاہ یوتام کا باپ تھا۔ 10 حزقیاہ منسی کا باپ تھا۔ 11 یوسیاہ یکونیاہ اور اسکے بھائی کا باپ تھا۔ 12 یہودیوں کو بابل لے جانے کے بعد سے خاندان کی تاریخ: 13 زربابل ابیہود کا باپ تھا۔ 14 عازور صدوق کا باپ تھا۔ 15 الیہود الیعرز کا باپ تھا۔ 16 یعقوب یوسف کا باپ تھا۔ 17 ابراہیم سے داؤد تک چودہ پشتیں ہوئیں داؤد سے لوگوں کو بابل میں گرفتار کئے جانے تک چودہ پشتیں ہوئیں۔بابل میں قید رہنے کے بعد سے مسیح کے پیدا ہونے تک چودہ پشتیں ہوئیں۔ 18 یسوع مسیح کی ماں مریم تھی۔ یسوع کی پیدائش اسطرح ہوئی۔ 19 مریم سے شادی کرنے والا یوسف ایک اچھا انسان تھا۔مریم کو لوگوں کے سامنے نادم و شرمندہ کرنا اس کو پسند نہ تھا۔جس کی وجہ سے وہ خفیہ طور پر سگائی کو منسوخ کرنا چاہتے تھے۔ 20 جب یوسف اس طرح سوچ ہی رہا تھا کہ خداوند کا فرشتہ یُوسُف کو خواب میں نظر آیا۔اور اس فرشتے نے کہا، ”اے داؤد کے بیٹے یوسف ، مریم کا اپنی بیوی ہونے کے قبول کرنے سے تو خوف زدہ نہ ہو۔کیوں کہ وہ روح القدس کے ذریعے حاملہ ہوئی 21 ہے۔وہ ایک بیٹے کوپیدا کریگی۔ 22 کیوں کہ نبی کی معرفت خداوند نے جو کچھ بتایا تھا وہ پورا ہونے کے لئے یہ سب کچھ ہوا۔ 23 وہ یوں ہوگا کہ “ایک پاک دامن کنواری حاملہ ہوکر ایک بچہ کو جنم دیگی۔اور اسکو عِمّانوایل کا نام دینگے۔” (عمّانوایل یعنی” خدا ہمارے ساتھ ہے”) 24 یُوسُف جب نیند سے جاگاتو خدا وند کے فرشتے کے کہنے کے مطابق مریم سے شادی کرنا قبول 25 کرلیا۔لیکن مریم کے وضع حمل ہونے تک یُوسُف نے اس سے جنسی تعلق نہ رکھا۔ اور یوسف نے اس بچے کو” یسوع” کا نام دیا۔

2:1 2 ان عالموں نے لوگوں سے پوچھا کہاں ہے “یہودیوں کا بادشاہ جو یہاں پیدا ہوا ہے ؟ اس کی پیدائش بتا نے والا ایک ستارہ مشرق میں طلوع ہوا ہے جس کو دیکھ کر ہم اس کو سجدہ کرنے کے لئے آئےہیں۔” 3 جب ہیرودیس اور یروشلم کے تمام لوگوں کو یہودیوں کے نئے بادشاہ کے بارے میں معلوم ہوا تو پریشان ہو گئے۔ 4 ہیرودیس نے فورًاتمام یہودی کاہنوں کے رہنما اور معلمین شریعت کو جمع کیا ،اور ان سے دریافت کیا کہ یسوع کے پیدا ہونے کی جگہ کونسی ہے؟ 5 انہوں نے کہا، “وہ یہوداہ کے بیت اللحم شہر میں پیدا ہوگا۔کیوں کہ نبی نے صحیفوں میں اسی طرح لکھا ہے۔ 6 اے بیت اللحم، یہوداہ کے علاقہ میں، یہوداہ پر 7 تب ہیرودیس نے خفیہ طور پر مشرقی ممالک کے مذہبی عالموں کو بلایا اور ان سے دریافت کیا کہ اس نے اس ستارے کوصحیح طور پر کس وقت پر دیکھا۔ 8 ہیرودیس نے ان مذہبی عالموں سے کہا، “تم سب جاؤ اور ہوشیاری سے ڈھونڈو کہ وہ بچّہ کہاں ہے پھر بچّہ ملے تو آ کر مجھے بتاؤ تا کہ میں بھی جا کر اس کو سجدہ کروں۔” 9 وہ مذہبی علماءبادشاہ کی بات سن کر جب وہاں سے نکلے، انہوں نے مشرق میں طلوع شدہ اس ستارے کو دیکھا۔ اور وہ لوگ اس ستارے کے پیچھے ہو لئے اور وہ ستارہ ان کے سامنے چلا اور اس جگہ پر جا کر ٹھہر گیا جہاں پر وہ بچّہ تھا۔ 10 وہ اس ستارے کو دیکھ کر بے حد خوش ہوئے۔ 11 جب وہ لوگ اس گھر میں آئے اور بچہ کو اپنی ماں مریم کے پاس پایا تو اسکے سامنے گر کر سجدہ کیا ،اور اپنے قیمتی تحفے کھول کر اس میں سے سونا، لبان اور مُر اس کو نذر کیا۔ 12 لیکن خدا نے ان مذہبی عالموں کو خواب میں ہدایت دی کہ تم ہیرو دیس کے پاس دوبارہ نہ جاؤ۔ لیکن وہ عالم دوسری راہ سے اپنے ملک کو گئے۔ 13 مذہبی عالموں کے چلے جانے کے بعد خداوند کا فرشتہ یوسف کو خواب میں نظرآیااور کہا ، “اٹھ جا اس بچے کو اور اس کی ماں کو ساتھ لیکر مصر کو بھاگ جا۔کیونکہ ہیرودیس اس بچے کی تلاش میں ہے کہ اس کو مار ڈالے۔اورجب تک میں نہ کہوں تو مصر ہی میں آرام سے رہنا۔” 14 اس کے فورًا بعد یوسف اٹھا بچہ اور اسکی ماں کو ساتھ لیکر رات کے وقت میں مصر کو چلا گیا۔ 15 ہیرودیس کے مرنے تک یوسف مصر ہی میں رہا خدا وند کہتا ہے،” میں نے اپنے بیٹے کو مصر سے بلایا” “نبی کی معرفت خدا کی کہی ہوئی یہ بات پوری ہوئی۔ 16 ہیرودیس کو جب یہ معلوم ہوا کہ عالموں نے اسے بیوقوف بنایا ہے تو وہ بہت غضبناک ہوا۔حالانکہ اس بچے کے پیدا ہونے کا وقت ہیرودیس نے ان عالموں سے جان لیا تھا۔اور اب اس بچے کو پیدا ہوئے دو سال گزر گئے تھے۔اس وجہ سے ہیرودیس نے بیت اللحم اور اسکے اطراف میں دو سال کی کم عمر کے تمام ننھّے بچوں کو قتل کرنے کا حکم دیا۔ 17 اس طرح یرمیاہ نبی کے ذریعہ خدا کی کہی ہوئی یہ بات پوری ہوئی۔ 18 “رامہ میں ماتم اور زار و قطاررونا سنائی دیا 19 ہیرودیس کے مرنے کے بعد خداوند کا فرشتہ یوسف کو خواب میں پھر نظر آیا۔اور یوسف کے مصر میں رہنے کے وقت ہی یہ بات پیش آئی تھی۔ 20 فرشتہ نے اس سے کہا ،” اٹھ جا بچہ کو اور اسکی ماں کو ساتھ لیکر اسرائیل کو چلا جا۔ اور کہا کہ بچہ کو قتل کرنےکی کوشش کرنے والے اب مرگئے ہیں۔” 21 تب یوسف اٹھا اور بچہ کو اور اسکی ماں کو ساتھ لیکر اسرائیل کو چلا گیا۔ 22 لیکن اسکو معلوم ہوا کہ ہیرودیس کے مرجا نے کے بعد اس کا بیٹا ار خلاؤس،یہوداہ کا بادشاہ بن گیا ہے۔تو وہ وہاں جا نے سے ڈر گیا اور خواب میں دی گئی ہدایت کی بنا پر وہ اس جگہ کوچھوڑ کر گلیل کے علاقے کو چلا گیا۔ 23 ناصرت نامی مقام پر جا کر مقیم ہو گیا۔”اسلئے مسیح ناصری کہلایا۔اس طرح جو کچھ نبیوں نے کہا تھا وہ پورا ہوا۔

3:1 اُن دنوں میں بپتسمہ(اصطباغ) دینے والے یوحنا یہوداہ کے بیابان میں منادی دینا شروع کردیا۔ 2 یوحنا نے پکار کر کہا آسمانی بادشاہت قریب آگئی ہے” تم اپنے گناہوں سے توبہ کرکے خدا کی طرف متوجہ ہوجاؤ”وہ اس طرح منادی دینے لگا۔ 3 4 یوحنا کا لباس اونٹ کے بالوں سے تیارہوا تھا۔اور اسکی کمر میں چمڑے کا ایک کمر بند لگا ہوا تھا۔ اور وہ ٹڈّیاں اور جنگلی شہد کو بطور غذا استعمال کرتا تھا۔ 5 لوگ یوحنا کی منا دی کو سننے کیلئے یروشلم اوریہوداہ کےپورے علاقے اور دریائے یردن کے آس پاس کےسبھی علاقوں سے آتے تھے۔ 6 جب لوگ اپنے گناہوں کا اقرار کرتے تھے تو یوحنا انکو دریائے یردن میں بپتسمہ دیتا تھا۔ 7 کئی فریسی اور صدوقی یوحنا سے بپتسمہ لینے کے لئے آئے یوحنا نے انکو دیکھ کر کہا ،”تم سب سانپ ہو آنے والے خدا کے آنے والے غضب سے تم کو آگاہ کرنے والا کون ہے ؟ 8 تم اپنے صحیح کاموں اوراچھے اعمال کے ذریعہ ثابت کرو کہ حقیقت میں تم اپنا دل و جاں بدل چکے ہو۔ 9 ابراہیم ہمارا باپ ہے یہ کہتے ہوئے اپنے آپ کو فریب نہ دو میں تم سے کہتا ہوں کہ اگر خدا چاہتا تو ابراہیم کیلئے یہاں پائے جانے والی چٹانوں کے پتھروں سے اولاد کو پیدا کرسکتا ہے۔ 10 اب درختوں کو کاٹنے کے لئے کلہاڑی تیّار ہے۔ اچھے پھل نہ دینے والے تمام درختوں کو کاٹ کر آ گ میں جلا دیا جائیگا۔ 11 “تمہارے دل خدا کی طرف رجوع ہیں۔” میں اس بات کے ثبوت میں تم کو پانی سے بپتسمہ دیتا ہوں لیکن میرے بعد آنے والا مجھ سے عظیم ہے میں اسکی جوتیوں کے تسمے کھولنے کے بھی لائق نہیں ہوں وہ تو تم کو رُوح القُدس اور آ گ سے بپتسمہ دیگا۔ 12 وہ دا نے کو صاف کر نے کیلئے تیار ہے اور وہ دانہ کو بھوسے سے الگ کر کے اچّھے اناج کو گودام میں بھر وا دیگا اور کہا کہ اس کے بھوسے کو نہ بجھنے والی آ 13 تب ایسا ہوا کہ یوحنا سے بپتسمہ لینے کیلئےیسوع گلیل سےدریائے یردن کے پاس آئے۔ 14 لیکن یوحنا نے کہا ،”میں اس لائق نہیں کہ تجھے بپتسمہ دوں لیکن تو مجھے بپتسمہ دے اور میں اسکا محتاج ہوں۔ تو پھر تو مجھ سے بپتسمہ لینے کیوں آیا ؟اس طرح کہتے ہوئے اس نے اس کو روکنے کی کوشش کی۔” 15 یسوع نے جواب دیا “فی الوقت ایسا ہی ہونے دے اور ہمیں وہ تمام کام جو اچھے اور نیک ہیں کرنا چاہئے ،،تب یوحنا نے یسوع کو 16 یسوع بپتسمہ لینے کے بعد پانی سے اوپر آئے۔توفورًا ہی آسمان کھل گیا۔ اور یسوع اپنے اوپر خدا کی روح کو کبوتر کی شکل میں اُترتے ہوئے دیکھا۔ 17 تب آسما ن سے ایک آواز آئی “یہ وہ میرا پیارا چہیتا بیٹا ہے اور اس سے میں بہت خوش ہوں۔”

4:1 تب روح یسوع کو جنگل میں شیطان سے آزمانے کیلئے لے گئی۔ 2 یسوع نے چالیس دن اور چالیس رات کچھ نہ کھایا تب اسے بہت بھوک لگی۔ 3 تب اسکا امتحان لینے کیلئے شیطان نے آکر کہا، “اگر تو خداکا بیٹا ہی ہے تو ان پتھروں کو حکم کر کہ وہ روٹیاں بن جائیں۔” 4 یسوع نے اس کو جواب دیا یہ” صحیفہ میں لکھا ہے: 5 تب شیطان یسوع کو مقدس شہر یروشلم میں لے جاکر ہیکل کے انتہائی بلندجگہ پر کھڑا کرکے کہا۔ 6 شیطان نے کہا ،” اگر تو خدا کا بیٹا ہے تو نیچے کود جا کیوں؟ اسلئے کہ صحیفہ میں لکھا ہے ، 7 تب یسوع نے جواب دیا یہ بھی کلام میں لکھا ہے 8 پھر اس کے بعد شیطان یسوع کو کسی پہاڑ کی اونچی چوٹی پر لے جاکر دنیا کی تمام حکومتوں کو اور انکی شان و شوکت کو دکھایا۔ 9 شیطان نے اس سے کہا، “اگر تو میرے سامنے سجدہ کرے تو میں تجھے یہ تمام چیزیں عطا کرونگا۔ ” 10 یسوع نے شیطان سے کہا، “اے شیطان ! تو یہاں سے دور ہو جا ایسا کلام میں لکھا ہوا ہے۔ 11 تب ابلیس یسوع کو چھوڑ کر چلا گیا۔ پھر فرشتے آئے اور اسکی خدمت میں لگ گئے۔ 12 یسوع کو یہ بات معلوم ہوئی کہ یوحنا کو قید میں بند کر دیا گیا ہے جس کی وجہ سے یسوع گلیل کو واپس لوٹ گیا۔ 13 یسوع ناصرت میں نہیں رہے اورجھیل سے قریب کفر نحوم کے گاؤں میں جا کر رہنے لگے۔اور یہ گاؤں زُبولون اور نفتالی کی سرحد وں سے قریب ہے۔ 14 یسعیاہ نبی کے ذریعہ سے خدا کی کہی ہوئی بات اس طرح پوری ہوئی : 15 “زُبُولون سرحد، نفتالی سرحد، 16 لوگ اندھیرے میں زندگی گزار ہے تھے۔ 17 اس دن سے یسوع منادی دینا شروع کیا۔ آسمانی بادشاہت بہت جلد آنے والی ہے جس کی وجہ سے تم اپنے دلوں کو اور اپنی زندگیوں میں تبدیلی لاؤ۔” 18 گلیل جھیل کے کنا رے پر یسوع ٹہل رہے تھے۔ اس نے شمعون ( اس کو پطرس کے نام سے بھی جانا جاتاہے) اور اسکا بھا ئی اندر یاس کو دیکھا۔ یہ دونوں مچھیرے اس دن جھیل کے کنارے پر جال ڈال کر مچھلیاں پکڑ رہے تھے۔ 19 یسوع نے ان سے کہا ،” آؤ میرے پیچھےہو لو میں تم کو دوسری طرح کا ماہی گیر بناؤنگا۔ تمکو جو جمع کرنا ہے وہ مچھلیاں نہیں بلکہ لوگوں کو۔” 20 فورًا شمعون اور اندریاس اپنے جالوں کو چھوڑکر اس کے پیچھے ہو لئے۔ 21 یسوع گلیل کی جھیل کے کنارے آگے چلنے لگے تو زبدی کے دو بیٹے یعقوب اور یوحنا دونوں کو دیکھا۔وہ دونوں اپنے باپ زبدی کے ساتھ کشتی پر سوار تھے۔اور وہ مچھلیوں کا شکار کرنے کیلئےاپنے جالوں کی مرمت کر رہے تھے یسوع نے انکو بلایا۔ 22 تب وہ کشتی کو اور اپنے باپ کو چھوڑ کر یسوع کے ساتھ ہولئے 23 یسوع گلیل کے تمام علاقوں میں گیا۔ یسوع یہودیوں کی عبادت گاہوں میں تعلیم دینے لگا اور خدا کی بادشاہت کے بارے میں خوش خبری کی منادی دینے لگا۔یسوع تمام لوگوں کی بیماریوں اور خرابیوں کو دُور کر کے شفاءدی۔ 24 یسوع کی خبریں تمام ملک سوریہ میں پھیل گئی۔لوگ تمام بیماروں کو یسوع کے پاس لانا شروع کئے۔وہ لوگ جو مختلف قسم کے امراض اور اور تکالیف میں مبتلا تھے۔اور بعض تو شدید تکلیف اور درد میں بے چین تھے۔اور بعض بد روحوں کے اثرات سے متاثر تھے ان میں بعض مرگی کی بیماری میں مبتلا تھے۔اور بعض فالج کے مریض تھے یسوع نے ان سب کو شفاء بخشی۔ 25 بے شمار لوگ یسوع کے پیچھے ہو لئے۔یہ لوگ گلیل سے، دس دیہاتوں سے، یروشلم سے،یہوداہ سے اور دریائے یردن کے اُس پار والے علاقے سے آئے ہوئے تھے۔

5:1 یسوع نے جب لوگوں کی اس بھیڑ کو دیکھا تو پہاڑ کے اوپر چڑھکر بیٹھ گئے۔اسکے شاگرد بھی اسکے پاس آئے۔ 2 تب یسوع نے یہ تعلیم دینی شروع کی۔ اور کہا، 3 مبارک ہیں وہ لوگ جو دل کے غریب ہیں 4 مبارک ہیں وہ لوگ ہے جو غم زدہ ہیں 5 مبارک ہیں وہ لوگ جو حلیم ہیں 6 مبارک ہیں وہ لوگ جو راستباز بھوکے اور پیاسے ہیں 7 مبارک ہیں وہ لوگ جو رحم دل ہیں 8 مبارک ہیں وہ لوگ جو پاک ہیں 9 مبارک ہیں وہ لوگ جو صلح کراتے ہیں 10 مبارک ہیں وہ لوگ جو راستبازی کر نے کے سبب سے ستا ئے گئے 11 “لوگ میری پیروی کرنے کی وجہ سے تمہارا مذاق اُڑائینگےاور ظلم و زیادتی کریں گے اور تم پر غلط اور جھوٹی باتوں کے الزام لگائینگے ،تو تم قابل مبارک باد ہوگے۔ 12 خوشی کرنا اور شادماں ہونا اس لئے کہ جنت میں تم اسکا بڑا بدلہ پاؤگے۔کیونکہ تم سے پہلے گزرے ہوئے نبیوں کے ساتھ بھی لوگ ایسا ہی سلوک کیا کرتے تھے۔ 13 “تم زمین کے لئےنمک کی مانند ہو۔ اگر نمک اپنا مزہ کھودے تو دوبارہ اسے نمکین نہیں بنا سکتے۔اور اس نمک سے کوئی فائدہ نہ ہوگا لوگ اسکو باہر پھینک کر پیروں تلے روندینگے۔ 14 “تم ساری دنیا کے لئے روشنی ہو جو شہر پہاڑ کی چوٹی پر بنایا جاتا ہے وہ چھپ نہیں سکتا۔ 15 لوگ روشنی کو برتن کے نیچے نہیں رکھتے۔بلکہ لوگ اس چراغ کو شمعدان میں رکھتے ہیں۔تب کہیں روشنی تمام گھر کے لوگوں کو پہنچتی ہے۔ 16 اسی طرح تم لوگوں کو روشنی دینے والے بنو۔کہ تمہاری نیکیوں کو دیکھکر وہ تمہارے باپ کی حمداور تعریف و توصیف کریں کہ جو آسمانوں میں ہے۔ 17 “یہ نہ سمجھو کہ میں موسیٰ کی کتاب شریعت اور نبیوں کی تعلیمات کو منسوخ یا بیکار کرنے کیلئے آیا ہوں میں ان کو منسوخ کر نے کے بجائےان کو پورا کرنے کیلئےآیا ہوں۔ 18 میں تم سے سچ ہی کہتا ہوں کہ زمین و آسمان کے فنا ہونے تک شریعت سے کچھ بھی غائب نہ ہوگا۔شریعت کا ایک حرف یا اسکا ایک لفظ بھی غائب نہ ہوگا جب تک سب کچھ پورا نہ ہوجائے۔ 19 ہر انسان کو چاہئے کہ وہ ہر حکم بلکہ چھوٹے احکام کی بھی تعمیل میں فرمانبردار بنیں۔اگر کوئی ان احکامات میں سے کسی ایک کی تعمیل میں نافرمانی کرے اور دوسرےلوگوں کو بھی اس نا فرمانی کی تعلیم دے تو وہ خدا کی بادشاہت میں انتہائی حقیر ہوگا۔لیکن اگر وہ شریعت کا فرمانبردار ہوکر زندگی گزارنے اور دوسروں کو شریعت کا پابند ہونے کی تلقین کرنے والا خدا کی بادشاہت میں بہت اہم ہوگا۔ 20 لیکن میں تم سے کہتا ہوں کہ معلمین شریعت سے اور فریسیوں سے بہتر کام ہی تم کو کرنا چاہئے ورنہ تم خدا کی بادشاہت میں داخل نہ ہو سکو گے۔ 21 “وہ بات ایک عرصہ سے پہلے لوگوں سے کہی گئی تھی جس کو تم نے سنا تھا۔ کسی کا قتل نہیں کرنا چاہئے جو شخص کسی کا قتل کرے اس کا انصاف کیا جائیگا۔ 22 لیکن میں تم سے جو کہتا ہوں کہ تم کسی پر غصّہ نہ کرو ہر ایک تمہارا بھائی ہے اگر تم دوسروں پر غصہ کروگے تو تمہارا فیصلہ ہوگا اور اگر تم کسی کو برا کہوگے تو تم سے یہودیوں کی عدالت میں چارا جوئی ہوگی۔اگر تم کسی کو نادان یا اُجڈ کے نام سے پکاروگے تو دوزخ کی آ گ کے مستحق ہوگے ”۔ 23 “اس لئے جب تم اپنی نذر قربان گاہ میں پیش کرنے آؤ اور یہ بھی یاد آجائے کہ تم پر تمہارے بھائی کی ناراضگی ہے تو، 24 تب اپنی نذر قربان گاہ کے نزدیک ہی چھوڑ دواور پہلے جا کر اسکے ساتھ میل ملاپ پیدا کرو اور پھر اسکے بعد آکر اپنی نذر پیش کرو۔ 25 “اگر تمہارا دشمن تمہیں عدالت میں کھینچ لے جارہا ہو تو تم جلد اسکے دوست ہو جا ؤ۔اور تم کو عدالت جانے سے پیشتر ہی ایسا کرنا چاہئے۔اگر تم اسکے دوست نہ بنوگے تو وہ تمہیں منصف کے سامنے لےجائیگا منصف تمہیں سپاہی کے حوالے کریگا تاکہ تمہیں قید میں ڈالا جائے۔ 26 میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جب تک تم کوڑی کوڑی کو ادا نہ کرو تم قید سے رہا نہ ہوگے۔ 27 “اس بات کو تم سن چکے ہو کہ یہ کہا گیا ہے ، تم زنا کے مرتکب نہ ہو، 28 میں تم سے کہتا ہوں کہ اگر کوئی شخص کسی غیر عورت کو زنا کی نظر سے دیکھے اور اس سے جنسی تعلق قائم کرنا چاہے تو گویااس نے اپنے ذہن میں عورت سے زنا کیا۔ 29 اگر تیری داہنی آنکھ تجھے گناہ کے کاموں میں ملوث کردے تو تو اس کو نکا ل کر پھینک دے۔اس لئے کہ تیرا پورا بدن جہنم میں جانے کے بجائے بہتر یہی ہوگا کہ بدن کے ایک حصہ کو الگ کر دیا جائے۔ 30 اگر تیرا داہنا ہاتھ تجھے گناہ کا مرتکب کرے تو اس کو کاٹ کر پھینک دے۔ اس لئےکہ تیرا پورا بدن جہنم میں جانے کے بجائے بہتر یہی ہوگا کہ بدن کے ایک حصہ کو الگ کردیا جائے۔ 31 “یہ بات کہی گئی ہے کہ جوکو ئی اپنی بیوی کو طلاق دینا چاہے تو اسکو چاہئے کہ وہ اسکو تحریری طلاق نامہ دے۔ 32 لیکن میں تم سے کہتا ہوں ،” کوئی بھی شخص جو اپنی بیوی کو طلاق دیتا ہے تو وہ اپنی بیوی کو حرام کا ری کر نے کے گناہ کا قصور وار بناتا ہے- کسی بھی شخص کو اپنی بیوی کو طلاق دینے کا صرف ایک ہی وجہ ہے- وہ یہ کہ اسکی بیوی نے کسی غیر مرد سے جنسی تعلقات قائم کی ہو-اور کو ئی بھی شخص اس طلاق شدہ عورت سے شادی کر تا ہے تو وہ حرام کاری کا گناہ کر نے کا قصور وار ہے- 33 “دو بارہ تم سن چکے ہو تمہارے اجداد سے کہی ہوئی بات کہ قسموں کو مت توڑو جو تم نے کھائی ہے اور خداوند کے نام پر کھائی ہوئی قسم کو پورا کرو۔ 34 لیکن میں تم سے کہتا ہوں کہ قسم ہر گز نہ کھا ؤ۔جنّت کے نام پر بھی قسم نہ کھاؤ کیوں کہ جنت خدا کا تخت ہے۔ 35 زمین کے نام پر بھی قسم نہ کھاؤکیوں کہ زمین خدا کے پیروں کی چوکی ہے یروشلم کے نام پر بھی قسم نہ کھاؤ کیوں کہ وہ عظیم شہنشاہ کا شہر ہے۔ 36 تم اپنے سروں کی بھی قسمیں نہ کھاؤ کیو ں کہ تمہارے سر کا ایک بال بھی سیاہ یا سفید کرنا تمہارے لئے ممکن نہیں۔ 37 اگر صحیح ہے تو کہو ٹھیک ہے اور اگر صحیح نہیں ہے تو کہو ٹھیک نہیں ہے تم اس سے بڑھ کر جو کہتے ہو تو وہ بدی سے ہے۔ 38 “تم سن چکے ہو کہ کہا گیا تھا کہ آنکھ کے بدلے آنکھ اور دانت کے بدلے دانت۔ 39 میں تم سے کہنا چاہتا ہوں وہ یہ کہ برے شخص کے مقابلے میں کھڑے نہ ہو۔اگر کوئی تمہارے دائیں گال پر تھپڑ مارے تو اس کے لئے دوسرا بایاں گال بھی پیش کرو۔ 40 اگر تم سے کوئی کرتا لینے کیلئے تم کو عدالت میں کھینچ لے جائے ،تو تم اسکو اپنا چغّہ بھی دے دو۔ 41 اگر کوئی تم کو زبردستی ایک میل بیکار چلنے کیلئے کہے تو اس کے ساتھ دو میل چلے جاؤ۔ 42 کوئی بھی تم سے اگر کوئی چیز پوچھے جو تمہارے پاس ہے ،تو وہ اسکو دیدو اگر کوئی تم سے قرض لینے کیلئے آئے تو تم اسکو انکار نہ کرو۔ 43 “تو اپنے پڑوسی سے محبت کر اور اپنے دشمن سے نفرت کر۔ اس کہی ہوئی بات کو تم نے سنا ہے۔ 44 لیکن میں تم سے کہہ رہا ہوں کہ تم اپنے دشمنوں سے محبت کرو اور تمہارا نقصان پہونچانے والے کے لئے تم دعا کرو۔ 45 تب تم آسمان میں رہنے والے تمہارے باپ کے حقیقی بچّے ہوگے۔کیوں کہ تمہارا باپ سورج کو نکالتا اور چمکاتا ہے دونوں کے لئے بروں اور نیکوں دونوں کے لئے بارش بھیجتا ہے دونوں کے لئے راستباز اور غیر راستباز۔ 46 تم سے محبت رکھنے والوں سے اگر تم بھی محبت رکھو گے تو تم کو اس سے کیا صلہ ملیگا ؟اس لئے کہ محصول وصول کرنے والے بھی تو ایسا ہی کرتے ہیں۔ 47 اگرتم صرف اپنے دوستوں کے حق میں اچھّے بننا چاہتے ہو تو ایسے میں تم دوسروں سے کوئی اتنے اچھے نہیں ہو۔اس لئے کہ خدا کو نہ پہچاننے والے لوگ بھی اپنے دوستوں سے اچھے رہتے ہیں۔ 48 اسلئے جیسا کہ تمہارا باپ آسمانوں میں ہے اسی طرح تم کو بھی کامل بننا چاہئے۔

6:1 “ہوشیار رہو ! تم اچھے کام لوگوں کے سامنے اس خیال سے نہ کرو کہ لوگ اسکو دیکھیں تو آسمان میں رہنے والے تمہارے باپ کی طرف سے تمہیں اس کا کوئی اجر نہ ملے گا- 2 “جب تم غریب کو خیرات دو تو اسکی تشہیر نہ کرو۔منافقوں کی طرح نہ بنو۔جب کبھی ریا کار خیرات دیتے ہیں یہودی عبادت گاہوں میں اور گلی کوچو ں میں نر سنگوں کو بجا کر اعلان کرتے ہیں اور لوگوں سے تعریف حاصل کرنا ہی انکا مقصد ہوتا ہے۔میں کہتا ہوں یہی تو وہ صلہ ہے جو وہ حاصل کرتے ہیں۔ 3 اور جب بھی غریبوں کو تم کچھ دو تو وہ خفیہ طور پر دو تا کہ اس کے متعلق کسی کو اس بات کا علم نہ ہو۔ 4 اس طرح تمہارا خیرات دینا پوشیدہ ہوگا لیکن تمہارا باپ دیکھتا ہے کہ پوشیدہ کیا کیا گیا ہے اوروہ تم کو اسکا اچھّا صلہ دیگا۔ 5 “جب تم عبادت کرو تو ریا کاروں کی طرح نہ کرو۔ریا کار لوگ یہودیوں کی عبادت گا ہوں میں اورگلیوں کے کونوں پر ٹھہر کر زور سے دعا کرنے کو پسند کرتے ہیں اور انکی یہ خواہش ہو تی ہے کہ لوگ انکی عبادت کو دیکھیں۔میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ گویا وہ اسی وقت اپنے صلہ کو پا لئے۔ 6 اگر تم عبادت کرنا چاہو تو تم اپنے کمرے میں جاکر دروازہ بند کرلو اور تمہارے باپ کی عبادت کرو جس کو تم نہیں دیکھ سکتے تمہارا باپ دیکھتا ہے جو پوشیدہ کیا گیا ہے اور وہ تم کو صلہ دیگا۔ 7 “جب تم عبادت کرو تو ریا کاروں کی طرح عبادت نہ کرو۔کیوں کہ وہ بے معنی باتوں کو دہراتے رہتے ہیں۔اس قسم کی عبادت تم نہ کرو۔ اور وہ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ اگر زیادہ باتیں کریں تو خدا انکی دعا کو سنتا ہے۔ 8 تم انکی طرح نہ بنو۔اس لئے کہ تمہارے مانگنے سے پہلے تمہارے باپ کو معلوم ہے کہ تمہیں کیا چاہئے۔ 9 اس وجہ سے تم اس طرح عبادت کرو : 10 تیری بادشاہی آئے، 11 ہماری ہر روز کی روٹی ہم کو اسی دن دے۔ 12 ہمارے گناہوں کو معاف کر 13 ہمیں آزمائش میں نہ ڈال 14 ہاں، دوسروں کی غلطیوں کو تم معاف کروگےتو تمہارا باپ بھی جو جنت میں ہے تمہاری غلطیوں کو معاف کریگا۔ 15 اگر لوگوں کی غلطیوں کو معاف نہ گروگے تو آسمانوں میں رہنے والا تمہارا باپ بھی تمہاری غلطیوں کو معاف نہ کریگا۔ 16 “جب تم روزہ رکھو تو تم اپنے چہروں کو پھیکے اور اداس نہ بناؤ۔ریا کار والے ویسا ہی کرتے ہیں۔تو تم ان ریا کاروں کی طرح نہ بنو۔ وہ روزہ کی حالت میں لوگوں کو دکھاوا کرنے کیلئے وہ اپنے چہروں کی ہیئت کو بگاڑ لیتے ہیں میں تم سے سچ کہتا ہوں ان ریا کاروں کو اپنے کئے کا پورا بدلہ مل چکا ہے۔ 17 اس لئے جب تم روزہ رکھو تو منھ کو خوب دھویا کرو اور سر میں تیل لگاؤ۔ 18 تب لوگوں کو یہ بات معلوم نہیں ہوگی کہ تم روزے سے ہو۔لیکن تمہاری نظروں سے پوشیدہ تمہارا باپ تو ضرور تم کو دیکھتا ہے۔اور وہ پوشیدگی میں رونما ہونے والے تمام حالات کو جانتا ہے اور تمہارا باپ تم کو اچھا بدلہ دیگا۔ 19 “اپنے لئے اس زمین پر خزانے نہ رکھو۔کیوں کہ اس میں کیڑا لگ جا ئے گا اور زنگ آلود ہوکر یہ ضائع ہو جائے گا۔چور تمہارے گھروں میں داخل ہو سکتے ہیں اور جو چیزیں تم رکھتے ہو وہ چرا سکتے ہیں۔ 20 اس لئے تم اپنے خزانوں کو جنت کیلئے تیا ر کرو کہ جہاں ان کو نہ تو کوئی کیڑا تباہ کریگا اور نہ کوئی زنگ پکڑیگا۔ اور نہ کوئی چور نقب زنی کے ذریعے اس کو چرائیگا۔ 21 کیوں کہ جہاں تیرا خزانہ ہوگا وہیں پر تیرا دل بھی لگا رہیگا۔ 22 “آنکھ بدن کے لئے روشنی ہے۔ اگر تیری آنکھیں اچھی ہوں تو تیرا سارا بدن روشن ہوگا۔ 23 اگر تیری آنکھوں میں خرا بی ہو تو تیرا سارا بدن تاریکی سے بھر جائیگا۔تجھ میں پائی جانے والی ایک روشنی اگر وہ تاریک ہو جائے تو کتنا گھپ اندھیرا ہو جائیگا۔ 24 “کوئی شخص ایک وقت دو مالکوں کی خدمت نہیں کر سکتا۔وہ ایک سے نفرت کرکے دوسرے سے محبت کر سکے گا ،یا اگر ایک مالک کی پیروی کریگا تو دوسرے کو نظر انداز کریگا۔تو بیک وقت خدا اور مال و دولت کی خدمت نہیں کرسکتا-” 25 “اس لئے میں تم سے کہتا ہوں کہ تم کو غذا کے لئے فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں اور بدن کو ڈھانکنے کے لئے ملبوسات کے لئے تم فکر مند نہ ہو نا۔کیوں کہ زندگی غذا سے اور بدن کپڑوں سے بڑھ کر اہم ہے۔ 26 پرندوں پر ایک نظر ڈالو۔نہ تو وہ بیج بوتے ہیں اور نہ فصل کاٹتے ہیں۔اور نہ کوٹھیوں میں اناج کے ذخائر جمع کرتے ہیں لیکن اس کے با وجود آسمانوں میں رہنے والا تمہارا باپ انہیں غذا فراہم کرتا ہے اور تم جانتے ہو کہ ان پرندوں سے بڑھ کر تم کتنی قدر و قیمت کے لائق ہو۔ 27 اور تمہاری فکر مندی کی وجہ سے تمہاری عمر دراز نہ ہوگی۔ 28 “لباس کی فکر کیوں کرتے ہو ؟جبکہ کھیتوں میں پائے جانے والے پھولوں پر غور کرو۔اور انکے بڑھنے پر غور کرو۔وہ محنت مشقّت بھی نہیں کرتے۔اور نہ اپنے لئے کوئی کپڑے بنتے ہیں۔ 29 میں تم سے جو کہنا چاہتا ہوں وہ یہ کہ سلیمان جو اتنی آن بان و عظمت کے ساتھ رہا۔تب بھی وہ کسی ایک پھول کی خوبصورتی کے برابر لباس زیب تن نہ کیا۔ 30 میدان میں اُگنے والی گھاس کو خدا پوشاک پہنا تا ہے۔جبکہ گھاس جو اب ہے اور کل کو آ گ میں جلےگی اس لئے خدا تم کو کتنا زیادہ پہنائے گا۔ کم ایمان والے نہ بنو۔ 31 تم اس بات کی فکر نہ کرو کہ ہم کیا کھا ئینگے ؟ اور کیا پئینگے؟اور کیا پہنیں گے؟ 32 لوگ جو خدا کو نہیں جانتے وہ ان اشیاء کو پا نے کی کوشش کرتے ہیں۔تم فکر نہ کرو کیوں کہ جنّت میں رہنے والا تمہارا باپ جانتا ہے کہ تم کو یہ تمام چیزیں چاہئے۔ 33 اس لئے تم کو خدا کی بادشاہت کے لئےاور اسکی مرضی کے مطابق کاموں کی خواہش کرنا چاہئے۔تب تمہیں دوسری چیزیں بھی دی جائیں گی جو تم چاہتے ہو۔ 34 اس لئے تم کو کل کی فکر نہ کرنی چاہئے کیوں کہ ہر دن کے اپنے مشکلات ہیں کل بھی اسکے اپنے افکار ہوں گے۔

7:1 “دوسروں کے متعلق فیصلہ نہ دو۔تب خدا تمہارے حق میں بھی فیصلہ نہ دیگا۔ 2 اگر تم دوسروں کے حق میں فیصلہ دوگے تو تمہارے حق میں بھی اس قسم کا فیصلہ ہوگا۔اگر تم دوسروں کے ساتھ جو اقدام کرو تو وہی اقدام تمہارے ساتھ بھی ہوگا۔ 3 “تیری اپنی آنکھ میں پائے جانے والے شہتیر کو تو نہیں دیکھتا۔ تو کیوں اپنے بھائی کی آنکھ میں پائے جا نے والے تنکے کو دیکھتا ہے۔ 4 تُو اپنے بھائی سے کیسے کہہ سکتا ہے کہ تُو مجھے اپنی آنکھ کا تنکا نکالنے دے جبکہ پہلے تو اپنی آنکھ کو دیکھ ! کہ اب تک تیری آنکھ میں شہتیر موجود ہے۔ 5 تُو تو ایک ریا کار ہے! پہلے توُاپنی آنکھ کے شہتیر کو نکال تب اپنے بھائی کی آنکھ میں پائے جا نے والے تنکے کو نکالنے کیلئے تجھے صاف نظر آئیگا۔ 6 “مقدس چیزوں کو تم کُتوں کے آگے نہ ڈالو۔اسلئے کہ وہ پلٹ کر تمہیں کاٹ لیں گے۔سُوّروں کے سامنے اپنے موتیوں کو نہ ڈالو۔کیوں کہ وہ موتیوں کو پیروں تلے روند ڈالیں گے۔ 7 “مانگو،تب خدا تمہیں دیگا۔تلاش کرو ،تب کہیں تم پاؤگے۔دروازہ کھٹکھٹاؤتب کہیں وہ تمہارے لئے کھلے گا۔ 8 ہاں ہمیشہ پوچھتے رہنے والے ہی کو ملتا ہے اور لگاتار ڈھونڈنے والا پا ہی لیتا ہے اور لگاتار کھٹکھٹا نے وا لے کے لئے دروازہ کھل ہی جاتا ہے۔ 9 “اگر تمہارا بچّہ روٹی مانگے تو کیا تم اس کو پتھر دوگے۔ 10 اگر وہ مچھلی پو چھے تو کیا اس کو سانپ دو گے۔ 11 تم خدا کی طرح اچھے نہیں ہو۔بلکہ خراب ہو لیکن اس کے با وجود تم اپنے بچوں کو اچھی چیزیں دینا چاہتے ہو۔اس طرح تمہارا باپ بھی جنّت میں ہے پوچھنے والوں کو اچھی چیزیں دیگا۔ 12 “دوسروں کے ساتھ تم اچھا برتاؤ کرو جس کی تم ان سے اپنے لئے کرنے کی امید کرتے ہو۔یہ موسیٰ کی شریعت اور نبیوں کی تعلیمات کا خُلاصہ ہے۔ 13 “تنگ دروازے کے راستے سے جنّت میں داخل ہوجاؤ۔جہنم کو جانے والا راستہ آسان اور بہت زیاہ چوڑا ہے۔کئی لوگ اسکے ذریعے دا خل ہوتے ہیں۔ 14 لیکن ابدی زندگی کے داخلے کا دروازہ بہت چھوٹا ہے اوروہ راستہ مشکل ہے صرف چند ہی لوگ اس راستہ کو پاتے ہیں۔ 15 “جھوٹے نبیوں کے بارے میں ہوشیار رہو۔وہ بھیڑوں کی طرح تمہارے پاس آئینگے۔لیکن حقیقت میں وہ بھیڑئیے کی طرح خطرناک ہو ں گے۔ 16 تم ان کے کاموں کو دیکھ کراُن کو پہچان لوگے۔جس طرح تم کانٹے دار جھاڑیوں سے انگور نہیں پا سکتے۔ اور کا نٹے دار درخت سے انجیر نہیں پا سکتے -اسی طرح اچھی چیزیں بُرے لوگوں میں نہیں ہوتی۔ 17 ٹھیک اسی طرح ہر ایک اچھا درخت اچھا پھل ہی دیتا ہے۔ 18 اچھا درخت خراب پھل نہیں دیتا۔ اور خراب درخت اچھا پھل نہیں دیتا - 19 ہراس درخت کو جو اچھا پھل نہیں دیتا اس کو کاٹ کر آ گ میں جلادیا جائےگا۔ 20 اس لئے جھوٹی تعلیم دینے والوں کو اُن کے پھلوں سے پہچان لو گے۔ 21 “صرف اتنا کہنے سے کوئی آدمی خداکی بادشاہت میں داخل نہیں ہو سکتا جو صرف مجھے خدا وند اے خدا وند کہہ کر پکارے آسمان میں رہنے والے ہمارے باپ کی مرضی کے مطابق زِندگی گزارنے والے ہی خُدا کی بادشاہت میں داخل ہوں گے۔ 22 آخری دن کئی لوگ مجھ سے کہیں گے کہ تو ہی ہمارا خداوند ہے! تیرے ہی بارے میں ہم نے نبوّت دی ہے۔تیرے ہی نام سے ہم نےبد رُوحوں کو چھڑایا ہے اور مختلف غیر معمولی کا موں کو انجام دیا ہے۔ 23 لیکن میں صاف طور پر ان سے کہہ دوں گاکہ اے بد کار لوگو !مجھ سے دور ہو جاؤمیں نے تمہیں کبھی نہیں جا نا ؟ 24 “میری ان باتوں کو سن کر اس کی فرماں برداری کرنے والا ہر شخص اُس عقلمند کی طرح ہوگا کہ جو اپنا گھر پتھّر کی چٹان پر بنا یا ہو۔ 25 سخت اور شدید بارش ہوئی اور بارش کا پانی اوپر چڑھنے لگا۔تیز ہوائیں اس گھر سے ٹکرانے لگیں۔چونکہ وہ گھر پتھّر کی چٹان پر بنایا گیا ہے جس کی وجہ سے وہ گرا نہیں۔ 26 جو کو ئی میری ان باتوں کو سننے کے باوجود اس کی اطاعت نہ کرے وہ بے وقوف ہوگا اور کم عقل آدمی ہی ایسا ہے کہ جس نے ریت پر اپنا گھر بنایا۔ 27 شدید بارش ہو ئی اور پانی اوپر چڑھنے لگا اور تیز ہوائیں اس گھر سے ٹکرائیں اور وہ گھر زوردار آواز سے گر گیا۔ 28 جب یسوع نے ان چیزوں کی تعلیم ختم کی تو لوگ اسکی تعلیم سے بہت حیرت میں پڑ گئے۔ 29 کیوں کہ اس نے ان کو شریعت کے معلِّموں کی طرح تعلیم نہیں دی بلکہ ایک صاحب اقتدار کی طرح تعلیم دی

8:1 یسوع پہاڑ سے اُتر کر نیچے آگئے لوگ جوق درجوق اس کے پیچھے ہو لئے۔ 2 تب ایک کوڑھی شخص یسوع کے پاس آیا۔اور یسوع کے سامنے جھک گیا اور کہا ،”اے خدا وند اگر تو چاہے تو مجھے صحت دے سکتا ہے۔” 3 یسوع نے اسے چھو کر کہا ،”میں تیری شفا کی خواہش کرتا ہوں ٹھیک ہو جا “اس کو اسی لمحہ کو ڑھ کی بیماری سے شفا ملی۔ 4 یسوع نے اس سے کہا ،”یہ کس طرح ہوا تو کسی سے نہ کہنا۔تُو اب جا اور اپنے آپ کو کا ہن کو دکھا، اور موسیٰ کی شریعت کے حکم کے مطا بق مقّررہ نذرانہ پیش کر۔اور تیری صحت یا بی لوگوں کے لئےگواہی ہوگی۔ 5 یسوع کفر نحوم شہر کو چلے گئے۔جب وہ شہر میں داخل ہوئے تو فوج کا ایک سردار اس کے پاس آیا۔ 6 اور منّت کرتے ہوئے مدد کے لئے کہا ،” اے میرے خداوند میرا خادم بیمار ہے اور وہ بستر پر پڑا ہے اور وہ شدیدتکلیف میں مبتلا ہے۔” 7 یسوع نے اس عہدیدار سے کہا، “میں آکر اس کو شفا دونگا۔” 8 اس بات پر اس عہدیدار نے کہا ،” اے میرے خدا وند میں اس لائق نہیں ہوں کہ آپ میرے گھر آئیں۔آپکا صرف یہ کہہ دینا کافی ہے کہ وہ صحت پا جائے تو یقینا میرا خادم صحت پائے گا۔ 9 میں بھی دوسرے اعلی عہدیداروں کے تا بع ہوں۔ میرے ما تحت سپا ہی ہیں۔میں اگر ایک سپاہی سے یہ کہہ دوں کہ چلا جا تو وہ چلا جا تا ہے اور اگر دوسرے سپاہی سے یہ کہدوں کہ آجا تو وہ آ جا تا ہے۔ اگر میں اپنے خادم سے یہ کہوں کہ یہ کر تو وہ اس کو کرتا ہے میں جانتا ہو ں کہ تجھے بھی اس قسم کی باتوں پر اختیار ہے۔” 10 اس بات کو سُن کر یسوع کو بڑی حیرت ہوئی اور اسکے ساتھیوں سے کہا ،” میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ میں نے اسرائیل میں بھی ایسا اعتقاد رکھنے والے کسی فرد کو نہ دیکھا۔ 11 کئی لوگ مشرق اور مغرب سے آتے ہیں۔اور وہ خدا کی باد شاہت میں ابراہیم اسحاق یعقوب کے ساتھ بیٹھ کر کھا نا کھائینگے۔ 12 اور کہا کہ خدا کی بادشاہت کو پانے والے با ہر اندھیرے میں پھینک دیئے جائینگے اور وہ وہاں چیخ و پکار کریں گے اور درد سے دانت پِیسیں گے۔” 13 تب یسوع نے اس عہدیدار سے کہا ،”گھر چلا جا تیرے عقیدہ کے مُطابِق تیرا خادم شفا پائیگا۔” اسی وقت اُس کاخادم شفا یاب ہوا۔ 14 یسوع پطرس کے گھر کو گئے۔اور وہاں دیکھا کہ پطرس کی ساس بُخار کی شدّت سے بستر پر پڑی ہے۔ 15 جب یسوع نے اسکا ہاتھ چھوا تو وہ بخار سے نجات پائی۔تب وہ اٹھ کھڑی ہوئی اور ان کی خدمت کی۔ 16 اُس دن ایسا ہوا کہ شام کے وقت لوگ بد رُوحوں سے متاثر کئی افراد کو یسوع کے پاس لا نے لگے۔یسوع نے اپنے کلام سے بد رُوحوں کو اُن افراد سے بھگا دیا۔اور اُن تمام بیماروں کو صحت بخشا۔ 17 یسعیاہ نبی کی کہی ہوئی بات اس طریقہ سے پُوری ہوئی کہ 18 یسوع نے اپنے اطراف جمع شدہ تمام لوگوں کو دیکھا تو اس نے حکم دیا جھیل کے اس پار کنارے پر جاؤ۔ 19 تب ایک معلّم ِ شریعت یسوع کے پاس آ یا۔اور کہنے لگا،” اے استاد آپ جس جگہ جائیں گے وہاں میں تیرے پیچھے چلونگا۔” 20 یسوع نے اس سے کہا ، “لومڑیوں کے تو کھوہ ہوتے ہیں اور پرندوں کے گھونسلے ہوتے ہیں۔لیکن ابن آدم کو آرام کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے۔” 21 شاگردوں میں سے ایک نے یسوع سے کہا ،”اے خدا وند آپ مجھے پہلے اس بات کی اجازت دیجئے کہ میں اپنے باپ کی تدفین کے مراسم کو انجام دوں۔پھر اس کے بعد میں تیرے پیچھے ہو لونگا “ 22 لیکن یسوع نے اس سے کہا ، “تو میرے پیچھے چل اور مردوں کو اپنے مردے دفن کر نے دے۔” 23 یسوع کشتی میں سوار ہوئے اس کے شاگر دبھی اس کے ساتھ ہو لئے۔ 24 کشتی جھیل کے کنارے سے نکل جا نے کے بعد طوفانی ہوا جھیل کے اوپر چلنی شروع ہوئی۔ اور لہریں کشتی کو اچھالنے لگیں۔لیکن یسوع سو رہے تھے۔ 25 یسوع کے شاگرد اس کے قریب جا کر اس کو بیدار کئے اور کہنے لگے ،”اے خداوند ہماری حفاظت فرما ہم ڈوب رہے ہیں۔” 26 یسوع نے ان سے کہا، “تم کیوں خوف کرتے ہو ؟تم میں مناسب ایمان نہیں ہے ،،یہ کہتے ہوئے وہ اٹھ کھڑا ہوا اور ان بڑی طوفانی ہواؤں اور لہروں کو حکم دیا۔اس کے فورا بعد طوفانی ہوا رک گئی۔ اور جھیل پر مکمل سکوت چھاگیا۔ 27 لوگ حیرت زدہ تھے اور آپس میں کہنے لگے، “یہ کس قسم کا آدمی ہے ؟ یہاں تک کہ طوفانی ہوا اور پانی بھی اس کے فر مانبردار ہے۔” 28 یسوع جھیل کے دوسرے کنارے پر گدرین کی سر زمین میں آ ئے۔وہاں بد روح سے متاثر ہ دو آدمی یسوع کے پاس آئے۔وہ قبروں میں رہتے تھے۔اور وہ دونوں بہت ہی ضرر رساں تھے۔جس کی وجہ سے لوگوں میں ہمت نہ ہوتی تھی کہ اس راہ پر جائیں۔ 29 وہ دونوں چلاّتے ہوئے یسوع کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ” آپ ہم سے کیا چاہتے ہیں ؟اے خدا کے بیٹے کیا تو مقرّرہ وقت سے پہلے ہی ہمیں سزا دینے کےلئے یہاں آیا ہے۔” 30 اس جگہ سے قریب سوّروں کا ایک بڑا غول چر رہا تھا۔ 31 بد روحیں منّت کر نے لگےکہ “تو چاہتا ہے کہ ہم ان دونوں کو چھوڑ کر سوّروں میں چلے جائیں تو مہر بانی فرما کر ہمیں سوّروں کے اس غول میں بھیج دے۔” 32 تب یسوع نے ان سے کہا ،”چلے جاؤ”تب وہ روحیں ان دونوں کو چھوڑ کر سوّروں میں چلی گئیں۔فوراً وہ تمام سوّر پہاڑ کے نشیب میں دوڑے اور جھیل میں گر کر پا نی میں ڈوب گئے۔ 33 سوّروں کو چرا نے والے شہر میں دوڑ کر گئے سوّروں پر اور ان لو گوں پر جو کہ شیطانوں سے متاثر تھے پیش آئے ہوئے واقعات کو وہ لو گوں سے بیان کئے۔ 34 تب شہر کے تمام لوگ یسوع کو دیکھنے کیلئے چلے گئے۔ جب ان لوگوں نے انہیں دیکھاتو اس سے التجاکر نے لگے کہ وہ ان لوگوں کی جگہ چھوڑ کر چلا جائے۔

9:1 یسوع کشتی میں سوار ہو ئے اور جھیل کو پار کرتے ہو ئے خاص شہر کو چلے گئے۔ 2 چند لوگ ایک مفلوج آدمی کو یسوع کے پاس لائے جو اپنے بستر پر پڑا ہواتھا۔ یسوع نے ان لوگوں کو دیکھا کہ ان میں بڑی عقیدت تھی تو وہ مفلوج مریض سے کہنے لگا،” اے نو جوان تو خوش ہو جا۔کیوں کہ تیرے گناہ معاف کر دیئے گئے ہیں۔” 3 وہاں پر موجود چند معلّمین شریعت نے جب اس کو سنا تو آپس میں کہنے لگے کہ “یہ آدمی ایسی بات کر رہا ہے جیسا کہ وہ خدا ہے، اور یہ تو کفر ہے۔” 4 انکا اس طرح سوچنا یسوع کو معلوم ہوا۔ انہوں نے ان سے کہا ،” تم ایسی بری بات کیوں سوچتے ہو ؟” 5 آسان کیا ہے ؟اس مفلوج مریض سے کیا یہ کہنا آسان ہے کہ تیرے گناہ معاف کردیئے گئے ہیں، یا یہ کہنا کہ” اٹھ اور چل ؟” 6 لیکن میں تم کو بتاؤں گا کہ ابن آدم کو گناہوں کو معاف کر نے کے لئے اس زمین پر اختیار حاصل ہے۔تم جان جاؤگے کہ مجھے وہ اختیار ہے اس کے بعد یسوع نے اس مفلوج آدمی سے کہا اٹھ اور تو اپنا بستر لیتے ہو ئے اپنے گھر کو چلا جا۔ “ 7 تب وہ آدمی اٹھا اور گھر کو چلا گیا۔ 8 لوگ اس بات کو دیکھ کر خوف زدہ ہو گئے۔لوگ خدا کی تعریف کر نے لگے کہ اس نے لوگوں کو یہ اختیار دیا۔ 9 یسوع جب جا رہا تھا تو اس نے متی نام کے ایک آدمی کو محصول کے دفتر میں بیٹھا دیکھا۔ تب یسوع نے اس سے کہا ،”تو میرے پیچھے ہو لے “پھر متی اٹھا اور یسوع کے پیچھے ہو لیا۔ 10 یسوع متی کے گھر میں کھا نا کھا نے بیٹھ گئے۔ کئی محصول وصول کرنے والے اور برے لوگ بھی یسوع اور انکے شاگردوں کے ساتھ کھا نا کھا نے بیٹھ گئے۔ 11 فریسیوں نے دیکھا کہ یسوع ان لوگوں کے ساتھ کھا نا کھا رہے ہیں۔فریسیوں نے یسوع کے شاگردوں سے پوچھا،” تمہارا استاد محصول وصول کرنے والوں اور گنہگاروں کے ساتھ کھا نا کیوں کھا تا ہے ؟” 12 جو کچھ فریسیوں نے کہا یسوع نے سن لیا اور ان سے کہا، “صحت مند لوگوں کے لئے کسی حکیم کی ضرورت نہیں صرف بیماروں کے لئے ہی طبیب چاہئے۔ 13 تم جاؤ اور کہو کہ مجھے قربانی نہیں چاہئے بلکہ صرف رحم و کرم چاہئے۔ جس طرح الہامی صحیفوں میں لکھا ہوا ہے۔ اس جملہ کے معنی سیکھ لو۔ میں نیک راستبازوں کو دعوت دینے نہیں آیا ہوں”۔ بلکہ صرف گنہگاروں کو بلا نے کے لئے آیا ہوں” 14 تب یوحناّ کے شاگرد یسوع کے پا س آ ئے۔وہ یسوع سے پو چھنے لگے” ہم اور فریسی اکثر روزہ رکھتے ہیں۔ لیکن تیرے شاگرد کیوں روزہ نہیں رکھتے ؟” 15 یسوع نے ان سے کہا،” شا دی کے وقت دولہا کے ساتھ رہنے والے اس کے دوست احباب رنجیدہ نہیں ہو تے، لیکن ایک وقت وہ بھی آئے گا جس میں دولہا ان سے الگ کر دیا جا ئے گا۔ تب وہ روزہ رکھیں گے۔” 16 “پھٹے ہو ئے پرا نے کر تے میں نئے کو رے کپڑے کا پیوند کو ئی نہیں لگا تا ہے اگر کو ئی لگا تابھی ہے تو پیوند سکڑ کر کرتے سے الگ نکل جا تا ہے۔تب وہ کرتا اور بھی زیادہ پھٹ جا تا ہے۔ 17 اسکے علا وہ لوگ نئی مئے کو پرا نی مئے کی تھیلیوں میں نہیں رکھتے۔ کیوں کہ پرا نی تھیلیاں پھٹ جا تی ہیں۔ اور مئے بہہ جا تی ہے۔ اس وجہ سے لوگ ہمیشہ نئی مئے نئی تھیلیوں ہی میں بھرتے ہیں۔اور تب وہ دونوں محفوظ رہتے ہیں۔” 18 یسوع جب ان واقعات کو کہہ رہے تھے تب یہو دی عبا دت گاہ کا ایک عہدیدار اس کے پا س آیا اور اس کے سامنے جھک گیا اور کہا، ”میری بیٹی ابھی مر گئی ہے۔ اگر تو آکر اپنا ہاتھ اس پر رکھے تو وہ دوبارہ زندہ ہو جا ئے گی۔” 19 تب یسوع اٹھے اور سردار کے ساتھ چلے گئے اور اس کے ساتھ یسوع کے شاگرد بھی چلے۔ 20 وہا ں پر ایک ایسی بیما ر عورت تھی جس کو بارہ برس سے خون جاری تھا۔ وہ عورت یسوع کے پیچھے سے ان کے قریب آکر ان کے کرتے کے دامن کو چھو لی۔ 21 وہ عورت سوچنے لگی ،”اگر میں اس کا کرتا چھو لوں تو میں ضرور صحت یاب ہو جا ؤں گی۔” 22 یسوع نے اس عورت کو دیکھا اور کہا،” بیٹی تو اطمینان و سکون سے رہ اپنے ایمان کی وجہ سے ہی تو صحتیاب ہوئی “تب وہ تندرست ہو گئی۔ 23 تب یسوع سردار کے ساتھ آگے بڑھتا ہوا اس کے گھر میں چلا گیا۔ یسوع نے جنا زہ میں آئے ہوئے با جا بجا نے والوں کے گروہ کو اور رو نے والوں کو دیکھا۔ 24 یسوع نے کہا،” دور ہو جا ؤ کہ یہ لڑکی مری نہیں ہے بلکہ وہ سو رہی ہے “لیکن انہوں نے یسوع کا مذاق اڑا یا۔ 25 لوگو ں کو گھر سے باہر بھیج دینے کے بعد یسوع اس کمرے میں گیا جس میں لڑ کی تھی یسوع نے جب اس لڑکی کا ہاتھ پکڑا تو وہ اٹھ کھڑی ہو ئی۔ 26 خبر اطراف و اکناف کے علاقوں میں پھیل گئی۔ 27 یسوع جب وہاں سے لوٹ رہے تھے تو دو اندھے اس کے پیچھے ہو لئے۔ اور وہ زور سے پکارنے لگے ،”اے داؤد کے فرزند ہم پر رحم کر۔” 28 یسوع گھر کے اندر چلے گئے۔ اندھے آدمی بھی اس کے ساتھ چلے گئے۔ یسوع نے ان سے کہا ،”کیا تم یقین کرتے ہو کہ میں تمہیں شفاء دے سکتا ہوں ؟” اندھوں نے جواب دیا،”ہاں خدا وند ہم یقین رکھتے ہیں۔” 29 تب یسوع نے انکی آنکھیں چھو کر کہا،” جیسا تمہارا اعتقاد ہے ویسا ہی تمہارے ساتھ ہو۔” 30 فوراً ہی انکو بینائی آگئی۔ یسوع نے انہیں سختی سے تا کید کی کہ “یہ واقعہ کسی سے نہ کہنا۔” 31 لیکن وہ اندھے وہاں سے لو ٹے اور اس خبر کو اس علا قے کے چاروں طرف پھیلا دیئے۔ 32 جب وہ دونوں جا رہے تھے تو چند لوگ ایک شخص کو یسوع کے پاس لا ئے چونکہ اس پر بد روح کا سایہ تھا اس وجہ سے وہ گونگا ہو گیا تھا۔ 33 تب یسوع نے اس بد روح کو حکم دیا کہ وہ اسکو چھو ڑ کر چلا جائے۔ تب وہ بولنے لگا۔ لوگوں نے دیکھا تو تعجب میں پڑ گئے۔ اور کہنے لگے” اسرائیل میں ایسا کام ہم نے دیکھا ہی نہیں۔” 34 لیکن فریسی کہنے لگے کہ” یہ بدروحوں کے مالک و سردار کی قوت و طاقت سے بد روحوں کو چھڑاتا ہے۔” 35 یسوع نے تمام گاؤں اور شہروں کا دورہ کیا۔ اور یسوع نے انکی عبادت گاہوں میں تعلیم دیتے ہو ئے بادشاہت کے بارے میں خوشخبری سنائی تمام قسم کی بیماریوں کو شفاء بخشا۔ 36 تکلیف میں مبتلا ء بے سہارا لوگوں کے مجمع کو دیکھ کر یسوع غمگین ہوئے۔ وہ بغیر چرواہے کے بھیڑوں کی ریوڑ کی مانند ہے۔ 37 یسوع نے اپنے شاگردوں سے کہا،” فصل تو بہت زیادہ ہے لیکن مزدور کم ہیں۔ “ 38 اور اس نے کہا کہ “فصل کا مالک خدا ہے۔ اس لئے فصل کےمالک سے درخواست کرو کہ فصل کاٹنے کے لئے زیادہ مزدور بھیج دے۔”

10:1 یسوع اپنے بارہ شاگردوں کو ایک ساتھ جمع کرکے ان کو اس بات کا اختیار دیا کہ وہ بد روحوں کو چھڑا ئے اور ہر قسم کی بیماری سے شفاء دے۔ 2 ان بارہ رسولوں کے نام اس طرح ہیں: 3 فلپس اور برتلمائی، 4 قوم پرست شمعون قتانی، 5 یسوع ان بارہ رسولوں کو چند احکامات دیکر اور بادشاہت سے متعلق لوگوں کو معلومات فراہم کر نے کے لئے بھیج دیا۔ اور یسوع نے ان سے جو کہا وہ یہ کہ” غیر یہودیوں کے پاس اور ان شہروں میں نہ جانا جہاں سامری رہتے ہوں۔ 6 بلکہ اسرائیل کے پاس جاؤ جو کھو ئی ہو ئی بھیڑوں کی طرح ہے۔ 7 اور انکو منا دی کرو جنت کی بادشاہت قریب آرہی ہے۔ 8 بیماروں کو شفاء دو۔ اور مردوں کو جلا دو۔ اور کو ڑھیوں کو صحت دو۔ اور لوگوں کو بد روحوں سے چھڑا ؤ۔ میں یہ تمام اختیارات تمہیں آزادانہ دے رہا ہوں۔ اسلئے تم غیروں کی بے لوث خدمت کرو۔ 9 تم روپیہ پیسہ یا تانبا،چاندی یا سونا کو ئی بھی چیز اپنے ساتھ نہ لے جا نا۔ 10 کو ئی تھیلی بھی نہ لے جانا۔ اپنے سفر کے لئے صرف پہننے کے کپڑے اور جو تے لے جانا۔ اپنے ساتھ اپنا عصا بھی نہ لے جانا۔ ایک مزدور کو صرف وہی دینا چاہئے جس کی اسے ضرورت ہو۔ 11 “جب تم کسی گاؤں میں یا کسی شہر میں داخل ہو تو کسی اچھے با اثر شخصیت کو ڈھونڈو اور تم اس جگہ کو چھو ڑ نے تک اسی کے گھر میں قیا م کرو۔ 12 جب تم اس گھر میں داخل ہو تو ان سے کہو کہ سلامتی تم پر ہو۔ 13 اس گھر کے لوگ اگر تمہارا استقبال کریں تو وہ تمہاری دعائے خیر و سلامتی کے مستحق ہیں تو وہ سلامتی انہیں حاصل ہو۔ لیکن اگر وہ تمہیں خوش آمدید نہ کہیں تو تمہاری دعائے خیر کے مستحق نہیں ہیں اور تم پر ہی واپس لوٹے۔ 14 ایک گھر والے یا ایک گاؤں والے اگر تمہیں خوش آمدید نہ کہے یا تمہاری باتیں نہ سنے تو تم کو چاہئے کہ اس جگہ کو چھوڑنے سے پہلے اپنے پیروں میں لگی دھول وہیں پر جھاڑ دو۔ 15 میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ فیصلہ کے دن اس گاؤں کا حال سدوم اور عمورہ سے بھی زیادہ برا ہو گا 16 “سنو! میں تمہیں بھیڑوں کی طرح بھیڑیوں کے درمیان بھیج رہا ہوں۔ اس وجہ سے تم سانپوں کی طرح ہوشیار رہو۔ کبوتروں کی طرح کو ئی غلطی نہ کرو۔ 17 لوگوں کے بارے میں باخبر رہو۔ تم کو وہ قید کرکے عدالت میں حاضر کردیں گے۔ وہ اپنی یہودی عبادت گاہوں میں تم پر درّے برسائیں گے۔ 18 وہ تم کو حاکموں اور بادشاہوں کے سامنے پیش کریں گے۔میری وجہ سے لوگ تمہارے ساتھ ایسا ہی کریں گے۔ لیکن تم ان بادشاہوں اور حاکموں اور غیر یہودی لوگوں کو میرے بارے میں کہو گے۔ 19 جب تم قید کئے جاؤ تو اس بات کی فکر نہ کرو کہ کس طرح گفتگو کریں، اور تمہیں کیا کہنا چاہئے وہ سب باتیں تمہیں اس وقت عطا ہونگی۔ 20 حقیقت میں کلام کر نے والے تم نہ ہو گے۔ بلکہ تمہارے باپ کی روح ہی تمہارے ذریعے بات کریگی۔ 21 حقیقی بھا ئی اپنے حقیقی بھا ئی کے خلاف ہو جائیگا اور اسکو موت کی سزا کے حوالے کریگا۔باپ اپنی ہی اولاد کو موت کی سزا کے حوالے کریں گے۔اور اولاد والدین کے خلاف کھڑے ہو کر انہیں موت کی سزا کے حوالے کریں گے۔ 22 کیوں کہ تم میری پیروی کرتے ہو اس وجہ سے سب لوگ تم سے نفرت کریں گے۔ لیکن آخری وقت تک صبر کرنے والا ہی نجات پا ئیگا۔ 23 اگر کسی ایک گاؤں میں تم پر ظلم و زیادتی ہو تو دوسرے گاؤں چلے جاؤ۔ میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ ابن آدم دوبارہ آنے سے پہلے تم اسرائیل کی تما م آبادیوں میں گزرنے بھی نہ پاؤگے۔ 24 “شاگرد اپنے استاد سے بہتر نہ ہوگا۔ اور نہ ہی نوکر اپنے مالک سے بہتر ہوگا۔ 25 شاگرد کے لئے یہ کا فی ہوگا کہ وہ اپنے استاد جیسا بنے۔ اور نوکر کے لئے یہ کا فی ہوگا کہ وہ اپنے مالک جیسا بنے۔ اگر خاندان کے صدر ہی کو ابلیس کے نام سے پکا را جائے تو کیا خاندان کے دیگر افراد کو اور زیادہ برے ناموں سے پکا را نہ جا ئے گا۔ 26 “اس وجہ سے لوگوں سے نہ ڈرو۔ کیوں کہ ہر وہ چیز جو پوشیدہ ہے وہ ظا ہر ہو جائیگی۔ 27 میں اندھیرے میں یہ تمام واقعات تم سے کہہ رہا ہوں لیکن میری یہ آرزو وتمنّا ہے کہ تم ان واقعات کو دن کے اجالے میں کہو۔ میں یہ ساری باتیں تم سے آہستگی کے ساتھ کہہ رہا ہوں۔ مگر ان باتوں کو تم لوگوں کو آواز سے سناؤ۔ 28 تم لوگوں سے نہ گھبراؤ۔کیوں کہ وہ تو صرف جسم کو مار سکتے ہیں لیکن روح کو مار نہیں سکتے۔ بلکہ خدا سے ڈرو جو روح اور جسم کو جہنم میں نیست و نابود کر سکتا ہے۔ 29 بازار میں ایک سکّہ میں دو چڑیوں کو بیچتے ہیں۔ لیکن تمہارے باپ کی اجازت کے بغیر ان میں کو ئی ایک بھی نہیں مرتی۔ 30 تمہارے سر میں کتنے بال ہیں خدا کو اسکا بھی علم ہے۔ 31 اس لئے خوف نہ کرو۔ کیوں کہ تم کئی چڑیوں سے بھی بہت زیادہ قیمتی ہو۔ 32 “اگر کو ئی شخص لوگوں کے سامنے یہ کہے کہ وہ مجھ پر ایمان رکھتا ہے تو میں بھی اپنے باپ کے سامنے جو آسمانوں میں ہے اس کو اپنا بتاؤں گا۔ 33 اگر کو ئی شخص لوگوں کے سامنے یہ کہے کہ میں اسکا نہیں ہوں تو میں بھی آسمانوں میں رہنے والے اپنے باپ سے یہ کہونگا کہ یہ آدمی میرا نہیں ہے۔ 34 “تم یہ نہ سمجھو کہ میں دنیا میں امن قائم کرنے کے لئے آیا ہوں بلکہ تلوار چلا نے کے لئے آیا ہوں”۔ 35 اس کو پو را کرنے کے لئے آیا ہوں: 36 37 اگر کو ئی شخص میری محبت سے بڑھکر اپنے باپ یا اپنی ماں سے محبت کرتا ہے تو وہ میری پیروی کر نے کے لا ئق نہ ہو گا۔ اور جو کو ئی میری محبت سے بڑھکر اپنے بیٹے سے یا اپنی بیٹی سے محبت کرے تو وہ بھی میرا پیرو کہلا نے کا مستحق نہ ہو گا۔ 38 جو کو ئی اس کو دی جا نے والی صلیب کو قبول کر نے کا خواہشمند نہ ہو تو وہ میرا متبّع ہو نے کے لا ئق نہ ہو گا۔ 39 میری محبت سے بڑھکر جو کو ئی اپنی جان سے محبت کرتا ہے وہ اس کو کھو دیتا ہے میری خاطر جو کو ئی اپنی جان کو کھو دیتا ہے تو وہ اس کو پا ئیگا۔ 40 جو تمہیں قبول کرنے والا ہے وہ مجھے بھی قبول کرنے والا ہے جو مجھے قبول کرنے والا ہے وہ مجھے بھیجنے والے خدا کو بھی قبول کر تا ہے۔ 41 نبی کو نبی سمجھ کر قبول کریگا گویا وہ نبی کا اجر پائے گا۔ حق کو سچا جان کر اس کو قبول کر نے والا گو یا اس حق کو ملنے والے حق کا وہ حقدار ہوگا۔ 42 غریب مفلس کو جو کہ میرا پیرو کار ہے اگر کو ئی مناسب امداد کرے تو وہ یقیناً اسکا اجر پا ئیگا۔ میری پیروی کرنے والوں کو اگر کو ئی ایک پیا لہ ٹھنڈا پانی ہی پلا ئے تو وہ ضرور اسکے اجر کا حقدار ہو گا”۔

11:1 یسوع اپنے بارہ شاگردوں سے ان واقعات کو سنا نے کے بعد ہدایات دینا ختم کیا۔ تبلیغ اور منادی کر نے کے لئے وہ گلیل کے قصبوں میں چلے گئے۔ 2 یوحنا بپتسمہ دینے والے قید میں تھے۔انکو ان چیزوں کے متعلق معلوم ہوا جو مسیح کر رہے تھے۔ اس لئے یوحنا نے اپنے چند شاگردوں کو یسوع کے پاس بھیج دیا۔ 3 یوحنا کے شاگرد یسوع سے پو چھنے لگے کہ “کیا وہ آنے والا آپ ہی ہیں یا ہم کسی دوسرے آنے والے کے انتظار میں رہیں”۔ 4 اس کا جواب یسوع نے دیا” تم نے جن واقعات کو یہاں سنا اور دیکھا ہے تم جاؤ اور ان سب باتوں کی اطلاع یوحنا کو دو۔ 5 اندھے نظر کو پا لیتے ہیں اور لنگڑے اچھی طرح چلنے پھر نے کے قابل ہو جا تے ہیں اور کو ڑھی بھی شفاء پا لیتے ہیں اور بہرے سننے کے قا بل بن جاتے اور مردوں کو دوبارہ زندگی ملتی ہے۔ اور غریبوں کو خوشخبری سنائی جاتی ہے۔ 6 جو کو ئی مجھے قبول کر لیتا ہے تو وہ متبّرک ہو جا تا ہے”۔ 7 جب یوحنا کے شاگرد لوٹ رہے تھے تو یسوع لوگوں سے یوحنا کے بارے میں باتیں کر نے لگے۔یسوع نے ان سے کہا،” تم کیا دیکھنے کے لئے بیابان گئے تھے ؟ کیا ہوا سے ہلنے والے سر کنڈے ؟ نہیں ! 8 تو پھر حقیقت میں تم کیا دیکھنے گئے تھے ؟ کیا جاذب نظر لباس میں ملبوس آدمی کو نہیں ! نئے اور قیمتی پوشاک پہننے والے لوگ تو بادشاہوں کے محلوں میں رہتے ہیں۔ 9 تو پھر تم کیا دیکھنے گئے تھے ؟ کیا ایک نبی کو ؟ میں تم سے کہتا ہوں کہ یوحنا نبی سے بڑھکر ہے۔ 10 یوحنا کے بارے میں صحیفوں میں اسطرح لکھا ہوا ہے: 11 یوحنا بپتسمہ دینے والے پہلے جو گزرے ہیں ان سے بڑا ہے۔ میں تم سے سچ کہتا ہوں” کہ آسمانی بادشاہت میں رہنے والا چھو ٹا بھی یوحنا سے بڑا ہی ہو گا۔ 12 بپتسمہ دینے والا یوحنا جب سے آیا ہے تب سے آسمانی بادشاہت طاقت ور حملوں کا شکار ہو ئی ہے۔ لوگ قوت کا استعمال کرکے حکومت کو حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ 13 تمام نبیوں اور موسٰی کی شریعت میں یوحنا کے آنے تک آسمانی بادشاہت کے بارے میں پہلے ہی بتا دیا تھا۔ 14 شریعت اور نبیوں نے جو بات کہی ہے اس پر اگر تم ایمان رکھتے ہو کہ یوحنا، ایلیاہ ہے۔ اس کے آنے کے بارے میں شریعت اور نبیوں نے بھی خبر دی ہے۔ 15 اے لوگو! میں جو بات بتاتا ہوں اس کو سنو اور توجہ دو. 16 میں اس دور کے لوگوں کے بارے میں کیا بتاؤں ؟انکا مقابلہ کس سے کروں اسلئے کہ اس دور کے لوگ بازاروں میں بیٹھے ہو ئے بچوں کی طرح ہو نگے۔ جب کہ ایک گروہ کے بچّے دوسرے گروہ کے بچوں سے اس طرح کہیں گے: 17 ہم نے تمہارے لئے ایک باجا بجایا۔ 18 میں تم سے کہتا ہوں کہ آج کے لوگ ان بچوں کی طرح ہیں۔ کیوں کہ یوحنا آ گیا ہے مگر وہ دوسرے لوگوں کی طرح کھانا نہیں کھا یا اور مئے نہ پی لیکن لوگ اسکے بارے میں کہتے ہیں کہ اس پر بد روح کے اثرات ہیں۔ 19 ابن آدم آ گیا ہے وہ دوسرے لوگوں کی طرح کھا نا کھا تا ہے اور مئے بھی پیتا ہے۔ اور لوگ کہتے ہیں کہ دیکھو! وہ پیٹو ہے۔ اور وہ مئے خور ہے۔ محصول وصول کرنے والے دیگر اور برے لوگ ہی اس کے دوست و احباب ہیں۔ لیکن حکمت ہی اپنے کاموں سے اپنی صلاحیت کو ظا ہر کرتی ہے-” 20 تب یسوع نے جن شہروں میں اپنے معجزے اورنشا نیا ں دکھا ئی تھی ان شہروں کی ملا مت اور مذمت کر نے لگا۔ کیوں کہ ان شہرو ں کے لوگوں نے اپنی زندگی میں کوئی تبدیلی نہ لا ئی اور نہ گناہ کے کا موں سے اپنے آپ کو روک سکے۔ 21 یسوع نے خرا زین سے مخا طب ہو کر کہا،” اے خرا زین والو! افسوس ہے تم پر میں تمہا رے کس انجام کو بتا ؤں؟ اور اے بیت صیدا! تمہا را بھی کیا انجام بتا ؤں افسوس ہے تم پر بہت سے معجزات بتا یا ہوں۔ اگر وہ غیر معمو لی کام اور معجزے صور اور صیدا میں ہو تے تو ان کے رہنے والے ایک عرصہ پہلے ہی اپنی زندگیوں میں انقلاب لا ئے ہوتے اور اپنے کئے ہوئے کامو ں پرپچھتا تے ہوئے ٹا ٹ کا ٹکڑا اوڑھ لیتے اوراپنے سر پر راکھ ڈال لیتے۔ 22 میں تم سے کہتا ہو ں کہ فیصلہ کے دن صور اور صیدا سے بڑھ کر تمہا ری حا لت بد تر ہو گی۔ 23 اے کفر نحوم! کیا تو جنت میں اٹھا ئے جا نے کے با رے میں غور و فکر بھی کرتا ہے ؟ نہیں، بلکہ تو عالم ارواح میں اترے گا۔ میں نے تجھے بے شمار معجزات بتا ئے اگر سدوم میں ان معجزات کو دکھا تا تو یقیناً وہ لوگ گناہ کے کاموں سے بچ جا تے اور آج تک وہ بحیثیت شہر ہی بچا رہتا۔ 24 میں تم سے کہتا ہوں کہ فیصلہ کے دن تمہا ری حا لت سدوم سے بھی زیادہ بد تر ہوگی۔” 25 تب یسوع نے کہا اے” زمین و آسمان کے خدا وند” اور باپ میں تیرا شکر ادا کر تاہوں۔میں تیری تعریف کرتا ہوں۔ کیوں کہ تو نے ان واقعات کو داناؤں اور عقلمندوں سے چھپا ئے رکھا۔ لیکن ان لوگوں پر تو ظاہر کردیاہے جو کہ چھوٹے بچوں کی طرح ہیں۔ 26 ہاں میرے باپ حقیقت میں یہ تیری مرضی اور پسند ہو نے کی وجہ سے تو نے ایسا کیا ہے۔ 27 “میرے باپ نے مجھے ہر چیز عطا کی ہے۔ کو ئی بھی بیٹے کو نہیں جانتا۔ صرف باپ ہی اپنے بیٹے کو اچھی طرح جانتا ہے۔ اور کو ئی شخص باپ کو نہیں جانتا بیٹا ہی صرف باپ کو جانتا ہے۔ بیٹا باپ کو جس پر ظا ہر کر نے کی خواہش کر تا ہے تو وہی اپنے باپ کو پہچان لیتے ہیں۔ 28 اے محنت مشقت کر نے والو! اور وزنی بوجھ اٹھا نے والو تم سب میرے پاس آ جا ؤ۔ میں تمہیں آرام پہنچا ؤں گا۔ 29 میرے جوئے کے کندھے دیتے ہو ئے مجھ سے باتیں سیکھو۔ میں شریف اور خاکسارہوں۔ اور تم اپنی جانوں کے لئے تشفی پا ؤگے۔ 30 ہاں! جو کام میں تم سے قبول کر نے کے لئے کہتا ہوں آسان ہے۔ تمہیں اٹھا نے کے لئے جو بوجھ دے رہا ہوں وہ وزنی نہیں ہے۔”

12:1 وہ سبت کا دن تھا یسوع اناج کے کھیتوں کی راہ سے چل کر جا رہے تھے۔ اور یسوع کے شاگرد اسکے ساتھ تھے اور وہ بھو کے تھے۔جس کی وجہ سے شاگرد بالیاں توڑ کر کھا نے لگے۔ 2 جب فریسیوں نے دیکھا تو یسوع سے کہنے لگے دیکھ سبت کے دن کئے جانے والے تما م کام جن کے بارے میں شریعت میں بتا ئے گئے احکامات کے خلاف ہیں اور اسے تیرے شاگرد کر رہے ہیں۔ “ 3 اس پر یسوع نے کہا، ”جب داؤد اوراس کے ساتھ موجود لوگ بھو کے تھے، تب داؤد نے کیا کیا تم کو معلوم ہے ؟۔ 4 داؤد ہیکل کو چلا گیا۔ خدا کی نذر کی ہوئی روٹیاں داؤد نے کھا یااور اسکے ساتھیوں نے بھی کھا یا۔ جبکہ ان لوگوں کا ان روٹیوں کو کھا نا شریعت کے خلا ف تھا۔ اور اسکا کھا نا صرف کاہنوں کے لئے جا ئز تھا۔ 5 کیا تم نے شریعت موسٰی میں نہیں پڑھا کہ؟ ہر سبت کے دن کا ہن ہیکل کے اصولوں کے حلاف ورزی کرنے کے با وجود بے قصور کہلا تے ہیں۔ 6 لیکن ہیکل کے مقابلے میں افضل ترین انسان یہاں ہو نے کی بات میں تم کو بتاتا ہوں۔ 7 صحیفہ کہتی ہے کہ مجھے جانوروں کی قربانی نہیں چاہئے بلکہ مجھے رحم و کرم ہی چاہئے۔ اس لئے کہ اسکے حقیقی معنی تم نہیں جانتے۔ اگر تم اسکے معنی سے واقف ہو تے تو ان بے قصوروں کو تم قصور وار ہو نے کا فیصلہ نہ دیتے۔ 8 اور یہ کہا،” ابن آدم سبت کے دن کا خدا وند ہے۔” 9 یسوع اس جگہ کو چھو ڑ کر یہودیوں کی عبادت گاہ میں گئے۔ 10 یہودیوں کی اس عبادت گاہ میں ایک آدمی تھا جو ہاتھ سے معذور تھا۔ یہودیوں میں بعض وہ لوگ تھے جنہوں نے یسوع پر الزام دھر نے کیلئے وجہ تلاش کر نے لگے۔ اس وجہ سے انہوں نے یسوع سے پو چھا، “کیا سبت کے دن شفاء دینا درست ہے “؟ 11 یسوع نے ان سے کہا، “اگر تم میں سے کسی کے پاس ایک بھیڑ ہو اور وہ بھیڑ سبت کے دن ایک گڑھے میں گر جا ئے تو کیا تم اس بھیڑ کو اس گڑھے سے نہ نکا لو گے ؟ 12 یقیناً انسان اس بھیڑ سے کئی گنا بڑھکر عزت و قدر کے لا ئق ہے۔ اسلئے سبت کے دن اچھے اور نیکی کے کام کرنا موسٰی کی شریعت کے مطابق ہی ہے۔” 13 تب یسوع نے ہاتھ کے اس معذور آدمی سے کہا، “تو اپنا ہاتھ دکھا” تب اس آدمی نے اپنے ہاتھ کو اسکی طرف آگے بڑھا یا۔ فوراً اسکا ہاتھ دوسرے ہاتھ کی طرح ٹھیک ہو گیا۔ 14 تب فریسی چلے گئے اور یسوع کو قتل کرنے کی تدبیریں کر نے لگے۔ 15 فریسیوں سے کی جا نے والی تدبیر کا یسوع کو علم تھا۔ اس وجہ سے یسوع اس جگہ کو چھو ڑ کر چلے گئے۔ جب کئی لوگ اس کی پیروی کر نے لگے۔ اور اس نے تمام بیماروں کو شفاء دی۔ 16 انہوں نے لوگوں کو تاکید کی کہ میں کون ہو ں یہ بات کسی سے نہ کہیں۔ 17 یسعیاہ نبی کی کہی ہوئی بات پو ری ہو نے کے لئے یسوع نے یہ سب کیا۔ یسعیاہ نے جو کہا ہے وہ یہ ہے : 18 “یہ تو میرا خادم ہے۔ 19 نہ یہ جھگڑا کریگا اور نہ چیخ و پکار کریگا۔ 20 وہ نہ تو جھکے ہوئے سر کنڈے کوتوڑیگا۔ 21 اور تمام لوگ اس پر امید کریں گے-” 22 تب ایسا ہوا کہ چند لوگ ایک آدمی کو یسوع کے پاس لا ئے وہ بد روح کے اثرات کی وجہ سے اندھا اور گونگا ہوگیا تھا۔ یسوع نے اس شخص کو شفاء بخشی اور وہ دیکھنے اور بولنے لگا۔ 23 لوگ حیران ہو گئے۔ اور آپس میں باتیں کر نے لگے” کیا یہ آدمی ابن داؤد ہو سکتا ہے ؟ 24 لوگوں کی آپسی بات چیت سن کر فریسیوں نے کہا” یسوع بعلزبول کی قوت کے ذریعہ لوگوں کو بد روحوں سے نجات دلاتا ہے۔ بعلزبول بدروحوں کا سردار ہے۔” 25 فریسی جن واقعات پر غور کرتے تھے وہ یسوع کو معلوم تھا جس کی وجہ سے یسوع نے ان سے کہا، “جس حکو مت میں آپسی اختلا فات ہوں وہ تباہ و برباد ہو جا تی ہے۔ داخلی اختلافات سے پھوٹ کا شکار ہو نے والا شہر اور خاندان قائم اور دیر پا ثابت نہ ہو گا۔ 26 ایسی صورت میں اگر شیطان ہی بد روحوں کو اپنے آپ سے باہر بھگا دے تو گویا وہ اپنے آپ ہی میں اختلافات پیدا کریگا۔ اور اسکی سلطنت ہمیشہ کے لئے قائم نہیں ہو سکے گی۔ 27 تم کہتے ہو کہ میں شیطان بعلزبول کی قوت سے بد روحوں کو نکا لتا ہوں اگر یہ بات حقیقت پر مبنی ہو تو تمہا رے لوگ کس کی قوت سے بد روحوں سے نجات دلا تے ہیں۔ جن کی وجہ سے تمہا رے اپنے خاص لوگ ہی یہ ثابت کریں گے کہ تم غلط ہو۔ 28 لیکن میں خدا کی روح کی قوت کے ذریعہ بد روحوں کو نکا لتا ہوں۔ اور اس بات سے اس حقیقت کا پتہ چلتا ہے کہ خدا کی بادشا ہت تمہا رے پاس آئی ہے۔ 29 “اگر کو ئی طاقتور و توا نا کے گھر میں گھس کر اس کے ما ل اسباب کو چرا تا ہے تو پہلے اس کو چاہئے کہ وہ اس مضبوط وتوانا شخص کو کس کر باندھے۔تب کہیں جا کر اس کے لئے طا قتور شخص کے گھر کے ما ل و اسباب کا چرانا ممکن ہو سکے گا۔ 30 “جو میرا ساتھی نہیں ہے وہ میرا مخالف ہو گیا ہے۔ اور میرے ساتھ جو ذخیرہ کر نے والا نہیں ہے وہی بکھیرنے اور منتشر کر نے والا ہو تا ہے۔ 31 ان تمام باتوں کی بنیا د پر میں تم سے کہتا ہوں کہ لوگوں سے سر زد ہو نے والا ہر گناہ اور کہی جا نے والی ہر بات کی برائی اور الزام کے لئے معا فی ہے۔ اس کے بر خلاف مقدس روح سے گستاخی کے لئے معا فی ہر گز نہیں۔ 32 ابن آدم کی مخالفت میں اگر کو ئی کہتا ہے تو اسکے لئے معا فی ہے لیکن مقدس روح کی مخالفت میں اگر کو ئی لبوں کو جنبش دے تو اس کے لئے نہ اس دنیا میں اور نہ آنے والی دنیا میں کو ئی معافی ہے۔ 33 “اگر تمہیں عمدہ میوہ چاہئے تو اچھے قسم کا درخت لگا نا ہو گا۔ اگر اچھے قسم کا درخت نہ ہو تو وہ نا کا رہ اور خراب پھل ہی دیگا اور اس میں آنے والے پھل ہی سے اسکو پہچا نا جا سکتا ہے۔ 34 تم سب سانپ ہو ! اور تم سب ظالم ہو تو ایسے میں تم کیوں کر اچھی بات کہہ سکو گے ؟ تمہارا دل جن باتوں سے بھرا ہوا ہے تمہاری زبان وہی بات کریگی۔ 35 ایک شریف النفس آدمی اپنے دل میں نیک اور اچھی باتوں ہی کو جگہ دیتا ہے۔ اس وجہ سے وہ اپنے دل سے نکلنے والی اچھی باتوں کو ہی بولتا ہے۔ لیکن ایک وہ شخص جو برا اور ظالم ہو تو وہ اپنے دل میں صرف برائیوں ہی کا ذخیرہ کر تا ہے۔ اس وجہ سے وہ وہی بری باتیں زبان سے نکا لے گا جو اسکے دل سے نکلتی ہیں۔ 36 اور میں تم سے کہتا ہوں کہ لوگ غفلت اور لا پر واہی سے جو باتیں کر تے ہیں انکو انصاف اور فیصلہ کے دن ہر بات کی جواب دہی ہو گی۔ 37 تمہارے ہی الفاظ تمہیں راستباز ثابت کر نے کے لئے استعمال ہونگے۔ تمہاری باتوں ہی سے تمہارا نیک اور راست باز اور گنہگار قصور وار ہو نے کا فیصلہ کیا جائیگا-” 38 تب چند فریسی اور معلمین شریعت نے یسوع سے کہا، “اے ہمارے استاد تو نے جن باتوں کو کہا ہے انکو ثابت کرنے کے لئے ایک معجزہ پیش کر۔” 39 یسوع نے کہا،” برے اور گنہگار لوگ معجزہ کو دیکھنے کی آرزو کر تے ہیں۔ لیکن ان کے لئے کوئی معجزہ دکھایا نہ جا ئے۔ سوائے جو نبی یوناہ( یونس) پر ظا ہر کیا گیا تھا۔ 40 “جس طرح یوناہ نبی مسلسل تین دن اور تین رات ایک بڑی مچھلی کے پیٹ میں رہے ٹھیک اسی طرح ابن آدم بھی مسلسل تین دن اور تین رات قبر میں رہے گا۔ اس کے علا وہ انکو اور کو ئی نشانی نہ دکھائی جائیگی۔ 41 حق و انصاف کے فیصلہ کے دن شہر نینوہ کے لوگ تمہارے ساتھ کھڑے ہو ئے زندہ لوگوں کے بارے میں مجرم ہو نے کا اعلان کریں گے۔ کیوں کہ یوناہ جب تبلیغ کر تا تھا تو وہ اپنی زندگی میں تبدیلی لا ئی تھی۔ لیکن میں تم سے کہتا ہوں میں یوناہ سے زیادہ مقدم ہوں۔ 42 انصاف و فیصلہ کے دن جنوبی علا قے کی ملکہ تم سب کے ساتھ اٹھ کھڑی ہو گی اور تم سب کو قصور وار ٹھہرائے گی۔کیوں کہ وہ ملکہ سلیمان کی حکمت کی تعلیم سننے کے لئے بہت دور سے آئی تھی۔ اور میں سلیمان سے زیادہ مقدم ہوں۔ “ 43 “بری روح جب آدمی سے باہر آتی ہے اور آرام و سکون پا نے کے لئے جگہ کی تلاش کر تی ہو ئی پا نی نہ پا ئے جا نے والی خشک سوکھی جگہ پر سفر کرتی ہے۔ تب بھی اس بری روح کو سکون پا نے کے لئے کو ئی جگہ نہیں ملتی۔ 44 تب وہ روح کہیگی کہ میں پہلے جس گھر کو چھو ڑ کر آئی ہوں اب پھر دوبارہ اس گھر کو جاؤں گی۔ جب پھر روح دوبارہ اسکے پاس آئیگی تو وہ گھر خالی رہیگا صاف ستھرا جھاڑو دیا ہوا اور آراستہ و پیراستہ کیا ہوا ہو گا۔ 45 تب وہ بری روح باہر جا کر خود سے زیادہ سخت ظالم سات بری روحوں کو ساتھ لئے ہوئے آتی ہے۔ پھر وہ روحیں اس آدمی میں گھس کر رہنے لگتی ہیں۔ اور اس آدمی کو پہلے کے مقابلے میں مزید مصائب کا سامنا کر نا ہوگا اور کہا کہ اس زمانہ میں ظالم اور برے لوگوں کا حشر بھی اسی طرح ہو گا۔ “ 46 یسوع جب لوگوں سے باتیں کر رہے تھے تب اسکی ماں اور اسکا بھا ئی باہر آکر کھڑے ہو گئے اور وہ اس سے باتیں کر نا چاہتے تھے۔ 47 کسی نے یسوع سے کہا، “آپکی ماں اور بھا ئی آپکے لئے باہر انتظار میں کھڑے ہیں اور وہ آپ سے باتیں کر نا چاہتے ہیں۔” 48 یسوع نے اس آدمی کو جواب دیا،” میری ماں کون ؟ اور میرے بھا ئی کون ؟” 49 اپنے شاگردوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا،” دیکھو یہی میری ماں اور یہی میرے بھا ئی ہیں۔” 50 آسمانوں میں رہنے والے میرے باپ کی مرضی کے مطا بق زندگی گزارنے والا ہی حقیقی معنوں میں میرا بھائی ہو گا اور کہا کہ وہی میری ماں اور میری بہن بھی ہو گی۔”

13:1 اسی دن یسوع گھر سے نکل کر جھیل کے کنارے جاکر بیٹھ گئے۔ 2 اور کئی لوگ یسوع کے اطراف جمع ہو گئے۔ تب یسوع کشتی میں جا بیٹھے اور تمام لوگ جھیل کے کنارے کھڑے تھے۔ 3 تب یسوع نے تمثیلوں کے ذریعہ کئی چیزیں انہیں سکھا ئیں۔ اور یسوع انکو یہ تمثیل دینے لگے کہ 4 جب وہ تخم ریزی کررہا تھا تو چند بیج راستے کے کنارے پر گرے۔ اور پرندے آکر ان تمام بیجوں کو چگ گئے۔ 5 چند بیج پتھریلی زمین میں گر گئے۔ اس زمین میں زیا دہ مٹی نہ ہو نے کے وجہ سے بیج بہت جلد اگ آئے۔ 6 لیکن جب سورج ابھرا، اس نے پودوں کو جھلسا دیا۔ تو وہ اُگے ہوئے پو دے سوکھ گئے۔ اس لئے ان کی جڑیں گہرا ئی تک نہ جا سکیں۔ 7 دیگر چند بیج خا ر دار جھا ڑیوں میں گر گئے۔اور وہ خا ر دار جھا ڑیوں نے ان کو دبا کر ان اچھے بیجوں کی فصل کو آگے بڑ ھنے سے روک دیا۔ 8 دوسرے چند بیج اچھی زر خیز زمین میں گر گئے۔ اور وہ نشو نما پا کر ثمر آور ہوئے بعض پودے صد فیصد بیج دیئے ،اور بعض پودے ساٹھ فیصد سے زیادہ اور بعض نے تیس فیصد سے زائد بیج دئیے۔ 9 میری باتوں پر کان دھر نے والے لوگوں نے ہی غور سے سنا۔” 10 تب شاگرد یسوع کے پا س آکر پوچھنے لگے” آپ تمثیلوں کے ذریعہ لو گوں کو کیوں تعلیم دیتے ہیں؟”۔ 11 یسوع نے کہا، “خدا کی بادشاہت کی پو شیدہ سچا ئی کو سمجھنے کی صرف تم میں صلا حیت ہے۔ اور ان پوشیدہ سچا ئی کو دیگر لوگ سمجھ نہیں پاتے 12 جس کو تھوڑا علم و حکمت دی گئی ہے وہ مزید علم حا صل کر کے علم و حکمت وا لا بنے گا۔ لیکن جو علم وحکمت سے عا ری ہو گا۔ وہ اپنے پاس کا معمو لی نام علم بھی کھو دے گا۔ 13 اسی لئے میں ان تمثیلوں کے ذریعہ لو گوں کو تعلیم دیتا ہوں۔ ان لوگوں کا حا ل یہ ہے کہ یہ دیکھ کر بھی نہیں دیکھنے کے برا بر اور سن کر بھی نہ سننے کے برا بر ہیں۔ 14 ایسے لو گو ں کے بارے میں یسعیاہ نے جو کہا وہ سچ ہوا: 15 ہاں ان لوگوں کے ذہن کند ہو گئے ہیں اور کان بہرے ہو گئے ہیں اور آنکھوں کی روشنی ماند پڑ گئی ہے۔ 16 تم تو قابل مبارک باد ہو۔ اپنے سامنے نظر آنے والے واقعات اور سنے جانے والے حالات کو اچھی طرح سمجھ سکتے ہو۔ 17 میں تم سے سچ کہتا ہو ں کہ جو کچھ تم ابھی دیکھتے ہو اسے بہت سارے نبی اور بہت سارے راستباز لوگ دیکھنے کے خواہشمند تھے۔ لیکن انہوں نے کبھی نہیں دیکھا۔ اور کئی نبیوں اور نیک لوگوں نے وہ باتیں سننی چاہیں جو تم سن رہے ہو لیکن انہوں نے کبھی نہیں سنیں 18 “ایسی صورت میں کسان کے متعلق کہی گئی تمثیل کے معنی سنو۔ 19 سڑک کے کنارے میں گر نے والے بیج سے مرا د کیا ہے ؟راستے کے کنارے گرے بیج اس آدمی کی مانند ہیں جو آسمانی بادشاہت کے متعلق تعلیمات کو سن رہا ہے لیکن سمجھ نہیں رہا ہے۔ اسکو نہ سمجھنے والا انسان ہی راستے کے کنارے گرے ہو ئے بیج کی طرح ہے۔ برا شخص آکر اس آدمی کے دل میں بوئے گئے بیجوں کو نکال کر باہر پھینک دیتا ہے۔ 20 اور پتھریلی زمین میں گرے ہو ئے بیج سے مراد کیا ہے ؟ وہ بیج اس شخص کی مانند ہے جو بخوشی تعلیمات کو سنتا ہے اور ان تعلیمات کو بخوشی فوراً قبول کر لیتا ہے۔ 21 لیکن وہ آدمی جو کلام کو اپنی زندگی میں مستحکم نہیں بنا تا اور وہ اس کلام پر ایک مختصر وقت کے لئے عمل کرتا ہے۔ اور اس کلام کو قبول کر نے کی وجہ سے خود پر کو ئی تکلیف یا مصیبت آتی ہے تو وہ اسکو جلد ہی چھوڑ دیتا ہے۔ 22 “خار دار جھا ڑیوں کے بیچ میں گر نے والے بیج سے کیا مراد ہے تعلیم کو سننے کے بعد زندگی کے تفکّرات میں اور دولت کی محبت میں تعلیم کو اپنے میں پر وان نہ چڑھا نے والا ہی خار دار زمین میں بیج کے گرنے کی طرح ہے۔یہی وجہ ہے کہ تعلیم اس آدمی کی زندگی میں کچھ پھل نہ دیگی۔ 23 اور کہا کہ اچھی زمین میں گرنے والے بیج سے کیا مراد ہے ؟تعلیم کو سن کر اور اسکو سمجھ کر جاننے والا شخص ہی اچھی زمین پر گرے ہو ئے بیج کی طرح ہو گا۔ وہ آدمی پر وان چڑھکر بعض اوقات سو فیصد اور بعض اوقات ساٹھ فیصد اور بعض اوقات تیس فیصد پھل دیگا-” 24 تب یسوع انکو ایک اور تمثیل کے ذریعہ تعلیم دینے لگے۔ وہ یہ کہ” آسمان کی بادشاہت سے مراد ایک اچھے بیج کو اپنے کھیت میں بونے والے ایک کسان کی طرح ہے۔ 25 اس رات جب کہ سب لوگ سو رہے تھے تو اسکا ایک دشمن آیا اور گیہوں میں گھاس پھوس کو بودیا۔ 26 جب گیہوں کا پو دا نشو نما پا کر دانہ دار بن گیا تو اسکے ساتھ گھا س پھوس کے پو دے بھی بڑھنے لگے۔ 27 تب اس کسان کے خادم نے اسکے پاس آکر دریافت کیا کہ تو اپنے کھیت میں اچھے دانوں کو بویا۔ مگر وہ گھاس پھوس کا پو دا کہاں سے آ گیا ؟ 28 اس نے جواب دیا، “یہ دشمن کا کام ہے تب ان خادموں نے پو چھا کہ کیا ہم جاکر اس گھاس پھوس کے پو دے کو اکھاڑ پھینکیں۔ 29 “اس آدمی نے کہا کہ ایسا مت کرو کیوں کہ تم گھاس پھوس کو نکالتے وقت گیہوں کو بھی نکال پھینکو گے۔ 30 فصل کی کٹا ئی تک گوکھر و دانے اور گیہوں دونوں کو ایک ساتھ اگنے دو۔ فصل کی کٹائی کے وقت میں مزدوروں سے کہتا ہو کہ پہلے گھا س پھوس بیجوں کو جمع کرو اور جلانے کے لئے ان کے گٹھے باندھ دو اور پھر اسکے بعد گیہوں کو یکجا کر کے اسکو میرے گودام میں رکھو-” 31 تب یسوع نے ایک اور تمثیل لوگوں سے کہی” آسما نی باد شاہت را ئی کے دا نے کے مشا بہ ہے۔ کسی نے اپنے کھیت میں اس کی تخم ریزی کی۔ 32 وہ ہر قسم کے دانوں میں بہت چھو ٹا دانہ ہے۔ اور جب وہ نشو نما پا کر بڑھتا ہے تو کھیت کے دوسرے درختوں سے لمبا ہو تا ہے۔ جب وہ درخت ہو تا ہے تو پرندے آکر اس کی شاخوں میں گھونسلے بناتے ہیں-” 33 پھر یسوع نے لوگوں سے ایک اور تمثیل کہی” آسما نی بادشاہت خمیر کی مانند ہے جسے ایک عورت نے روٹی پکا نے کے لئے ایک بڑے برتن جسمیں آٹا ہے اور اس میں خمیر ملا دی ہے۔ گو یا وہ پورا آٹا خمیر کی طرح ہو گیا ہے۔” 34 یسوع ان تمام باتوں کو تمثیلوں کے ذریعے بیان کر نے لگے۔ جب بھی وہ تعلیم وتلقین کر تے تو تمثیلوں کے ذریعہ ہی سمجھا تے۔ 35 نبی کی کہی ہو ئی یہ بات مع تمثیلوں کے اس طرح پو ری ہوئی: 36 تب یسوع لوگوں کو چھوڑ کر گھرچلے گئے۔ انکے شاگرد انکے قریب گئے اور ا ن سے کہا،” گو کھر و بیجوں سے متعلق تمثیل ہم کو سمجھا ؤ-” 37 یسوع نے جواب دیا ، اس طرح کھیت میں اچھے قسم کے بیجوں کی تخم ریزی کر نے وا لا ہی ابن آدم ہے۔ 38 کھیت یہ دنیا ہے۔ اچھے بیج ہی آسما نی بادشاہت میں شا مل ہو نے وا لے خدا کے بچے ہیں اور بر ے وبد کا روں سے رشتے رکھنے وا لے ہی وہ گو کھر وکے بیج ہیں۔ 39 کڑ وے بیج کو بو نے وا لا دشمن ہی وہ شیطا ن ہے۔ فصل کی کٹا ئی کا مو سم ہی دنیا کا اختتام ہے اور اس کو جمع کر نے وا لے مز دور ہی خدا کے فرشتے ہیں۔ 40 “کڑ وے دانوں کے پودوں کو اکھا ڑ کر اس کو آ گ میں جلا دیتے ہیں اور دنیا کے اختتا م پر ہو نے وا لا یہی کام ہے۔ 41 ابن آدم اپنے فرشتوں کو بھیجے گا۔اور اس کے فرشتے گنا ہوں میں ملوث برے اور شر پسند لو گوں کو جمع کریں گے۔ اور وہ انکو اس کی بادشاہت سے باہر نکال دیں گے۔ 42 فرشتے ان لوگوں کو آ گ میں پھینک دیں گے۔اور وہاں وہ تکلیف سے رو تے ہوئے اپنے دانتوں کو پیستے رہیں گے۔ 43 تب اچھے لوگ سورج کی مانند چمکیں گے۔ وہ اپنے باپ کی بادشا ہی میں ہو ں گے۔ میری باتوں پر توجہ دینے والے لوگو غور سے سنو۔ 44 “آسما نی بادشاہت کھیت میں گڑے ہو ئے خزا نے کی مانند ہے۔ایک دن کسی نے اس خزا نے کو پا لیا۔ او ربے انتہا مسر ّت وخوشی سے اس کو کھیت ہی میں چھپا کر رکھ دیا۔ تب پھر اس آدمی نے اپنی سا ری جا ئیداد کو بیچ کر اس کھیت کو خرید لیا۔ 45 “آسما نی بادشاہت عمدہ اور اصلی موتیوں کو ڈھونڈ نے وا لے ا یک سوداگر کی طرح ہے جو قیمتی موتیوں کی تلا ش کر تا ہے۔ 46 ایک دن اس تا جر کو بہت ہی قیمتی ایک مو تی ملا۔تب وہ گیا اور اپنی تمام جائیداد کو فروخت کر کے اس موتی کو خرید لیا۔ 47 “آسما نی بادشاہت سمندر میں ڈالے گئے اس مچھلی کے جال کی طرح ہےجس میں مختلف قسم کی مچھلیاں پھنس گئیں۔ 48 تب وہ جال مچھلیوں سے بھر گیا۔ مچھیرے اس جال کو جھیل کے کنا رے لائے اور اس سے اچھی مچھلیاں ٹوکریوں میں ڈال لیں اور خراب مچھلیوں کو پھینک دئیے۔ 49 اس دنیا کے اختتا م پر بھی ویسا ہی ہوگا۔فرشتے آئیں گے اور نیک کا روں کو بد کاروں سے الگ کریں گے۔ 50 فرشتے برے لوگوں کو آ گ کی بھٹی میں پھنک دیں گے۔ اس جگہ لوگ روئیں گے۔درد وتکلیف میں اپنے دانتوں کو پیسیں گے۔” 51 یسوع نے اپنے شاگردوں سے پوچھا، “کیا تم ان تمام باتوں کو سمجھ گئے ہو؟” شاگردوں نے جواب دیا” ہم سمجھ گئے ہیں” 52 تب یسوع نے اپنے شاگردوں سے کہا،” آسما نی باد شاہت کے بارے میں تعلیم دینے وا لا ہر ایک معلم شریعت ما لک مکان کی طرح ہوگا جو پرانی چیزو ں کو اس گھر میں جمع کر کے ان کو پھر باہر نکا لے گا۔” 53 یسوع ان تمثیلوں کے ذریعے تعلیم دینے کے بعد وہاں سے چلے گئے۔ 54 تب وہ اپنے گاؤں گئے۔یسوع جب یہودی عبادت گاہ میں تعلیم دے رہے تھے تو لوگ تعجب کر نے لگے۔آپس میں کہنے لگے” یہ سوچ ،سمجھ ،حکمت ،علم اور معجزے دکھا نے کی قوت کہاں سے پا ئی ہے۔؟ 55 یہ تو صرف ایک بڑھئی کا بیٹا ہے۔ اور اس کی ماں مریم ہے۔یعقوب ،یوسف اور شمعون ان کے بھا ئی ہیں۔ 56 اور اس کی سب بہنیں ہما رے پاس ہیں۔ اور آپس میں باتیں کر نے لگے کہ ایسے میں یہ حکمت اور معجزے دکھا نے کی طا قت کہاں سے پا ئی ہے؟” 57 اس کو کسی نے قبول نہ کیا۔ 58 چونکہ ان لوگوں میں ایمان نہ ہو نے کی وجہ سے اس نے وہاں کئی معجزے نہیں دکھا ئے -

14:1 اس زما نے میں ہیرودیس گلیل میں حکو مت کرتا تھا لوگ یسوع کے متعلق جن واقعات کو سنا تے تھے وہ ساری باتیں اسے معلوم ہوئیں۔ 2 یہی وجہ ہے کہ ہیرودیس نے اپنے خادموں سے کہا، “حقیقت میں وہی بپتسمہ دینے وا لا یوحناّ ہے۔پھر وہ دوبارہ جی اٹھا ہے۔اسی وجہ سے وہ معجزے دکھا نے کی طاقت رکھتا ہے۔” 3 اس سے قبل ہیرو د یاس کی وجہ سے ہیرودیس نے یوحناّ کو زنجیروں میں جکڑوا کر قید خا نے میں ڈلوا دیا تھا۔ ہیرودیاس ہیرودیس کے بھا ئی فلپس کی بیوی تھی۔ 4 یوحناّ ہیرودیس سے کہہ رہا تھا۔ یہ تمہا رے لئے صحیح نہیں ہے کہ تم ہیرودیاس کے ساتھ رہو یہ کہنا ہی اس کے لئے قید خانے کی وجہ بنی۔” 5 ہیرودیاس یوحناّ کو قتل کر وا نا چا ہتی تھی۔ لیکن وہ لوگوں سے گھبرا کر قتل نہ کر وا سکی لوگ یوحناّ کو ایک نبی کی حیثیت سے ما نتے تھے۔ 6 ہیرودیس کی پیدا ئشی سالگرہ کے دن ہیرودیاس کی بیٹی ہیرودیس اور اس کے مہمانوں کے سا منے ناچنے لگی۔ اور ہیرودیس اس سے بہت خوش ہوا۔ 7 اس لئے اس نے اس سے وعدہ کیا کہ تو جو چاہتی ہے وہ میں تجھے دونگا۔ 8 ہیرو دیاس نے اپنی بیٹی سے کہا، “کیا مانگا جائے۔ تب وہ ہرودیس سے کہنے لگی کہ بپتسمہ دینے والے” یوحنا کا سر اسی جگہ اور اسی طشت میں مجھے دیدے۔” 9 ہیرودیس بادشاہ بہت دکھی تھا۔ اس لئے کہ اس نے وعدہ کیا تھا کہ وہ جو مانگے گی اسے میں دونگا۔ ہیرودیس کی صف میں کھا نا کھا نے والے لوگ بھی اس وعدے کو سنے تھے۔ اس لئے اس کی مانگ کے مطابق دینے کے لئے ہیرودیس نے حکم دیا۔ 10 قید خانہ جاکر یوحنا کا سر قلم کر کے لا نے کے لئے اس نے سپاہیوں کو بھیج دیا۔ 11 وہ یوحنا کا سر طشت میں لا کر اس کے حوالے کئے۔ وہ اس کو لیکر اپنی ماں ہیرودیاس کے پاس گئی۔ 12 یوحنا کے شاگرد آئے اور اسکی لاش لے گئے۔ اور اس کو دفن کرکے قبر بنا دی۔ وہ یسوع کے پاس گئے۔ اور پیش آئے ہو ئے سارے واقعات کو سنایا۔ 13 یسوع کو یوحنا کے بارے میں جب تفصیل معلوم ہوئی تو یسوع کشتی میں سوار ہو کر اکیلے ہی ویران جگہ پر چلے گئے لیکن لوگ اس کے متعلق جان گئے تھے۔ اس لئے وہ سب اپنے گاؤں کو چھوڑ کر پیدل ہی وہاں چلے گئے جہاں یسوع تھے۔ 14 جب یسوع وہاں کنارے پر آئے تو انہوں نے دیکھا کہ لوگوں کا مجمع ہے اس نے ان لوگوں پر ترس کھا ئے اور انکے بیماروں کو شفاء بخشی۔ 15 جب شام ہو ئی تو شاگرد یسوع کے پاس آکر کہنے لگے، “اس جگہ لوگوں کی رہائش نہیں ہے۔ اور اب بھی وقت ہو گیا ہے۔ اور لوگوں کو گاؤں میں بھیج دیجئے تا کہ وہ اپنے لئے کھا نا خریدلیں-” 16 یسوع نے ان سے کہا، “لوگوں کو جا نے کی ضرورت نہیں۔ تم ہی ان لوگوں کے کھا نے کے لئے تھوڑا سا کھا نا دو۔” 17 شاگردوں نے جواب دیا، “ہمارے پاس تو صرف پانچ روٹیاں اور دو مچھلیاں ہیں۔” 18 یسوع نے کہا،” ان روٹیوں اور مچھلیوں کو لا ؤ –” 19 تب اس نے لوگوں کو ہری گھا س پر بیٹھنے کے لئے کہا پانچ روٹیاں اور دو مچھلیاں نکالیں۔ آسمان کی طرف دیکھا اور خدا کا شکر ادا کیا۔ روٹیوں کو توڑ کر اپنے شا گر دوں کو دیئے۔ اور شاگردوں نے ان روٹیوں کو لوگوں میں تقسیم کر دیں۔ 20 لوگ کھا پی کر سیر ہو گئے۔جب لوگ کھانے سے فا رغ ہو ئے تو کھا نے کے بعد بھی بچی ہو ئی رو ٹیوں کے ٹکڑوں کو جب شا گردوں نے جمع کیا تو بارہ ٹوکریاں بھر گئیں۔ 21 کھا نا کھا نے وا لے آدمیوں کی تعداد عورتوں اور بچوں کے علا وہ تقریباً پا نچ ہزار تھی۔ 22 تب یسوع نے اپنے شا گردوں سے کہا، “میں ان لوگوں کو رخصت کر کے بعد میں آؤں گا۔ اور تم لوگ اب کشتی میں سوار ہو کر جھیل کے اس پار چلے جا ؤ۔ “ 23 وہ لو گوں کو رخصت کر نے کے بعد دعا کر نے کے لئے تنہا پہاڑ کے او پر چلے گئے۔ اس وقت رات ہو گئی تھی۔ اور وہ وہاں اکیلے ہی تھے۔ 24 اس وقت کشتی جھیل میں بہت دور تک چلی گئی تھی۔ اور وہ مخا لف ہوا اور لہروں کے تھپیڑوں کا سختی سے مقابلہ کر رہی تھی۔ 25 رات کے آخری پہر تک بھی شا گرد کشتی ہی میں تھے۔یسوع ان لوگوں کے پاس جھیل میں پانی کے اوپر چلتے ہو ئے آئے۔ 26 جب انہوں نے یسوع کو پا نی پر چلتے ہو ئے دیکھا تو ڈرگئے انہوں نے ان کو” بھوت سمجھا اور ما رے خوف کے چیخنے لگے-” 27 فوراً یسوع ان سے بات کر تے ہوئے کہنے لگے، “فکر مت کرو میں ہی ہوں ڈرو مت-” 28 پطرس نے کہا، “اے خداوند اگر حقیقت میں تم ہی ہو تو مجھے حکم کرو کہ میں پانی پر چلتے ہو ئے تمہا رے پا س آؤں۔” 29 یسوع نے پطرس سے کہا، “آ جا “فوراً پطرس کشتی سے اتر کر پانی پر چلتے ہو ئے یسوع کے پا س آیا۔ 30 لیکن وہ طوفانی ہوا اور لہروں کو دیکھ کر خوفزدہ ہوا اور پانی میں ڈوبنے کے قریب ہوا اور پکار کر کہنے لگا” اے خداوند مجھے بچا ؤ۔” 31 یسوع نے اپنا ہاتھ آگے بڑھا کر پطرس کو پکڑ لیا۔اور کہا، “اے کم ایمان والو تم نے کیوں شک کیا ؟” 32 جب پطرس اور یسوع کشتی میں سوار ہوئے تو ہوا تھم گئی۔ 33 کشتی میں سوار شاگرد یسوع کے سامنے گر گئے۔ اور کہنے لگے ،” حقیقت میں تو ہی خدا کا بیٹا ہے۔” 34 وہ سمندر پا ر جا کرگنیسرت کے علا قے میں پہنچے۔ 35 وہاں کے لوگوں نے یسوع کو دیکھا۔اور انہیں یہ معلوم ہوا کہ یہ کون تھے؟ اس وجہ سے انہوں نے اطراف واکناف کے علا قوں کے باشندوں کو یسوع کے آنے کی خبر دی۔لوگ تمام بیما روں کو یسوع کے پاس لا ئے۔ 36 اور انہوں نے انسے التجا کی کہ” اپنے پیر ہن کو چھونے کی اجا زت دے۔” اور جن لوگوں نے ان کے پیر ہن کو چھوا وہ سب شفا ء یاب ہو ئے۔

15:1 تب چند فریسی اور معلمین شریعت یروشلم سے یسوع کے پاس آئے اور کہا، 2 “تمہا رے ماننے وا لے ہما رے اجداد کے اصول وروا یات کی اطاعت کیوں نہیں کرتے ؟ اور پوچھا کہ تیرے شاگرد کھا نا کھانے سے قبل ہاتھ کیوں نہیں دھوتے ؟”- 3 یسوع نے کہا، “تم اپنے اصولوں پر عمل کر نے کے لئے خدا کے احکام کی خلاف ورزی کیوں کرتے ہو ؟۔ 4 خدا کا حکم ہے کہ تم اپنے ماں باپ کی تعظیم کرو۔ دوسرا حکم خدا کا یہ ہے کہ اگر کو ئی اپنے باپ یا ا پنی ماں کو ذلیل و رسوا کرے تو اسے قتل کر دیا جا ئے۔ 5 لیکن اگر ایک آدمی اپنے ماں باپ کو یہ کہے کہ تمہا ری مدد کر نا میرے لئے ممکن نہیں کیوں کہ میرے پاس ہر چیز خدا کی بڑا ئی کے لئے ہے تو پھر ماں باپ کی عزت کر نے کی کو ئی ضرورت نہیں۔ 6 تم اس بات کی تعلیم دیتے ہو کہ وہ اپنے ماں باپ کی عزت نہ کرے اس صورت میں تمہا ری روایت ہی نے خدا کے حکم کو پس پشت ڈال دیا ہے۔ 7 تم سب ریا کار ہو۔یسعیاہ نے تمہارے بارے میں صحیح کہا ہے وہ یہ کہ: 8 “یہ لوگ تو صرف زبانی میری عزت کرتے ہیں۔ 9 اور انکا میری بندگی کرنا بھی بے سود ہے۔ 10 یسوع نے لوگوں کو اپنے پاس بلایا اور کہا، “میری باتوں پر غور کرو اور انہیں سمجھو۔ 11 کوئی آدمی اپنے کھا نے پینے والی چیزوں سے نا پاک و گندا نہیں ہو تا بلکہ اس نے کہا کہ اس کے منھ سے جو بھی جھوٹے کلمات نکلے وہی اس کو ناپاک کر دیتے ہیں۔ “ 12 تب شاگرد یسوع کے قریب آکر اس سے کہنے لگے، “کیا تم جانتے ہو کہ تمہاری کہی ہو ئی بات کو فریسی نے سن کر کتنا برا ما نا ہے ؟” 13 یسوع نے جواب دیا، “آسمانوں میں رہنے والے میرے باپ نے جن پودوں کو نہیں لگا یا وہ سب جڑ سمیت اکھاڑ دیئے جائیں گے۔ 14 اور کہا کہ فریسی کو پریشان نہ کرو اسے اکیلا رہنے دو وہ خود اندھے ہیں اور دوسروں کو راستہ دکھا نا چاہتے ہیں۔ اسلئے کہ اگر اندھا اندھے کی رہنمائی کرے تب تو دونوں گڑھے میں گر جائیں گے۔ “ 15 تب پطرس نے کہا، “جو تو نے پہلے لوگوں سے کہا ہے اس بات کی ہم سے وضاحت کر۔ 16 یسوع نے ان سے کہا، “کیا تمہیں اب بھی یہ بات سمجھ میں نہیں آتی ؟”۔ 17 ایک آدمی کے منھ سے غذا پیٹ میں داخل ہو تی ہے۔ اور جسم کی ایک نالی سے وہ باہر جاتی ہے۔ اور یہ بات تم سب کو معلوم ہے۔ 18 لیکن جو ایک آدمی کے منھ سے بری باتیں نکلتی ہیں وہی چیزیں ہیں جو آدمی کو ناپاک کرتی ہیں۔ 19 اور آدمی کے دل سے برے خیالات قتل زناکاری اور حرامکاری ،چوری ،جھوٹ اور گالیاں نکل آتی ہیں۔ 20 یہ تمام باتیں آدمی کو ناپاک بنا دیتی ہیں۔ اور کہا، “کھا نا کھا نے سے پہلے اگر ہاتھ نہ دھو یا جائے تو اس سے آدمی ناپاک نہیں ہوتا۔” 21 یسوع اس جگہ کو چھوڑ کر صور اور صیدا کے علا قے میں گئے۔ 22 اس علا قے کی رہنے والی ایک کنعانی عورت یسوع کے پاس آئی اور چیخ چیخ کر کہنے لگی،” اے خدا وند داؤد کے بیٹے میرے حال پر رحم کر میری بیٹی پر بد روح کے اثرات ہو گئے ہیں اور وہ بہت ہی تکلیف میں مبتلا ہے” 23 لیکن یسوع نے اس کو کو ئی جواب نہ دیا۔ اس وجہ سے شاگرد یسوع کے پاس آ ئے اور کہنے لگے، “اس عورت کو چلے جانے کے لئے کہئے کیوں کہ وہ چیختی ہو ئی ہمارے پیچھے ہی آرہی ہے۔ “ 24 یسوع نے کہا، “میں خدا کی طرف سے اسرائیل کی کھو ئی ہو ئی بھیڑوں کے سوا کسی اور کے پاس نہیں بھیجا گیا ہو ں۔ 25 تب وہ عورت یسوع کے پاس آئی اور یسوع کے سامنے گر گئی۔ اور کہنے لگی، “اے میرے خدا وند ! میری مدد کر-“ 26 تب یسوع نے جواب دیا، “بچوں کے کھا نے کی روٹی کو نکال کر اسکو کتوں کے سامنے ڈالدینا اچھا نہیں۔” 27 اس عورت نے جواب دیا ، “ہاں اے میرے خدا وند ! کتے تو اپنے مالکوں کی میز سے گر نے والی غذا کے ٹکڑوں کو تو کھا جا تے ہیں۔” 28 تب یسوع نے جواب دیا،” اے عورت ! تیرا ایمان بڑا پختہ ہے۔ اور میں تیری آرزو کو پوری کردیتا ہوں” اسکی بیٹی اسی لمحہ شفاء یاب ہو ئی۔ 29 پھر یسوع اس جگہ کو چھو ڑ کر گلیل جھیل کے کنارے ایک پہاڑ پر جاکر بیٹھ گئے۔ 30 لوگ جوق در جوق یسوع کے پاس آئے۔ اور اپنے ساتھ مختلف قسم کے بیماروں کو لا کر یسوع کے قدموں میں ڈالدیئے۔ وہاں پر معذور، اندھے، لنگڑے، بہرے اور دوسرے بہت سے لوگ تھے۔ اور ان سبھوں کو شفا بحشی۔ 31 جب لوگوں نے دیکھا کہ گونگے باتیں کرتے ہیں۔ لنگڑے چلتے پھرتے ہیں ،اور معذور لوگ صحت پاتے ہیں۔ اور اندھے بینا ہو گئے ہیں تو وہ انتہائی حیرت میں پڑگئے اور اس اسرائیل کے خدا کی تعریف بیان کر نے لگے۔ 32 یسوع نے اپنے شاگردوں کو پاس بلا کر کہا، “میں بھی ان لوگوں کے ساتھ انکے دکھ اور تکلیف میں شریک ہوں۔ کیوں کہ یہ تین دن سے میرے ساتھ ہیں۔ اب انکو کھا نے کے لئے کچھ بھی نہیں ہے۔ اور انکو بحالت بھو ک واپس بھیج دینا مجھے گوارہ نہیں۔ اور کہا یہ گھر جاتے ہو ئے بھوک سے تڑپ جائیں گے۔” 33 شاگردوں نے یسوع سے کہا، “اس مجمع کو کھلا نے کے لئے ہم اتنی روٹیاں کہاں سے لا سکتے ہیں ؟ جب کہ یہاں سے کو ئی گاؤں قریب نہیں ہے۔” 34 انہوں نے پو چھا، “تمہارے پاس کتنی روٹیاں ہیں ؟” شاگردوں نے جواب دیا ہمارے پاس صرف سات روٹیاں اور چند چھوٹی مچھلیاں ہیں۔ “ 35 تب انہوں نے لوگوں کو زمین پر بیٹھنے کا حکم دیا۔ 36 ان سات روٹیوں اور مچھلیوں کو اٹھا کر انہوں نے انکے لئے خدا کا شکر ادا کیا پھر انکو توڑ کر شاگردوں کو دیا۔ شاگردوں نے ان کو لوگوں میں بانٹ دی۔ 37 لوگ کھاکر شکم سیر ہوئے۔ 38 اس دن کھا نا کھانے والوں میں مرد چار ہزار تھے۔ انکے علاوہ عورتوں اور بچوں نے بھی کھا نا کھا یا۔ 39 تب یسوع نے ان لوگوں کو اپنے اپنے گھروں کوجا نے کی اجازت دیدی۔ پھر کشتی پر سوار ہو کر مگدن نام کے علاقے میں چلے گئے۔

16:1 فریسی اور صدوقی یسوع کے پاس آئے۔ اور یسوع کو آزمانے کے لئے وہ پوچھنے لگے کہ تو اگر خدا کا فرستادہ ہے تو اسکے ثبوت میں تو ایک معجزہ دکھا دے۔ 2 یسوع نے ان سے کہا، “غروب آفتاب کے وقت موسم کیسا ہو تا ہے تمہیں معلوم ہے اگر آسمان سرخ رہا تو کہتے ہو کہ موسم عمدہ ہے۔ 3 صبح سورج کے طلوع ہو تے وقت تم آسمان کی طرف دیکھتے ہو۔ اگر مطلع ابر آلود سیاہ اور سرخ ہو تو کہتے ہو کہ آج بارش برسے گی۔ یہ تمام چیزیں آسمان کی علامت ہیں تم ان علامات کو دیکھ کر انکے معنی سمجھتے ہو۔ ٹھیک اسی طرح آج تم جن علامات کو دیکھتے ہو وہ بطور نشانی و علا مت کے ہیں لیکن تم کو ان علامات کے معنی معلوم نہیں۔ 4 برے اور گنہگار لوگ علامت کے طور پر معجزہ دیکھنے کی آرزو کر تے ہیں۔ لیکن انکو یونس کی نشانی کے سوا کوئی اور نشانی نہیں ملتی “۔ تب یسوع اس جگہ کو چھوڑکر دوسری جگہ چلے گئے۔ 5 یسوع اور اسکے شاگردوں نے جھیل کو پار کیا۔ لیکن شاگرد ساتھ میں روٹی لانا بھو ل گئے۔ 6 یسوع نے شاگردوں سے کہا، “ہوشیار رہو فریسی اور صدوقیوں کے خمیر کے پھندے میں نہ آنا۔” 7 شاگردوں نے اس کے معنوں پر گفتگو کی۔ اور آپس میں باتیں کر نے لگے “کہ شاید ہم نے جو روٹی بھول کر آئے ہیں اس وجہ سے یسوع ایسا کہا ہو گا-” 8 شاگردوں کے اس مو ضوع پر گفتگو کر نے کی بات یسوع کو معلوم تھی اس وجہ سے یسوع نے ان سے کہا تم یہ باتیں کیوں کر تے ہو کہ تمہا رے پا س روٹی نہیں ہے؟ اے کم ایمان رکھنے والو !۔ 9 کیا تم اب تک اس کے معنی نہیں سمجھے ہو ؟ پانچ روٹیوں سے پانچ ہزار آدمیوں کو کھا نا کھلا دیا جانا تمکو یاد نہیں؟ لوگوں کے کھا نا کھا نے کے بعد تم نے کتنی ٹوکریوں کو روٹیوں سے بھر وا دئیے کیا تم کو یاد نہیں؟ 10 کیا سات روٹیوں کے ٹکڑوں سے چار ہزار آدمیوں کو کھا نا کھلا نے کی بات تم کو یاد نہیں؟ کھا نے کے بعد تم نے کتنی ٹوکریوں میں روٹیوں کو بھرا تھا کیا تم کو یاد نہیں ؟ 11 اس وجہ سے میں نے تم سے جو کہا ہے وہ روٹیوں کی بابت نہیں۔ اور تم اس کے معنی کیوں نہیں سمجھے۔ اور کہا کہ فریسیوں اور صدوقیوں کے خمیر سے ہوشیار رہنے کی تمہیں تا کید کر تا ہوں-” 12 تب شاگرد یسوع کی بات کو سمجھ گئے کہ وہ ان کو روٹی میں چھڑ کے ہو ئے خمیر کے متعلق با خبر رہنے نہیں کہا۔ بلکہ فریسی اور صدوقیوں کی تعلیم کے اثر کو قبول نہ کر نے کی بات سے باخبر رہنے کو کہا ہے۔ 13 یسوع جب قیصر یہ فلپی کے علا قے میں آیا۔تب یسوع نے اپنے شاگردوں سے پو چھا، “مجھ ابن آدم کو لوگ کیا کہہ کر پکار تے ہیں؟ “ 14 ماننے وا لوں نے جواب دیا، “بعض تو بپتسمہ دینے والا یوحناّ کے نام سے پکار تے ہیں اور بعض ایلیاہ کے نام سے پکارتے ہیں۔ اور بعض یر میاہ کہہ کر یا نبیوں میں ایک کہہ کر پکا ر تے ہیں-” 15 تب اس نے ان سے پو چھا ، “تم مجھے کیا پکار تے ہو؟ “ 16 شمعون پطرس نے جواب دیا، “تو مسیح ہے اور تو ہی زندہ خدا کا بیٹا ہے۔” 17 یسوع نے کہا،” اے یونس کے بیٹے شمعون! تو بہت مبارک ہے۔ اس بات کی تعلیم تجھے کسی انسان نے نہیں دی ہے۔بلکہ میرے آسما نی باپ ہی نے ظا ہر کیا ہے کہ میں کون ہوں؟ 18 اس وجہ سے میں تجھے کہتا ہوں کہ تو ہی پطرس ہے۔اور میں چٹان پر اپنی کلیسا (جماعت) تعمیر کروں گا اور عالم ارواح کی طاقت میری کلیسا کو شکست نہ دے سکے گی۔ 19 اور کہا کہ آسمان کی باد شاہت کی کنجیاں میں تجھے دوں گا۔ اس زمین پر دیا جانے والا تیرا فیصلہ وہ خدا کا فیصلہ ہو گا۔ اور اس زمین پر دی جا نے والی معا فی وہ خدا کی معا فی ہو گی۔” 20 پھر یسوع نے اپنے شاگردوں کو تا کید کی کہ میرے مسیح ہو نے کی بات کسی سے نہ کہنا۔ 21 اسوقت سے یسوع نے اپنے شا گر دوں کو سمجھا نا شروع کیا کہ وہ یروشلم جانا چاہتا ہے۔اور پھر وہ وہاں یہودیوں کے بزرگ قائدین، سردار کا ہنوں اور معلمین شریعت سے خود مختلف تکالیف کو برداشت کرنے، پھرقتل کئے جانے پھر مردوں میں سے تیسرے ہی دن دوبارہ جی اٹھنے کی بات سمجھا ئی۔ 22 تب پطرس یسوع کو تھو ڑے فاصلہ پر لے گیا اور اس سے احتجاج کر نے لگا، “خدا ان باتوں سے تیری حفاظت کرے۔ اے خدا وند! وہ باتیں تیرے لئے ہر گز پیش نہ آئے گی۔” 23 پھر یسوع نے پطرس سے کہا، “اے شیطان یہاں سے دور ہوجا! تو میری راہ میں رکا وٹ ہے اور تیری فکر صرف انسانی فکر ہے نہ کہ خدا کی فکر-” 24 پھر یسوع نے اپنے شاگردوں سے کہا، “جو کو ئی میری پیروی کرنا چاہتا ہے اسکو چاہئے کہ وہ اپنی پسند کی چیزوں کو ردّکردے۔ اور اسکی دی گئی صلیب کو وہ قبول کرتے ہو ئے میرے پیچھے ہو لے۔ 25 جو اپنی جان بچانا چاہے گا وہ اپنی جان کھو دیگا۔ میرے لئے اپنی جان دینے والا اسکی جان کو بچا لے گا۔ 26 اگر کوئی شخص دنیا بھر کی دولت کما کر بھی اپنی روح کو کھو دیا تو اسے کیا حاصل ہوگا ؟ کیا کو ئی چیز ہے جو اسکی روح کا بدل ہو؟ 27 ابن آدم اپنے باپ کے جلال کے ساتھ اور اپنے فرشتوں کے ساتھ لوٹ کر آئیگا اور اس وقت ابن آدم ہر ایک کو انکے اعمال کا مناسب بدلہ دیگا۔ 28 میں تم سے سچ کہتا ہوں۔ اب یہاں کھڑے ہو ئے چند لوگ ابن آدم کو اپنی بادشاہت کے ساتھ آتے ہو ئے دیکھے بغیر نہیں مریں گے۔”

17:1 چھ دن کے بعد یسوع ، پطرس ، یعقوب اور اسکے بھا ئی یوحنا کو ساتھ لیکر ایک اونچے پہاڑ پر چلے گئے۔ جہاں انکے سوا کو ئی دوسرا نہ تھا۔ 2 ان شاگردوں کی نظروں کے سامنے ہی وہ مختلف شکلیں بدلنے لگا۔ انکا چہرہ سورج کی طرح روشن ہوا۔ اور اسکی پوشاک نور کی مانند سفید ہو گئی۔ 3 اس کے علا وہ انہوں نے دیکھا کہ اسکے ساتھ دو آدمی باتیں کرتے ہو ئے کھڑے تھے۔ وہی موسٰی اور ایلیاہ تھے۔ 4 پطرس نے یسوع سے کہا، “اے ہمارے خداوند ! یہ اچھا ہے کہ ہم یہاں ہیں تم چاہو تو تمہارے لئے تین خیمے نصب کروں گا۔ ایک تمہارے لئے ایک موسٰی کے لئے اور ایک ایلیاہ کے لئے۔” 5 پطرس ابھی باتیں کر ہی رہا تھا کہ ایک تابناک بادل انکے اوپر سایہ فگن ہو گیا ,اور اس بادل میں سے ایک آواز سنائی دی، “یہی میرا چہیتا بیٹا ہے۔ میں اس سے بہت خوش ہوں اور اسکے فرماں بردار بنو۔” 6 یسوع کے ساتھ موجود شاگرد وں کو یہ آواز سنائی دی۔ وہ بہت زیادہ خوف زدہ ہو کر منھ کے بل زمین پر گر گئے۔ 7 تب یسوع شاگردوں کے پاس آکر انکو چھوا اور کہا ،” گھبراؤ مت اٹھو۔ “ 8 جب وہ اپنی آنکھیں کھول کر دیکھے تو وہاں پر یسوع کے سوا کوئی اور نہیں تھا۔ 9 جب وہ پہاڑ سے نیچے اتر رہے تھے تو یسوع نے اپنے شاگردوں کو حکم دیا، “جب تک ابن آدم مرکر دوبارہ جی نہ اٹھے اس وقت تک تم پہاڑ پر جن مناطر کو دیکھا ہے وہ کسی سے نہ کہنا۔ “ 10 شاگردوں نے یسوع سے پو چھا ،” مسیح کے آنے سے پہلے ایلیاہ کو آنا چاہئے ایسی بات معلّمین شریعت کیوں کہتے ہیں ؟” 11 اس پر یسوع نے جواب دیا، “جو ایلیاہ کے آ نے کی بات کہتے ہیں صحیح ہے حقیقت یہ ہے کہ وہ آئیگا اور تمام مسائل کو حل کریگا۔ 12 لیکن میں تم سے کہتا ہوں ایلیاہ تو آچکا ہے۔ لیکن لوگ اسے جان نہ سکے کہ وہ کون ہے ؟اور لوگوں نے جیسا چاہا اس کے ساتھ کیا اسی طرح ابن آدم بھی انکے ہاتھوں تکلیف اٹھا ئیگا۔ “ 13 تب شاگرد سمجھ گئے کہ اس نے ان سے یوحنا بپتسمہ دینے والے کی بابت کہا ہے۔ 14 یسوع اور اسکے شاگرد لوگوں کے پاس لوٹ کر واپس آئے۔ ایک آدمی یسوع کے پاس آیا اور گھٹنے ٹیک کر کہا ، “ 15 اے خدا وند ! میرے بیٹے پر رحم کر کیوں کہ وہ مرگی کی بیماری سے بہت تکلیف میں ہے۔ وہ کبھی آ گ میں اور کبھی پا نی میں گر جاتا ہے۔ 16 میں اپنے بیٹے کو تیرے شاگردوں کے پاس لا یا۔ لیکن ان میں سے کو ئی بھی اسکو شفاء نہ دے سکے۔” 17 یسوع نے ان سے کہا، “اے کم ایمان اور کج رو نسل مزید کتنا عرصہ مجھے تمہارے ساتھ رہنا ہوگا ؟ اور کتنی مدّت تک میں تمہیں برداشت کروں ؟ اس بچّے کو یہاں لاؤ۔” 18 یسوع نے بچّے میں پائی جانے والی بد روح کو ڈانٹ دیا تو وہ اس سے دور ہو گئی۔ اور اسی لمحہ لڑکا شفا یاب ہوا۔ 19 تب شاگرد یسوع کے پاس آکر کہنے لگے کہ، “ہم ہزار کو شش کے باوجود اس بد روح کو لڑ کے سے دور کیوں نہیں کر سکے ؟ 20 تب یسوع نے انکو جواب دیا، “تمہارا کم ایمان ہی اصل وجہ ہے۔ میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ اگر تم میں رائی کے دانے کے برابر ایمان ہو تا اور تم اس پہاڑکو کہتے کہ تو اپنی جگہ سے ہل جا تو وہ ضرور ہل جاتا۔ اور تمہارے لئے کو ئی کام نا ممکن نہ ہوتا۔” 21 بعض یونانی صحیفوں میں اس آیت کو جوڑا گیا ہے جو اسطرح ہے :” اس قسم کی بری روحیں سوائے دعا اور روزہ کے کسی اور طریقہ سے نہیں نکا لا جا سکتے ہیں – 22 ایک مرتبہ گلیل میں سب شاگرد یکجا ہو ئے۔ یسوع نے اپنے شاگردوں سے کہا، “ابن آدم کو لوگوں کے حوالے کیا جائیگا۔ 23 آدمی ابن آدم کو قتل کر دیں گے۔ لیکن وہ مرنے کے تیسرے دن پھر دوبارہ زندہ ہو کر آئیگا۔ “ 24 یسوع اور اسکے شاگرد کفر نحوم میں آئے۔ چند یہودی پطرس کے پاس آئے وہ کلیسا کے محصول وصول کنندہ تھے۔ انہوں نے پوچھا، “کیا تمہارا آقا کلیسا کے لئے محصول نہیں ادا کریگا۔” 25 پطرس نے جواب دیا، “ہاں وہ ادا کریگا۔” تب پطرس گھر میں گیا جہاں یسوع مقیم تھے۔ وہ اس بات کو بتانے سے پہلے ہی یسوع نے اس سے کہا، “اس دنیا کے بادشاہ لوگوں سے مختلف قسم کے محصول وصول کرتے ہیں۔ لیکن محصول ادا کرنے والے کون لوگ ہوں گے ؟ کیا بادشاہ کے بچے ہونگے یا دوسرے لوگ؟ تم کیا سمجھتے ہو شمعون ؟۔” 26 پطرس نے جواب دیا، “صرف دوسرے ہی لوگ لگان کو ادا کریں گے” یسوع نے پطرس سے کہا، “اگر ایسی ہی بات ہے تو بادشاہ کے بچّوں کو لگان دینے کی ضرورت نہیں۔ 27 لیکن ہم لگان وصول کر نے والوں پر کیوں غصہ ہوں ؟ تو چنگی ادا کر اور جھیل میں جاکر مچھلیاں پکڑ۔ اور پہلی ملنے والی مچھلی کے منھ کو تو کھول، تو اسکے منھ میں تو ایک چاندی کے سکّے کو پا ئیگا۔ اسکو نکال لا اور میری اور تیری طرف سے لگان وصول کر نے والوں کو ادا کر۔ “

18:1 اس وقت شا گرد یسوع کے پاس آئے اور دریافت کیا کہ” آسما نی باد شاہت میں کس کو اعلیٰ مقام نصیب ہو گا ؟۔” 2 یسوع نے ایک چھو ٹے بچے کو اپنے پا س بلا یا اور اپنے شا گردو ں کے سا منے اس کو کھڑا کیا اور اس طرح کہا،۔ 3 “میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ تم اپنے اندر تبدیلی پیدا کرو تمہا رے دل چھوٹے بچوں کی طرح ہو ور نہ تم آسما نی باد شاہت میں داخل ہی نہ ہوں گے۔ 4 اس چھوٹے بچّے کی طرح جو اپنے آپ کو خاکسار بنائے وہی آسمانی بادشاہت میں اعلی و ارفع مقام پائیگا۔ 5 جو کو ئی ایک چھو ٹے بچّے کو میرے نام پر قبول کریگا تو گویا اس نے مجھے ہی قبول کیا۔ 6 ان چھوٹے بچّوں کو جو میری پیروی کر نے والوں میں سے ہے اگر کسی نے گناہوں کی راہ پر ڈال دیا تو اس شخص کے لئے بہت برا ہوگا۔ تو ایسے لوگوں کے لئے یہی بہتر ہوگا کہ وہ اپنے گلے سے ایک چکّی کے پاٹ کو لٹکائے ہوئے ایک گہرے سمندر میں ڈوب جائے۔ 7 افسوس ہے دنیا میں ان چیزوں پر جو لوگوں کو گناہوں کی راہوں پر لے جاتی ہیں۔ وہ تو وہاں ہمیشہ ہی رہیں گی۔ لیکن افسوس اس پر ہے جو اسکا سبب ہوگا۔ 8 تیرا ہاتھ ہو یا تیرا پیر اگر وہ گناہوں کی طرف لے جائے تو تو اسکو کاٹ کر پھینک دے۔ ہاتھ ہو یا پیر اگر یہ کھوجا تا ہے اور ہمیشگی کی زندگی اس سے ملتی ہے تو وہی تیرے لئے بہتر ہو گا۔ دونوں ہاتھوں اور پیروں والا ہو کر ہمیشگی کی آ گ میں جلنے سے تو وہی بہتر ہوگا۔ 9 تیری آنکھیں اگر تجھے گناہوں کے کاموں پر اکسائے تو تو انکو نکال کر پھینک دے۔ دونوں آنکھوں والا ہو کر جہنم کی آ گ میں جلنے سے بہتر ہے کہ ایک آنکھ کا ہو کر ہمیشگی کی زندگی پائے۔ 10 “خبردار یہ نہ سمجھو کہ چھو ٹے بچوں کی کوئی قدر و قیمت نہیں ہے۔ انکے لئے آسمانوں میں فرشتوں کو مقرّر کیا گیا ہے۔ وہ فرشتے آسمان میں رہنے والے میرے باپ کے سامنے رہتے ہیں۔ چند یونانی نسخوں میں آیت ۱۱ کو شامل کیا گیا ہے جو اس طرح ہے”ابن آدم بھٹکے ہوئے لوگوں کی رہنمائی و حفاظت کرنے کے لئے آیا ہے۔ 11 12 “تم کیا سمجھتے ہو اگر کسی آدمی کی سو بھیڑیں ہواگر ان میں سے ایک بھٹک کر گم ہو جائے تو کیا وہ باقی ننانوے بھیڑوں کو پہاڑ ہی پر چھوڑ کر اس ایک بھٹکی ہوئی بھیڑ کی تلاش میں نہ جائیگا ؟ 13 اور میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ اگر وہ گم شدہ بھیڑ مل جائے تو وہ ان ننانوے نہ بھٹکنے والی بھیڑوں کے مقابلے میں اس ایک بھیڑ کے ملنے کی وہ خوشی محسوس کریگا۔ 14 اسی طرح ان چھوٹے بچوّں میں کوئی ایک بھی نہ بھٹکے آسمان میں رہنے والا تمہارے باپ کا یہ ارادہ ہے۔ 15 “اگر تیرا بھا ئی تجھ سے کوئی برائی کرے تو تو اکیلا جاکر اسکو تنہائی میں اس سے سرزد ہو ئی غلطی کو سمجھا۔ اگر وہ تیری بات سنے ،تو اس کو پھر سے اپنا بھا ئی بنانے میں تو نے اسکی مدد کی۔ 16 اگر وہ تیری بات نہ مانے تو اپنے ساتھ ایک یا دو آدمی کو لیکر دوبارہ اسکے پاس جا ،تاکہ پھر وہ واقعہ پیش آئے اسکے دو یا تین گواہ بنیں گے۔ 17 اگر وہ انکی بات نہ مانے تو کلیسا کو معلوم کراؤ۔ اگر وہ کلیسا کی بات بھی نہ مانے تو اسکو خدا پر ایمان نہ رکھنے والے محصول وصول کرنے والے کی طرح اسکا شمار کرو۔ 18 میں تم سے سچ کہتاہوں کہ جو فیصلہ تم اس زمین پر دیتے ہو تو گویا کہ وہ فیصلہ خدا ہی نے دیا ہے۔ معافی کا وعدہ جو تم اس دنیا میں دیتے ہو گویا وہ معافی خدا کے دینے کے برابر ہے۔ 19 “اس کے علاوہ وہ تم میں سے دو آدمی اس دنیا میں راضی ہوکر اگر کچھ مانگ لے تو آسمانوں میں رہنے والا میرا باپ یقیناً اسکو پورا کریگا۔ 20 یہ حقیقت ہے کہ جب دو آدمی یا تین آدمی مجھ پر یقین رکھتے ہوں اور وہ سب اکٹھا ہو کر میرے پاس آئیں تو میں انکے بیچ میں ہو تا ہوں۔” 21 پطرس یسوع کے پاس آیا اور” پوچھا اے خدا وند میرا بھا ئی میرے ساتھ کسی نہ کسی قسم کی برائی کرتا ہی رہا تو میں اسے کتنی مرتبہ معاف کروں ؟ کیا میں اسے سات مرتبہ معاف کروں ؟” 22 یسوع نے اس سے کہا” تمہیں اس کو سات مرتبہ سے زیادہ معاف کرنا چاہئے۔ اگر چہ کہ وہ تجھ سے ستر مرتبہ برائی نہ کرے اسکو معاف کرتا ہی رہ۔” 23 “آسمانی بادشاہت کی مثال ایسی ہے جیسے کہ ایک بادشاہ نے اپنے خادموں کو دیئے گئے قرض کی رقم وصول کر نے کا فیصلہ کیا۔ 24 بادشاہ نے اپنی رقم کی وصولی کا سلسلہ شروع کیا۔ جبکہ ایک خادم کو دس ہزار چاندی کے سکّے بادشاہ کو بطور قرض دینا تھا۔ 25 وہ خا دم بادشاہ کو قرض کی رقم دینے کے قابل نہ تھا۔ جس کی وجہ سے باد شا ہ نے حکم دیا کہ خا دم اور اس کے پاس کی ہر چیز کو اور اس کی بیوی کو ان کے بچوں سمیت فروخت کیا جا ئے اور اس سے حا صل ہو نے والی رقم کو قرض میں ادا کیا جا ئے۔ 26 “تب خادم باد شاہ کے قد موں پر گرا اور اس سے عاجزی کر نے لگا۔ ذرا صبر و برداشت سے کام لے میں اپنی طرف سے سا را قرض ادا کروں گا۔ 27 باد شا ہ نے اپنے خادم کے بارے میں افسوس کیا اور کہا، “تمہیں قرض ادا کر نے کی ضرورت نہیں باد شاہ نے خادم کو آزادا نہ جانے دیا۔ 28 “پھر اس کے بعد وہی خادم دوسرے ایک اور خادم کو جو اس سے چاندی کے سو سکے لئے تھے اس کو دیکھا اور اس کی گردن پکڑ لی اور اس سے کہا کہ تو نے مجھ سے جو لیا تھا وہ دیدے۔ 29 وہ خا دم اس کے پیروں پر گر پڑا اور منت و سما جت کر تے ہوئے کہنے لگا کہ ذرا صبر سے کام لے۔ تجھے جو قرض دینا ہے وہ میں پورا ادا کروں گا۔ 30 “لیکن پہلے خادم نے انکار کیا۔ اور اس خادم کے با رے میں جو اس کو قرض دینا ہے عدا لت میں لے گیا اور اس کی شکا یت کی اور اس کو قید میں ڈلوا دیا اور اس خادم کو قرض کی ادائیگی تک جیل میں رہنا پڑا۔ 31 اس واقعہ کو دیکھنے وا لے دوسرے خادموں نے بہت افسوس کر تے ہو ئے پیش آئے ہوئے حادثہ اپنے ما لک کو سنائے۔ 32 “تب مالک نے اس کو اندر بلا یا اور کہا، “تم برے خادم نے مجھ سے بہت زیادہ رقم لی تھی لیکن تم نے مجھ سے قرض کی معا فی کے لئے منت وسماجت کی۔” جس کی وجہ سے میں نے تیرا پورا قرض معا ف کر دیا۔ 33 اور کہا کہ ایسی صورت میں جس طرح میں نے تیرے ساتھ رحم و کرم کا سلوک کیا اسی طرح دوسرے نو کر سے تجھے بھی چاہئے تھا کہ ہمدر دی کا بر تاؤ کرے۔ 34 ما لک نہایت غضبناک ہوا۔اور اس نے سزا کے لئے خادم کو قید میں ڈال دیا۔ اور اس وقت تک خادم کو قید خا نہ میں رہنا پڑا جب تک کہ وہ پورا قرض نہ ادا کر دیا۔ 35 “آسما نوں میں رہنے وا لا میرا با پ تمہا رے ساتھ جس طرح سلوک کرتا ہے۔ اسی طرح اس بادشا ہ نے کیا ہے۔تم کو بھی چا ہئے کہ اپنے بھا ئیوں اور اپنی بہنوں سے حقیقت میں در گذر سے کام لو۔ ورنہ میرا باپ جو آسمانوں میں ہے تم کو کبھی بھی معاف نہ کریگا۔”

19:1 یسوع تمام واقعات کو سنا نے کے بعد گلیل سے نکل کر یردن ندی کے دوسرے کنا رے پر واقع یہوداہ کے علا قے میں گئے۔ 2 بہت سے لوگ یسوع کے پیچھے ہو لئے۔اور یسوع نے وہاں بیماروں کو شفاء دی۔ 3 چند فریسی یسوع کے پاس آئے اور اس کو غلطی میں پھنسا نے کے لئے اس سے پوچھا، “کیا کو ئی شخص کسی بھی وجہ سے اپنی بیوی کو طلاق دینا صیح ہے ؟” 4 یسوع نے کہا ، “کیا تم اس بات کو صحیفوں میں نہیں پڑھتے ہو۔جب خدا نے اس دنیا کو پیدا کیا تو انسانوں میں مرد وعورت کو پیدا کیا۔ 5 اس وجہ سے خدا نے کہا ہے کہ مرد اپنے ماں باپ کو چھوڑ کر صرف اپنی بیوی کا ہو کر رہے گا۔ اور دونوں ایک ہو کر رہیں گے۔۔ 6 اس لئے یہ دونوں دو نہ رہیں گے بلکہ ایک ہی ہیں اور ان دونوں کو خدا ہی نے ایک بنا یا ہے ا ور کسی کو بھی علیحدٰہ نہ کر نا چا ہئے۔” 7 فریسیوں نے پو چھا، “اگر ایسا ہی ہے تو موسیٰ نے یہ کیوں حکم دیا کہ کوئی مرد چا ہے تو طلاق نامہ لکھ کر اس کو چھو ڑ سکتا ہے ؟” 8 یسوع نے جواب دیا، “تم نے خدا کی تعلیم کو قبول نہیں کیا اس لئے کہ موسیٰ نے تمہیں بیوی کو طلاق دینے کی اجا زت دی ہے۔ابتداء میں بیوی کو طلاق دینے کی کوئی اجا زت نہیں تھی۔ 9 میں تم سے جو کہنا چاہتا ہوں وہ یہ کہ اپنی بیوی کو چھوڑ کر دوسری عورت سے شا دی رچا نے والا زانی وبد کار ہوگا۔اگر پہلی بیوی کسی دوسرے آدمی سے نا جا ئزو جنسی تعلقات قا ئم کر لی ہو تو تب وہ شخص اپنی بیوی کو چھوڑ کر دوسری عورت سے شادی کر سکتا ہے-” 10 شاگردوں نے یسوع سے کہا، “اگر کوئی شخص صرف اس بات کی بنیاد پر اپنی بیوی کو طلاق دیتا ہے تو اس کے لئے دوسری شادی نہ کر نا ہی بہتر ہو گا۔” 11 یسوع نے جواب دیا، “شادی سے متعلق اس حقیقت کو قبول کر نا ہر ایک کے لئے ممکن نہیں۔ اس کو قبول کر نے کے لئے خدا نے جس کو اس کا متحمل بنا یا ہو صرف 12 بعض شخص کے لئے شادی نہ کر نے کی الگ الگ وجوہات ہیں۔ کچھ لوگ پیدائشی خوجے ہو تے ہیں اور بعض وہ ہوتے ہیں کہ جو آسمانی بادشاہت کے لئے شادی سے انکار کر دیتے ہیں جو شادی کر نے کے موقف میں ہو اس کو چاہئے کہ وہ شادی کے لئے ان تعلیمات کو قبول کرے۔” 13 تب لوگ اپنے چھو ٹے بچوں کو یسوع کے پاس لا ئے کہ ان بچوں پر اپنے ہاتھ رکھے اور انکے لئے دعا کرے شاگردوں نے دیکھا تو ڈانٹنے لگے کہ وہ چھو ٹے بچوں کو یسوع کے پاس نہ لے جائیں۔ 14 لیکن یسوع نے کہا، “چھو ٹے بچّوں کو میرے پاس آنے دو اور انکو مت روکو کیوں کہ آسمانی بادشاہت ان ہی کی ہے جو ان چھو ٹے بچّوں کی مانند ہیں۔” 15 یسوع اپنے ہاتھ بچوں کے اوپر رکھنے کے بعد اس جگہ سے نکل گئے۔ 16 کسی نے یسوع کے پاس آکر پو چھا، “اے میرے استاد میں ہمیشگی کی زندگی پا نے کے لئے کس قسم کی نیکی اور بھلائی کے کام کروں۔ 17 “نیکی کی بابت تو مجھ سے کیوں پو چھتا ہے ؟ خداوند خدا ہی نیک اور مقدس ہے۔ اگر تو ہمیشگی کی زندگی کو پانا چاہتے ہو تو حکموں پر عمل کر۔” 18 اس آدمی نے پو چھا، “کون سے حکموں پر”۔ تب یسوع نے جواب دیا، “قتل و غارت گری نہ کرنا زنا و بدکاری نہ کر ،چوری نہ کر، اور جھو ٹی گواہی نہ دے۔ 19 تو اپنے ماں باپ کی تعظیم کر اور خود سے جیسی محبت کر تا ہے ویسی ہی محبت دوسروں سے بھی کر۔” 20 اس نوجوان نے کہا، “میں ان تمام احکامات کا پابند ہو گیا ہوں۔اسکے علاوہ مجھے اور کیا کرنا چاہئے ؟۔” 21 تب یسوع نے جواب دیا، “اگر تجھے کامل و مکمل ہو نا ہے تو تو اپنی تمام جائیداد کو بیچ دے اور اس سے ملنے والی رقم کو غریبوں اور ضرورت مندوں میں تقسیم کر۔ تب تیرے لئے جنت میں نیکیوں کا ایک خزانہ ملے گا۔ پھر اسکے بعد میرے پیچھے ہو لے۔ “ 22 اسکے بعد وہ نوجوان بہت ہی افسوس کرتے ہوئے لوٹ گیا۔ کیوں کہ وہ بہت ہی مالدار تھا۔ 23 تب یسوع نے اپنے شاگردوں سے کہا، “میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ مالدار لوگوں کے لئے آسمانی بادشاہت میں داخل ہو نا بہت مشکل ہے۔ 24 ہاں اور میں تم سے کہتا ہوں کہ اونٹ کا سوئی کے ناکے میں سے گزر جانا کسی مالدار کا خدا کی بادشاہت میں داخل ہو نے کے بہ نسبت آسان ہے۔” 25 شاگردوں نے جب یہ سنا تو بہت ہی تعجب کے ساتھ پو چھا، “اگر یہی بات ہے تو پھر وہ کون ہونگے کہ جو نجات پا ئیں گے۔” 26 یسوع اپنے شاگردوں کی طرف متوجہ ہو کر کہنے لگے، “یہ انسانوں کے لئے نا ممکن کام ہے لیکن خدا کے لئے تو آسان و ممکن ہے”۔ 27 پطرس نے یسوع سے پو چھا، “ہمارا تو یہ حال ہے کہ ہم کو جو کچھ میسّر ہے وہ سب کچھ چھوڑ کر ہم تیرے پیچھے ہو لئے۔ تو ہمیں کیا ملیگا-” 28 یسوع اپنے شاگردوں سے اس طرح کہنے لگے، “میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جب نئی دنیا پیدا ہو گی تو ابن آدم اپنے جاہ و جلال والے تخت پر متمکن ہو گا۔ اور تم سب جو میری پیروی کر نے والے ہو تختوں پر بیٹھے ہو ئے اسرائیل کے بارہ قبیلوں کا انصاف کرو گے۔ 29 میری پیر وی کر نے کے لئے اپنے گھروں کو بھا ئی بہنوں کو اپنے ماں باپ کو یا اپنی جا ئیداد کو قربا ن کر نے وا لے اپنی چھوڑی ہو ئی قربان کی ہو ئی چیزوں سے زیادہ اجر پائیں گے۔اور ہمیشہ کی زندگی کے وارث بنیں گے۔ 30 لیکن مستقبل میں بہت اونچے مرتبہ والے کم مرتبہ وا لے میں شمار ہو نگے اور بہت سا رے لوگ جو نیچے مرتبہ وا لے ہیں مستقبل میں اونچے مرتبہ والے ہو جا ئیں گے۔

20:1 “جنت کی بادشاہت انگور کے باغ کے مالک کی ما نند ہے۔ ایک دن صبح باغ کا مالک اپنے باغ میں کام پر لگا نے کے لئے مزدوروں کی تلا ش میں نکلا۔ 2 ہر مزدور کو ایک دن میں ایک چاندی کا سکہ بطور مزدوری طے کر کے ان کو اپنے باغ میں کام کر نے کے لئے بھیج دیا۔ 3 تقریباً نو بجے باغ کا ما لک ایک با ر پھر با زار گیا۔اس نے چند لوگوں کو وہا ں بیکار کھڑے ہو ئے دیکھا۔ 4 وہ ان سے کہنے لگا کہ اگر تم بھی میرے باغ میں کام کر نا چا ہو تو میں تمہیں تمہا رے کام کی منا سب مزدوری دوں گا۔ 5 وہ مزدور کام کر نے کے لئے اس کے باغ میں چلے گئے۔” 6 تقریباً پانچ بجے وہ مالک ایک بار پھر بازار کی طرف گیا۔ اس نے وہاں چند لوگوں کو کھڑے ہوئے دیکھ کر کہا کہ تم لوگ یونہی پورا دن کیوں بیکا ر کھڑے ہو ؟۔ 7 “انہوں نے جواب دیا کہ ہمیں کسی نے کام نہیں دیا۔تب اس مالک نے کہا، “اگر ایسی ہی بات ہے تو تم جاؤ اور میرے باغ میں کام کرو۔ 8 “دن کے آخر میں باغ کے مالک نے تمام مزدوروں کے نگراں کار سے کہا۔مزدوروں کو بلا ؤ اور ان تمام کو مزدوری دیدو۔آخر میں آنے والے لوگوں کو پہلے مزدوری اور پہلے آنے والے مزدوروں کو آخر میں مزدوری دو۔ 9 “پانچ بجے کے وقت میں جن مزدوروں کو کام پر لیا گیا تھا۔اپنی مزدوری حا صل کر نے کے لئے آگئے۔ اور ہر مزدور کو ایک ایک چاندی کا سکہ دیا گیا۔ 10 پھر وہ مزدور جو پہلے کرا ئے پر لئے گئے تھے اپنی مزدوری لینے کے لئے آئے۔ اور وہ یہ سمجھتے تھے کہ دوسرے مزدوروں سے انہیں زیادہ ہی ملے گا۔ لیکن ان کو بھی مزدوری میں صرف ایک چاندی کا سکہ ہی ملا۔ 11 جب انہوں نے اپنا چاندی کا سکہ لے لیا تو یہ مزدور باغ کے ما لک کے بارے میں شکایت کرنے لگے۔ 12 انہوں نے کہا کہ تا خیر سے کام پر آئے ہو ئے مزدوروں نے صرف ایک گھنٹہ کام کیا ہے۔ لیکن اس نے ان کو بھی ہما رے برا بر ہی مزدوری دی ہے۔ جبکہ ہم نے تو دن بھر دھوپ میں مشقت کے ساتھ کام کیا ہے۔ 13 “باغ کے ما لک نے ان مزدوروں میں ایک سے کہا کہ اے دوست میں تیرے حق میں نا انصافی نہیں کیا ہو ں۔(لیکن ) تو نے تو صرف ایک چاندی کے سکہ کی خا طر سے کام کی ذمہ داری کو قبول کیا۔ 14 اس وجہ سے تو اپنی مزدوری لے اور چلتا بن۔ اور میں تجھے جتنی مزدوری دیا ہوں اتنی ہی مزدوری بعد میں آنے وا لے کو بھی دینا چاہتا ہوں۔ 15 میری ذاتی رقم کو میں اپنی مرضی کے مطا بق دے سکتا ہو ں اور کہا، “میں نے جو کچھ اچھا ئی کی ہے کیا تو اس کے بارے میں حسد کر تا ہے۔ 16 “ٹھیک اسی طرح آخرین،اولین، بنیں گے اور اولین آخریں بنیں گے۔” 17 یسوع یروشلم جا رہے تھے۔ اور انکے بارہ شاگرد بھی ان کے ساتھ تھے۔ راستے میں یسوع نے ان میں سے ہر ایک کو الگ الگ بلا کر کہا۔ 18 “ہم یروشلم جا رہے ہیں۔ ابن آدم کو سردار کا ہنوں اور معلمین شریعت کے حوا لے کر دیا جا ئیگا۔کا ہنوں اور معلمین شریعت کا کہنا ہے کہ ابن آدم کو مر نا چاہئے۔ 19 انہوں نے ابن آدم کو غیر یہودیوں کے حوا لے کر دیا۔وہ ابن آدم سے مذاق و ٹھٹھا کریں گے اور کوڑے مار کر صلیب پر چڑھائیں گے۔ لیکن وہ مر نے کے بعد تیسرے ہی دن پھردوبارہ جی اٹھے گا۔” 20 اس وقت زبدی کی بیوی یسوع کے پاس آئی۔اس کا نرینہ بچہ اس کے ساتھ تھا۔وہ یسوع کے سامنے گھٹنے ٹیک کر ادب سے جھک گئی اور اپنی گذارش کو بر لا نے کی فرما ئش کی۔ 21 یسوع نے اس سے پوچھا،” تیری مراد کیا ہے ؟”اس نے کہا، “مجھ سے وعدہ کرو کہ تیری بادشاہی میں میرے بیٹوں میں سے ایک کو تیری داہنی جا نب اور دوسرے کو بائیں جانب بٹھا دے۔” 22 یسوع نے بچوں سے کہا، “تم کیا پوچھ رہے ہو۔اس کو تم سمجھ نہیں رہے ہو۔ میں جس طرح کی مصیبت میں مبتلا ہو نے جا رہا ہوں کیا تم اسے قبول کر سکتے ہو ؟اس پر انہو ں نے جواب دیا، “ہاں ہما رے لئے ممکن ہوگا۔” 23 یسوع نے ان سے کہا ، “میں جن مصائب و تکا لیف کو جھیل رہا ہوں ان کو تم ضرور جھیلو گے۔لیکن جو کوئی میرے داہنے اور میرے بائیں بیٹھے گا اس کا انتخاب میں نہیں کرونگا۔ اور کہا کہ میرا باپ ان جگہوں کو جن کے لئے منتخب کیا ہے انہی کے لئے وہ مواقع فراہم کریگا۔” 24 دوسرے دن شاگردو ں نے جب اسکی بات کو سنا تو وہ ان دو بھا ئیوں پر غصّہ ہو ئے۔ 25 یسوع نے تما م شاگردوں کو ایک ساتھ بلا کر ان سے کہا، “جیسا کہ تم جانتے ہو غیر یہودی حاکم لوگوں پر اختیار چلانا چاہتے ہیں جسکا تمہیں علم ہے اور انکے حاکم اعلٰی لوگوں پر بھی اپنا اختیار چلانا چاہتے ہیں۔ 26 “لیکن تم ایسا نہ کرنا تم میں جو بڑا بننے کی آرزو کرتا ہے اس کو چاہئے کہ وہ خادم کی طرح خدمت کرے۔ 27 تم میں جو درجہ اول کی آرزو کرے تو اس کو چاہئے وہ ایک ادنی غلام کی طرح نوکری کرے - 28 اور ایسا ہی ابن آدم کے لئے ہے۔ ابن آدم دوسروں سے خدمت لئے بغیر ہی دوسروں کی خدمت کر نے کے لئے اور بہت سے لوگوں کی حفاظت کر نے کے لئے ابن آدم اپنی جان ہی کو رہن رکھنے کے لئے آیا ہے۔ 29 یسوع اور اسکے شاگرد جب یریحو سے لوٹ رہے تھے تب بہت سے لوگ یسوع کے پیچھے ہو لئے۔ 30 راستے کے کنارے پر دو اندھے بیٹھے ہو ئے تھے۔ جب انکو یہ معلوم ہوا کہ یسوع اس راہ سے گزرنے والا ہے تو انہوں نے چیخ و پکار کی اور کہنے لگے، “اے ہمارے خداوند داؤد کے بیٹے ہماری مدد کر۔” 31 لوگ ان اندھوں کو ڈانٹنے لگے اور کہنے لگے کہ خاموش رہو۔ لیکن اس کے باوجود وہ اندھے یہ کہتے ہو ئے زور زور سے پکار نے لگے، “کہ اے ہمارے خدا وند داؤد کے بیٹے! برائے مہر بانی ہماری مدد کر۔” 32 یسوع کھڑے ہو گئے اور ان اندھوں سے پو چھنے لگے، “تم مجھ سے کس قسم کے کام کی امید کر تے ہو۔” 33 تب اندھوں نے کہا،” اے ہمارے خداوند ! ہمیں بینائی دے۔ “ 34 یسوع ان کے بارے میں افسوس کر نے لگے اور انکی آنکھوں کو چھوا۔ فوراً ان میں بینائی آگئی۔ پھر اسکے بعد وہ یسوع کے پیچھے ہو لئے۔

21:1 یسوع اور اسکے شاگرد یروشلم کی طرف سے سفر کرتے ہو ئے زیتون کے پہاڑ کے نزدیک بیت فگے کو پہنچے۔ 2 وہاں یسوع نے اپنے دونوں شا گردوں کو بلا کر کہا، “تم اپنے سامنے نظر آنے والے شہر کو جاؤ۔ جب تم اس میں داخل ہو گے تو وہاں پر بندھی ہو ئی ایک گدھی پاؤگے۔ اور اس گدھی کے ساتھ اسکا بچہ بھی ہو گا۔ انہیں کھو ل کر میرے پاس لے آؤ۔ 3 اگر تم سے کو ئی یہ پو چھے کہ ان گدھوں کو کھو ل کر کیوں لے جا رہے ہو تو کہنا کہ مالک کو ان گدھوں کی ضرورت ہے اور وہ ان گدھوں کو بہت جلد ہی واپس لوٹا دیگا۔ یہ کہہ کر انہوں نے ا ن لوگوں کو بھیج دیا۔” 4 یہ اسلئے ہوا کہ جو پیشین گوئی نبی کے ذریعے دی گئی تھی پوری ہو جائے : 5 “صیّون شہر سے کہہ دو۔ 6 یسوع کے کہنے کے مطابق وہ شاگرد گئے گدھی اور اسکے بچے کو یسوع کے پاس لا ئے۔ 7 وہ اپنے جبّوں کو انکے اوپر ڈالدیا۔ 8 تب یسوع اس پر سوار ہو کر یروشلم چلے گئے۔ بہت سارے لوگ اپنے جبّوں کو یسوع کی خاطر راستے پر بچھا نے لگے۔ اور بعص لوگ درختوں سے شگوفے اور نئی کونپلیں توڑ لائے اور راہ پر پھیلا دیئے۔ 9 بعض لوگ یسوع کے آگے اور بعض لوگ یسوع کے پیچھے چلتے آرہے تھے۔ اور ان لوگوں نے اس طرح نعرے لگانے لگے: 10 جب یسوع یروشلم میں داخل ہو ئے تو سارے شہر کے لوگ پریشان ہو گئے ا ن میں ہلچل مچ گئی اور دریافت کر نے لگے کہ” یہ کون آدمی ہے“؟ 11 یسوع کے پیچھے پیچھے چلنے والے ہجوم نے جواب دیا، “یہی یسوع ہے، یہ گلیل علاقے کے ناصرت نام کے گاؤں کا نبی ہے۔ “ 12 یسوع ہیکل کے اندر چلے گئے۔ وہاں پر خرید و فروخت کر نے والے تمام لوگوں کو اس نے وہاں سے بھگا دیا۔ سِکّوں کا صرّافہ کر نے والوں کو اور کبوتر فروخت کر نے والوں کے میز گرا دیئے۔ 13 یسوع نے وہاں پر موجود لوگوں سے کہا، “میرا گھر عبادت گاہ کہلائے گا۔” ۔ اسی طرح صحیفوں میں لکھا ہوا ہے، “لیکن تم ہیکل کو چوروں کے غار کی طرح بنا دیتے ہو۔”۔ 14 چند اندھے اور لنگڑے لوگ ہیکل میں یسوع کے پاس آئے۔ یسوع نے انکو شفاء دی۔ 15 اعلی کاہنوں اور معلّمین شریعت نے یہ سب دیکھا۔ ان لوگوں نے یسوع کے معجزے اور ہیکل میں چھوٹے چھو ٹے بچّوں کو یسوع کی تعریف میں گن گاتے ہو ئے دیکھا۔ چھوٹے بچے پکار رہے تھے” داؤد کے بیٹے کی تعریف ہو” ان سب کی وجہ سے کاہن اور معلّمین شریعت غصّہ سے بھڑک اٹھے۔ 16 اعلی کاہنوں اور معلّمین شریعت نے یسوع سے پو چھا، “یہ چھو ٹے بچے جو باتیں کہہ رہے ہیں کیا انکو تو نے سنا ؟ “یسوع نے جواب دیا،” ہاں تو نے چھو ٹے اور معصوم بچوں کو تعریف کرنا سکھا یا ہے۔ جو بات صحیفوں میں مذکور ہے۔ اور پوچھا کہ کیا تم صحیفہ پڑھتے نہیں ہو ؟” 17 تب اس نے اس جگہ کو چھو ڑ دیا اور بیت عنیاہ کو چلے گئے اور یسوع نے اس رات وہیں پر قیام کیا۔ 18 دوسرے دن صبح یسوع شہر کو واپس جا رہے تھے کہ انکو بھوک لگی۔ 19 انہوں نے راستے کے کنارے ایک انجیر کا درخت دیکھا اور اسکے میوہ کو کھانے کے لئے درخت کے قریب گئے۔ لیکن درخت میں صرف پتّے ہی تھے۔ اس وجہ سے یسوع نے اس درخت سے کہا، “اس کے بعد تجھ میں کبھی پھل پیدا نہ ہوں۔” اسکے فوراً بعد انجیر کا درخت خشک ہو گیا۔” 20 شاگردوں نے اس منظر کو دیکھ کر بہت تعجب کیا اور پو چھنے لگے یہ انجیر کا درخت اتنی جلدی کیسے سوکھ گیا ؟ “ 21 یسوع نے جوابدیا، “میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ اگر تم شک و شبہ کے بغیر ایمان لاؤ جس طرح میں نے اس درخت کے ساتھ کیا ہے ویسا ہی تمہارے لئے بھی کرنا ممکن ہو سکے گا اس سے اور زیادہ بھی کر ناممکن ہو گا۔ اگر تم اس پہاڑ سے کہو کہ تو جاکر سمندر میں گر جا اگر پختہ ایمان سے کہا جائے تو ایسا بھی ضرور ہو گا۔ 22 جو کچھ بھی تم دعا میں مانگو گے وہ تمہیں ملیگا اگر تمہارا ایمان پختہ ہے۔ “ 23 یسوع ہیکل میں چلے گئے۔ یسوع جب وہاں تعلیم دے رہے تھے تو سردار کاہنوں اور لوگوں کے بڑے بڑے رہنما یسوع کے پاس آئے اور وہ یسوع سے پو چھنے لگے” تو ان تمام باتوں کو کس کے اختیارات سے کر رہا ہے ؟ اور یہ اختیار تجھے کس نے دیا ہے ؟ ہمیں بتا” 24 یسوع نے کہا، “میں تم سے ایک سوال پوچھتا ہوں۔اگر تم نے اسکا جواب دیا تو میں تم کو بتا دونگا کہ میں کس کے اختیارات سے انکو کر رہا ہوں۔ 25 اگر ہم کہتے ہیں کہ کیا یوحنا کو بپتسمہ دینے کا اختیار خدا سے یا کسی انسان سے ملا ہے؟ مجھے بتاؤ۔ 26 “اگر یہ کہیں کہ وہ انسان سے ملا ہے تو لوگ ہم پر غصّہ کریں گے۔ اسلئے کہ ان سبھوں نے یوحنا کو ایک نبی تسلیم کیا ہے۔ جس کی وجہ سے ہم ان سے ڈریں۔ اسطرح وہ آپس میں باتیں کر نے لگے۔” 27 تب انہوں نے جواب دیا، “یو حنا کو کس نے اختیار دیئے ہمیں نہیں معلوم” پھر یسوع نے کہا ، “میں ان تمام باتوں کو کس کے اختیارات سے کرتا ہوں وہ تمہیں نہیں بتاؤنگا ! 28 “اس کے بارے میں تم کیا سمجھتے ہو۔ایک آدمی کے دو بیٹے تھے۔ وہ آدمی پہلے بیٹے کے پاس گیا اور کہا کہ بیٹا آج تو انگور کے باغ میں جا کر کام کر۔ 29 “اس پر بیٹے نے جواب دیا، میں نہیں جا ؤں گا۔لیکن پھر بعد میں ارادہ بدل کر کام پر چلا گیا۔ 30 “باپ نے پھر دوسرے بیٹے کے پاس جاکر کہا کہ بیٹا آج تو انگور کے باغ میں جاکر کام کر۔ تب بیٹے نے کہا، اے میرے ابّا ٹھیک ہے میں جاکر کام کرتا ہوں۔ لیکن وہ بیٹا کام پر گیا ہی نہیں۔ 31 “ان دونوں میں سے کون باپ کا فرماں بردار ہوا” ؟ تب یہودی قائدین نے جواب دیا،” پہلا بیٹا” تب یسوع نے ان سے کہا، “میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ محصول وصول کر نے والوں اور طوائفوں کو تم برے لوگ تصور کرتے ہو۔ لیکن وہ تم سے پہلے خدا کی بادشاہت میں داخل ہونگے۔ 32 تم کو زندگی کے صحیح طریقے اور ڈھنگ سکھا نے کے لئے یو حنا آئے تھے۔ لیکن تم تو یوحنا پر ایمان نہ لائے۔ جیسا کہ تم محصول وصول کرنے والوں اور فا حشاؤں کو ایمان لاتے ہو ئے تم دیکھ چکے ہو- لیکن اسکے با وجود بھی تم اپنے اندر تبدیلی لانا اور ایمان لانا نہیں چاہتے۔ اور ان پر ایمان لانے سے انکار کر تے ہو- 33 “ا س کہا نی کو سنو ! ایک آدمی کا اپنا ذاتی باغ تھا۔اور وہ اپنے باغ میں انگور کی فصل لگا ئی۔ باغ کے اطراف دیوار تعمیر کی انگور کی مئے تیار کروا نے کے لئے گڑھے کھد وا یا اور نگرا نی کے لئے مچان بنو ایا۔وہ اس باغ کو چند کسانوں کو ٹھیکہ پر دیا اور دوسرے ملک کو چلا گیا۔ 34 جب انگور کی فصل توڑ نے کا وقت آیا تو اس نے نوکروں کو اپنا حصہ لا نے کیلئے کسا نوں کے پاس بھیجا۔ 35 تب ایسا ہوا کہ ان باغبانوں نے ان نوکروں کو پکڑ لیا اور ایک کی تو پٹائی کی اور دوسرے کو مار دیا اور تیسرے نوکر کو پتھر پھینک کر مار دیا ۔ 36 اس لئے اس نے پہلے جتنے نوکروں کو بھیجا تھا ان سے بڑھ کر نوکروں کو ان باغبانوں کے پاس بھیجا۔ لیکن باغبانوں نے جس طرح پہلی مرتبہ کیا تھا اسی طرح دوسری مرتبہ ان نوکروں کو بھی ایسا ہی کیا۔ 37 تب اس نے سمجھا کہ یقیناً باغبان میرے بیٹے کی عزت کریں گے اسلئے اس نے اپنے بیٹے ہی کو بھیجا۔ 38 لیکن جب باغبانوں نے بیٹے کو دیکھا تو آپس میں باتیں کرنے لگے یہ تو باغ کے مالک کا بیٹا ہے۔ یہ باغ تو اسی کا ہوگا۔ اسلئے اگر ہم اسکو مار دیں تو یہ باغ ہمارا ہی ہوگا۔ 39 اسطرح باغبانوں نے بیٹے کو پکڑ کر باغ سے باہر کھینچ کر لایا اور اسکو قتل کر دیا۔ 40 “ان حالات میں جب باغ کا مالک خود آئیگا تو وہ ان کسانوں کا کیا کریگا ؟” 41 یہودی کاہنوں اور قائدین نے کہا، “یقیناً وہ ان ظالموں کو ماریگا اور اپنا باغ دوسرے کسانوں کو ٹھیکہ پر دیگا۔ تا کہ موسم پر اسکا حصّہ دیں سکیں۔” 42 یسوع نے ان سے کہا یقیناً تم نے اس بات کو صحیفو ں میں پڑھا ہے: 43 “اسی وجہ سے میں تم سے جو کہتا ہوں وہ یہ کہ خدا کی بادشاہت تم سے چھین لی جائیگی اس خدا کی بادشاہت کو خدا کی مرضی کے مطابق کام کر نے والوں کو دی جائیگی۔ 44 جو شخص اس پتھّر پر گریگا ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیگا۔ اور اگر پتھّر اس شخص پر گریگا تو یہ اس شخص کو کچل ڈالیگا۔ 45 سردار کاہنوں اور فریسیوں نے یسوع کی کہی ہوئی کہانیوں کو سنا تو ان لوگوں نے جانا کہ یسوع ان لوگوں کے بارے میں بات کر رہا تھا۔ 46 انہوں نے یسوع کو قید کرنے کی تدبیر تلاش کی لیکن وہ لوگوں سے گھبراکر گرفتار نہ کر سکے۔ کیوں کہ لوگ یسوع پر ایک نبی ہو نے کے ناطے ایمان لا چکے تھے۔

22:1 یسوع نے دیگر چند چیزوں کو لوگوں سے کہنے کے لئے تمثیلوں کا استعمال کیا۔ 2 “آسمان کی بادشاہی ایک ایسے بادشاہ کی مانند ہے جو اپنے بیٹے کی شادی کی ضیافت کی تیاری کرے۔ 3 اس بادشاہ نے اپنے نوکروں کو ان لوگوں کو بلا نے کے لئے بھیجا جنہیں شادی کی ضیافت کے لئے دعوت دیئے گئے تھے۔ لیکن وہ لوگ ضیا فت میں شریک ہو نا نہیں چاہا۔ 4 “تب بادشاہ نے مزید چند نوکروں کو بلا کر کہا کہ ان لوگوں کو تو میں نے پہلے ہی بلایا تھا۔ ان سے کہو کھا نے کی ہر چیز تیار ہے۔ میں نے فربہ بیل اور گائے ذبح کر وائی ہے۔ اور سب کچھ تیار ہے اور ان سے یہ کہلا بھیجا کہ شادی کی دعوت کے لئے وہ آئیں۔ 5 “نوکر گئے اور لوگوں کو آنے کے لئے کہا۔ لیکن ان لوگوں نے نوکروں کی بات نہیں سنی۔ ایک تو اپنے کھیت میں کام کر نے کے لئے چلا گیا۔ اور دوسرا اپنی تجارت کے لئے چلا گیا۔ 6 اور کچھ دوسرے لوگوں نے ان نوکروں کو پکڑا مارا پیٹا،اور ہلاک کردیا۔ 7 تب بادشاہ بہت غصّہ ہوا اور اپنی فوج کو بھیجا ان قاتلوں کو ختم کروایا اور ان کے شہر کو جلایا۔ 8 “پھر بادشاہ نے اپنے نوکروں سے کہا کہ شادی کی ضیافت تیار ہے۔ اور میں نے جن لوگوں کو ضیافت میں دعوت دیا ہے وہ دعوت کے اتنے زیادہ اہل نہیں ہیں۔ 9 اور اس نے کہا کہ گلی کے کو نے کونے میں جا کر تم نظر آنے والے تمام لوگوں کو ضیافت کے لئے دعوت دو۔ 10 اسی طرح نوکر گلی گلی گھو م کر نظر آنے والے تمام لوگوں کو اچھے برے کی تخصیص کئے بغیر تمام کو جمع کرکے اسی جگہ پر بلا لا ئے جہاں ضیافت تیار تھی۔ اور وہ جگہ لوگوں سے پُر ہو گئی۔ 11 “تب بادشاہ تمام لوگوں کو دیکھنے کے لئے اندر آئے جو کھا رہے تھے۔ بادشاہ نے ایک ایسے آدمی کو بھی دیکھا کہ جو شادی کے لئے نا مناسب لبا س پہنے ہوئے تھا 12 اور پو چھا، اے دوست تو اندر کیسے آیا؟ تم نے تو شادی کے لئے موزو و مناسب پو شاک نہیں پہن رکھّی ہے۔ لیکن اس نے کو ئی جواب نہ دیا۔ 13 تب بادشاہ نے چند نوکروں سے کہا اسکے ہاتھ پیر باندھکر اسکو اندھیرے میں اس جگہ پر جہاں وہ تکالیف میں مبتلا ہوگا اپنے دانتوں کو پیسے گا پھینک دو۔ 14 “ہاں ضیافت میں تو بہت سے لوگوں کو دعوت دی گئی ہے لیکن منتخب کردہ کچھ ہی افراد ہیں۔” 15 تب فریسی وہاں سے نکل گئے جہاں یسوع تعلیم دے رہے تھے۔ وہ منصوبے بنا رہے تھے کہ یسوع کو غلط کہتے ہو ئے پکڑ لیں۔ 16 فریسیوں نے یسوع کو فریب دینے کے لئے کچھ لوگوں کو بھیجا۔ انہوں نے اپنے کچھ پیرو کاروں کو روانہ کیا اور بعض لوگوں کو جو ہیرودی نامی گروہ سے تھے۔ ان لوگوں سے کہا، “اے آقا! ہم جانتے ہیں کہ تو فرمانبردار شخص ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ خدا کی راہ کے بارے میں تو نے حق کی تعلیم دی ہے۔ تو خوفزدہ نہیں ہے کہ دیگر لوگ تیرے بارے میں کیا سوچتے ہیں۔ سب انسان تیرے لئے مساوی ہیں۔ 17 پس تو اپنا خیال ظا ہر کر۔کہ قیصر کو محصول دینا صحیح ہے یا غلط۔” 18 یسوع ان لوگوں کی مکّاری وعیاری کو جان گئے۔ اس وجہ سے اس نے ان سے کہا کہ تم ریا کار ہو مجھے غلطی میں پھنسا نے کی تم کیوں کو شش کرتے ہو ؟ 19 محصول میں دیا جانے والا ایک سکّہ مجھے دکھلاؤ۔” تب لوگوں نے ایک چاندی کا سکہ انہیں دکھایا۔ 20 تب اس نے ان سے پو چھا ، “کہ سکّے پر کس کی تصویر ہے اور کس کا نام ہے ؟ “ 21 پھر لوگوں نے جواب دیا، “وہ توقیصر کی تصویر اور اسکا نام ہے۔” تب یسوع نے ان سے کہا، “قیصر کی چیز قیصر کو دے دو اور جو خدا کا ہے خدا کو د ے دو۔” 22 یسوع کی کہی ہو ئی باتوں کو سننے والے وہ لوگ حیرت زدہ ہو کر وہاں سے چلے گئے۔ 23 اسی دن چند صدوقی یسوع کے پاس آئے ( صدوقیوں کا ایمان ہے کہ کو ئی بھی شخص مرنے کے بعد دوبارہ پیدا نہیں ہو تا۔ صدوقیوں نے یسوع سے سوال کیا۔ 24 ان لوگوں نے کہا،” ا ے آقا ! موسٰی نے کہا اگر کوئی شادی شدہ شخص مرجائے اور اسکی کوئی اولاد نہ ہو تب اسکا بھائی اس عورت سے شادی کرے اور پھر مرے ہو ئے بھا ئی کے لئے بچّے کرے۔ 25 ہمارے یہاں سات بھا ئی تھے پہلا شادی ہونے کے بعد مرگیا اس کے بچے نہیں تھے۔ اس لئے اسکی بیوی کی اس کے بھائی کے ساتھ شادی ہو ئی۔ 26 تب دوسرا بھا ئی بھی مر گیا۔ اسی طرح تیسرا بھا ئی بھی اسی طرح باقی تمام سات بھائی بھی مر گئے۔ 27 ان تمام کے بعد بالآخر وہ عورت بھی مر گئی۔ 28 لیکن ان سات بھائیوں نے بھی اس سے شادی کی۔ تب انہوں نے پو چھا کہ جب وہ مرکر دوبارہ زندہ ہونگے تو وہ عورت کس کی بیوی کہلا ئے گی۔ 29 یسوع نے ان سے کہا، “تم نے جو غلط سمجھا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ تمہیں یہ نہیں معلوم ہے کہ مقدس صحیفے کیا کہتے ہیں اور خدا کی قدرت و طاقت کے بارے میں تم نہیں جانتے۔ 30 عورتیں اور مرد جب دوبارہ زندگی پائیں گے تو وہ ( دوبارہ ) شادی نہ کریں گے وہ سب آسمان میں فرشتوں کی طرح ہونگے۔ 31 مرے ہو ئے لوگوں کی دوبارہ زندگی سے متعلق خدا نے کہا۔ 32 کیا تم نے صحیفوں میں نہیں پڑھا میں ابراہیم کا خدا ہوں اسحٰق کا خدا اور یعقوب کا بھی خدا ہوں کیا تم نے اس بات کو نہ پڑھا ہے؟ اور کہا کہ اگر یہی بات ہے تو خدا زندوں کا خدا ہے نہ کہ مردوں کا۔” 33 جب لوگوں نے یہ سنا تو اسکی تعلیم پر حیران و ششدر ہو گئے۔ 34 جب فریسیوں نے سنا کہ یسوع نے اپنے جواب سے صدوقیوں کو خاموش کر دیا ہے تو وہ سب صدوقی ایک ساتھ جمع ہو ئے 35 شریعت موسٰی میں بہت مہارت رکھنے والا ایک فریسی یسوع کو آزمانے کے لئے پوچھا۔ 36 فریسی نے کہا، “اے استاد توریت میں سب سے بڑا حکم کونسا ہے ؟” 37 یسوع نے کہا، “تجھ کو اپنے خداوند خدا سے محبت کر نا چاہئے۔ تو اپنے دل کی گہرائی سے اور تو اپنے دل و جان سے اور تو اپنے دماغ سے اسکو چاہنا۔ 38 یہی پہلا اور اہم ترین حکم ہے۔ 39 دوسرا حکم بھی پہلے کے حکم کی طرح ہی اہم ہے۔ تو دوسروں سے اسی طرح محبت کر جیسا خود سے محبت کر تا ہے۔۔ 40 اور جواب دیاکہ تمام شریعتیں اور نبیوں کی تمام کتابیں انہیں دو احکامات کے معنی اپنے اندر لئے ہو ئے ہیں۔ 41 فریسی جب ایک ساتھ جمع ہو کر آئے تو یسوع نے ان سے سوال کیا۔ 42 “مسیح کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے ؟ اور وہ کس کا بیٹا ہے ؟” فریسیوں نے جواب دیا، “مسیح داؤد کا بیٹا ہے۔” 43 تب یسوع نے فریسیوں سے پو چھا، “اگر ایسا ہی ہے تو داؤد نے اسکو خدا وند کہہ کر کیوں پکا را ؟ داؤد نے مقدس روح کی قوت سے بات کی تھی۔ داؤد نے یہ کہا ہے۔ 44 خداوند خدا نے میرے خداوند کو کہا 45 داؤد نے مسیح کو خداوند کہہ کر پکا را ہے۔ ایسی صورت میں کس طرح ممکن ہو سکتا ہے کہ وہ داؤد کا بیٹا ہے۔” 46 یسوع کے سوال کا جواب دینا فریسیوں میں سے کسی کے لئے ممکن نہ ہو سکا۔ اسی لئے اس دن سے یسوع کو فریب دینے کے لئے سوال کرنے کی کو ئی ہمت نہ کر سکا۔

23:1 تب یسوع نے وہاں موجود لوگوں سے اور پنے شاگردوں سے کہا۔ 2 “معلمین شریعت اور فریسیوں کو حق ہے کہ تجھ سے کہے کہ شریعت موسیٰ کیا ہے ؟ 3 اس وجہ سے تم کو ان کا اطا عت گذار ہو نا چا ہئے۔ اور ان کی کہی ہو ئی باتوں پر عمل کر نا چا ہئے۔ لیکن ان لوگوں کی زندگی پیروی کی جا نے کے لئے قابل عمل مثا ل نہیں ہے۔وہ تم سے جو باتیں کہتے ہیں اس پر وہ خود عمل نہیں کر تے۔ 4 وہ تو دوسروں کو مشکل ترین احکا مات دے کر ان پر عمل کر نے کے لئے ان لوگوں پر زبر دستی کر تے ہیں۔ اور خود ان احکا مات میں سے کسی ایک پر بھی عمل کر نے کی کوشش نہیں کر تے۔ 5 “وہ صرف ایک مقصد سے اچھے کام اس لئے کر تے ہیں کہ دوسرے لوگ ان کو دیکھیں وہ خاص قسم کے چمڑے کی تھیلیاں جس میں صحیفے رکھے ہوتے ہیں جن کو وہ باندھ لیتے ہیں۔ اور وہ ان تھیلیو ں کے حجم کو بڑھا تے ہو ئے جا تے ہیں۔لوگو ں کو دکھا نے کے لئے وہ اپنے خاص قسم کی پو شاکوں کو اور زیا دہ لمبے سلوا تے ہیں۔ 6 وہ فریسی اور معلمین شریعت کھا نے کی دعوتوں میں یہودی عبادت گاہوں میں بہت خاص اور مخصوص جگہوں پر بیٹھنے کی تمنا کر تے ہیں۔ 7 با زاروں کی جگہ وہ لوگوں سے عزت و بڑا ئی پا نے کی آرزو کر تے ہیں۔ اور لوگوں سے معلم کہلوا نے کے متمنی ہو تے ہیں۔ 8 “لیکن تم معلم کہلوا نے کو پسند نہ کرو۔ اس لئے کہ تم سب آپس میں بھا ئی اور بہنیں ہو اور تم سب کا ایک ہی معلم ہے۔ 9 اس دنیا میں تم کسی کو باپ کہہ کر مت پکا رو۔ اس لئے کہ تم سب کا ایک ہی باپ ہے اور وہ آسمان میں ہے۔ 10 اور تم ہا دی بھی نہ کہلا ؤ اس لئے کہ تمہا را ہا دی صرف مسیح ہی ہے۔ 11 ایک خا دم کی طرح تمہا ری خدمت کر نے وا لا شخص ہی تمہا رے درمیان بڑا آدمی ہے۔ 12 خود کو دوسروں سے اعلیٰ وارفع تصور کر نے وا لا جھکا یا جا ئے گا۔ اور جو اپنے آپ کو کمتر اور حقیر جانے گا وہ با عزت (اونچاو ترقی یافتہ ) بنا دیا جا ئے گا۔ 13 “اے معلمین شریعت اور اے فریسیو! یہ تمہا رے لئے برا ہے۔ تم منا فق ہو۔ تم لو گوں کے لئے آسمان کی بادشاہت میں دا خل ہو نے کے راستے کو مسدود کر تے ہو۔ تم خود داخل نہیں ہو ئے اور تم نے ان لوگوں کو بھی روک دیا جو داخل ہو نے کی کوشش کر رہے ہیں۔ 14 ( اے معلمین شریعت اور فریسیو میں تمہارا کیا حشر بتاؤنگا-تم تو ریاکار ہو –” اس لئے تم بیواؤں کے گھروں کو چھین لیتے ہو اور تم لمبی دعا کرتے ہو تا کہ لوگ تمہیں دیکھیں – اس لئے تم کو سخت سزا ہوگی –”)۔ اس طرح چند یونانی صحیفوں میں ۱۴واں آیت شامل کی گئی ہے – دیکھو مرقس 15 “اے معلمین شریعت اے فریسیو! میں تمہا را انجام کیا بتا ؤں تم تو ریا کار ہو تمہا ری (بتا ئی ہوئی ) راہوں کی پیر وی کرنے والوں کی ایک ایک کی تلا ش میں تم سمندروں کے پار مختلف شہروں کے دورے کر تے ہو۔ اور جب اس کو دیکھتے ہو تو تم اس کو اپنے سے بد تر بنا دیتے ہو اور تم نہا یت برے ہو جیسے تم جہنم سے وابستہ ہو۔ 16 اے معلمین شریعت اور اے فریسیو!تمہا رے لئے برا ہو گا۔ تم تو لوگوں کو راستہ بتا تے ہو لیکن تم خود اندھے ہو۔ تم کہتے ہو کہ اگر کوئی شخص ہیکل کے نام کے استعمال پر وعدہ لیتا ہے تو اس کی کوئی قدر ومنزلت نہیں۔ اور اگر کوئی ہیکل میں پا ئے جا نے وا لے سونے پر وعدہ لے تو اس کو پورا کرنا چاہئے۔ 17 تم اندھے بیوقوف ہو ! کونسی چیز عظیم ہے، سونا یا ہیکل؟ وہ سونا صرف ہیکل کی وجہ سے مقدس ہوا اس لئے ہیکل ہی عظیم ہے- 18 اگر کو ئی قربان گاہ کی قسم کھائے تو کہتے ہو کہ اس کی کو ئی اہمیت ہی نہیں ہے اور اگر کوئی قربان گاہ پر پا ئی جانے وا لی نذر کی چیز پر قسم کھا ئے تو کہتے ہو اس کو پوری کرنی چاہئے۔ 19 تم اندھے ہو تم کچھ نہیں سمجھ تے۔کونسی چیز اہم ہے ؟ نذر یا قربان گاہ؟ نذر میں قربا ن گاہ کی وجہ سے پا کی پیدا ہو تی ہے۔ اس وجہ سے قربان گا ہ ہی عظیم ہے۔ 20 اگر کوئی قربان گاہ کی قسم کھا تا ہے تو گویا قربا ن گاہ اور اس پر جو کچھ نذر کے لئے رکھا ہے اس کی قسم لینے کے برا بر ہے۔ 21 اگر کو ئی ہیکل کی قسم کھا تا ہے تو حقیقت میں وہ ہیکل کی اور اس میں رہنے وا لے کی قسم کھا تا ہے۔ 22 جو آسمان کی قسم کھا تا ہے تو یہ خدا کے عرش اور اس عرش پر بیٹھنے وا لے کی قسم کھا نے کے برا بر ہوگا۔ 23 “اے معلمین شریعت اے فریسیو!یہ تمہارے لئے برا ہے ! تم ریا کار ہو۔تم اپنی ہر چیز کا یہاں تک کہ پو دینہ، سونف اور زیرے کے پودوں میں بھی قریب قریب دسواں حصہ خدا کو دیتے ہو۔لیکن تم نے شریعت کی تعلیم میں اہم ترین تعلیمات کو یعنی عدل و انصاف ،رحم وکرم اور اصلیت کو ترک کر دیا ہے۔تمہیں خود ان احکا مات کے تا بع ہو نا ہو گا۔اب جن کاموں کو کر رہے ہو انہیں پہلے ہی کرنا چاہئے تھا۔ 24 تم لوگوں کی ر ہنما ئی کر تے ہو۔لیکن تم ہی اندھے ہو۔تم تو پینے کے مشروبات میں سے چھوٹے مچھر کو نکا ل کر بعد میں خود اونٹ کو نگل جا نے وا لو ں کی طرح ہو۔ 25 “اے معلمین شریعت ،اے فریسیو ! یہ تمہا رے لئے براہے۔تم ریا کا ر ہو۔ تم اپنے بر تن و کٹوروں کے با ہری حصے کو دھو کر صاف ستھرا تو کر تے ہو لیکن انکا اندرونی حصہ لا لچ سے اور تم کو مطمئن کر نے کی چیزوں سے بھرا ہے۔ 26 اے فریسیو تم اندھے ہو پہلے کٹو رے کے اندرونی حصہ کو اچھی طرح صاف کر لو۔ تب کہیں جا کر کٹو رے کے با ہری حصہ حقیقت میں صاف ستھرا ہوگا۔ 27 “اے معلمین شریعت اے فریسیو!یہ تمہا رے لئے بہت برا ہے ! تم ریا کا ر ہو۔تم سفیدی پھرائی ہو ئی قبروں کی ما نند ہو۔ ان قبروں کا بیرونی حصہ تو بڑا خوبصورت معلوم ہوتا ہے۔لیکن اندرونی حصہ مردوں کی ہڈیوں اور ہر قسم کی غلاظتوں سے بھرا ہو تا ہے۔ 28 تم اسی قسم کے ہو۔ تم کو دیکھنے والے لوگ تمہیں اچھا اور نیک تصور کرتے ہیں۔ لیکن تمہارا باطن ریا کاری اور بد اعمالی سے بھرا ہوا ہوتا ہے۔ 29 “اے معلمیں شریعت ،اے فریسیو! یہ تمہارے لئے بہت برا ہے ! کہ تم ریا کار ہو۔ تم نبیوں کے مقبرے تعمیر کرتے ہو۔ اور تم قبروں کے لوگوں کے لئے تکریم ظاہر کرتے ہو۔ جنہوں نے نفیس زند گی گزاری ہے۔ 30 اور تم کہتے ہو کہ اگر ہمارے آباؤ اجداد کے زمانے میں ہو تے تو نبیوں کے قتل و خون میں انکے مدد گار نہ ہو تے۔ 31 اس لئے تم قبول کرتے ہو کہ ان نبیوں کے قاتلوں کی اولاد تم ہی ہو۔ 32 تمہارے باپ دادا ؤں سے شروع کیا ہوا وہ گناہ کا کام تم تکمیل کو پہنچاؤگے۔ 33 “تم سانپوں کی طرح ہو۔ اور تم زہریلے سانپوں کے نسل سے ہو! لیکن تم خدا کے غضب سے نہ بچ سکو گے۔ تم سبھوں پر ملزم ہو نے کی مہر لگے گی اور سب جہنم میں گھسیٹے جاؤگے۔ 34 میں تم سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ میں تمہارے پاس نبیوں عالموں اور معلمین کو بھیجو نگا اور تم ان میں سے بعض کو قتل کرو گے۔ اور بعض کو صلیب پر چڑھا ؤ گے۔ اور چند دوسروں کو تمہارے یہودی عبادت گاہوں میں کوڑے ماروگے۔ اور انکو ایک گاؤں سے دوسرے گاؤں کو بھگاؤ گے۔ 35 اس وجہ سے سطح زمین پر تمام راستبازوں کے کئے گئے قتل کے الزام میں تم قصور وار ٹھہرو گے۔ ہابل جو ایمان دار تھا اس سے لیکر برکیاہ کے بیٹے زکریاہ تک کے قتل کا الزام تمہارے سر آئیگا اسے ہیکل اور قربان گاہ کے درمیان قتل کیا گیا تھا۔ 36 میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ اس دور میں تم سبھوں پر جو کہ اب رہ رہے ہو یہ سب الزامات عائد ہو تے ہیں۔ 37 “اے یروشلم اے یروشلم ! تو نے نبیوں کو قتل کیا ہے۔ خدا نے جن لوگوں کو تیرے پاس بھیجا انکو پتھّروں سے مار کر تو نے قتل کیا ہے۔ کئی مرتبہ میں تیرے لوگوں کی مد کرنا چا ہا۔ جس طرح مرغی اپنے چوزوں کو اپنے پروں تلے چھپا لیتی ہے۔ اسی طرح مجھے بھی تیرے لوگوں کو یکجا کر نے کی آرزو تھی۔ لیکن تو نے یہ نہیں چاہا۔ 38 دیکھو ! تمہارا گھر پوری طرح خالی ہو جائیگا۔ 39 میں تم سے کہہ رہا ہوں کہ تم اب سے دوبارہ مجھے نہ دیکھ سکو گے جب تک تم یہ نہ کہو مبارک ہے وہ شخص جو خدا وند کے نام پر آتے ہیں۔”

24:1 یسوع جب ہیکل میں جا رہے تھے تو اسکے شاگرد ہیکل کی عمارتوں کو دکھا نے کے لئے اس کے پاس آئے۔ 2 تب یسوع نے ان سے کہا، “کیا ان تمام عمارتوں کو تم دیکھ رہے ہو ؟ میں تم سے سچ کہتا ہوں یہ سب برباد ہو جائیں گے۔ یہاں کا ہر پتھرزمین پر پھینک دیا جائیگا۔ اور ایک پتھر بھی باقی نہ رہیگا۔ 3 جب یسوع زیتون کے پہاڑ پر بیٹھے ہوئے تھے تو شاگرد اکیلے اس کے پاس آکر پوچھنے لگے کہ” یہ سب کچھ کب پیش آئیں گے ! آپ دوبارہ کب آئیں گے اور دنیا کے ختم ہو نے کا وقت کب آئیگا ان کی نشانیاں کیا ہوں گی۔ “ 4 یسوع نے انہیں یہ جواب دیا، “چوکنّا رہو ! اپنے کو دھوکہ دینے کے لئے کسی کو موقع نہ دو۔ 5 کیوں کہ بہت لوگ آئیں گے اور میرے نام پر اپنے آپ کو مسیح بتاکر بہت سے لوگوں کو دھو کہ میں ڈال دیں گے۔ 6 تم لڑائیوں کی آواز اور بہت دور واقع ہونے والی جنگوں کی خبریں سنو گے۔ لیکن گھبرانا نہیں۔ دنیا کے خاتمہ سے پہلے ان باتوں کا واقع ہو نا ضروری ہے۔ 7 ایک قوم دوسری قوم کے خلاف جنگ کریگی۔ ایک سلطنت دوسری سلطنت کے خلاف لڑیگی اور قحط سالیاں ہو نگی۔ خطوں میں زلزلے آئیں گے۔ 8 یہ تمام واقعات بچے کی ولادت کی تکلیف کے مماثل ہو نگے۔ 9 “تب تمہیں لوگ ستائیں گے، اور سزائے موت دینے کے لئے حاکموں کے حوالے کریں گے۔ تمام لوگ تمہارے مخالف ہونگے۔ محض تمہارا مجھ پر ایمان لانے کی وجہ سے یہ تمام باتیں تمہارے ساتھ پیش آئیں گی۔ 10 اسوقت کئی ایمان دار اپنے ایمان کو کھو دینگے۔ اور ایک دوسرے کے مخا لف ہونگے اور پلٹ کر ایک دوسرے کی مخا لفت کریں گے اور نفرت کریں گے۔ 11 کئی جھو ٹے نبی آکر بہت سے لوگوں کو فریب دینگے۔ 12 دنیا میں ظلم و زیادتی بڑھ جائیگی۔ بہت سارے ایمان والوں میں محبت و مروّت سرد پڑ جائیگی۔ 13 لیکن آخری وقت تک جو راسخ الیقین ہو گا وہ نجات پائیگا۔ 14 خدا کی بادشاہت کی خوشخبری اس دنیا میں ہر قوم تک پہنچا ئی جائیگی۔ تا کہ سب قومیں اس کو سنیں تب خاتمہ کی آمد ہو گی۔ 15 خوفناک قسم کی تباہی کے لئے وجہ بننے والی ایک چیز جس کے بارے میں دانیال نبی نے کہا ہے۔ یہ ہیبت ناک چیز ہیکل کی پاک مقدس جگہ میں کھڑے ہو کر دیکھو گے۔” اس کو پڑھنے والا اسکے معنٰی سمجھ سکتا ہے۔ 16 “اسوقت یہوداہ میں رہنے والے لوگ پہاڑوں میں بھا گ جائیں گے۔ 17 جو گھر کی اوپری منزل میں رہتے ہیں نیچے اتر کر گھر میں سے اپنی چیزیں لئے بغیر ہی بھا گ جائیں گے۔ 18 کھیت میں کام کرنے والا بھی اپنا جبہ لینے کے لئے گھر کو واپس نہ لوٹے گا۔ 19 افسوس ! اسوقت کی حاملہ عورتوں کے لئے اور شیرخوار بچوں کی ماؤں کے لئے سوگ اور ماتم کا وقت ہو گا۔ 20 تمہارے لئے راہ فرار اختیار کر نے کا یہ وقت موسم سرما میں یا سبت کے دن میں نہ آنے کی دعا کرو۔ 21 کیوں کے اس وقت ایک ہیبت ناک ماتم مچ جائیگا۔ دنیا کے وجود میں آنے کے بعد سے ایسی مصیبت و پریشانی نہ پیش آئی اور نہ آئندہ کبھی ایسی مصیبت اور پریشانی آئیگی۔ 22 خدا نے اس خوف ناک وقت کو دور کرکے اس میں کمی کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ورنہ کسی کازندہ رہنا ممکن نہ ہو سکے گا۔ اور وہ اپنے چنے ہو ئے لوگوں کی معرفت سے اسوقت میں کمی کریگا۔ 23 ایسے وقت میں بعض تم سے کہیں گے کہ دیکھو مسیح وہاں ہے اور کو ئی دوسرا کہیگا کہ وہ یہاں ہے ! لیکن انکی باتوں پر یقین نہ کرو۔ 24 جھو ٹے مسیح اور جھوٹے نبی آئیں گے تاکہ خدا کے منتخب کردہ لوگوں کو معجزے اور نشانیاں دکھا کر فریب دینگے۔ 25 اسکے پیش آ نے سے پہلے ہی میں تم کو انتباہ دے رہا ہوں۔ 26 “بعص لوگ کہیں گے کہ مسیح بیابان میں ہے تو تم بیابان میں نہ جانا۔ اگر کوئی یہ کہیں کہ مسیح کمرہ میں ہے تو تم یقین نہ کرنا۔ 27 ابن آدم ایسے آئیگا کہ اسکے آنے کو تمام لوگ دیکھ سکتے ہیں۔ ابن آدم کا ظہور ایسا ہوگا جیسا کہ آسمان میں بجلی چمکی ہے اور وہ آسمان کے ایک کو نے سے دوسرے کو نے تک دکھا ئی دیتی ہے۔ 28 تمہیں یہ بات معلوم ہے کہ جہاں گدھ جمع ہو تی ہیں وہاں مردار چیز ہو تی ہے۔ ٹھیک اسی طرح میرا آنا بھی صاف اور واضح ہو گا۔ 29 “ان دنوں کی مصیبتوں کے فوراً بعد یہ واقعہ پیش آئیگا: 30 “تب ابن آدم کی آمد کی علامت ظا ہر ہو گی۔دنیا کے لوگ گر یہ وزاری کریں گے۔آسمان میں بادلوں پر آتے ہو ئے تمام لوگ ابن آدم کو دیکھیں گے۔ اور وہ اپنی قوت و جلا ل اور بر کت کے ساتھ آ ئے گا۔ 31 بگل کی اونچی آواز کے اعلا ن کے ذریعہ ابن آدم اپنے فرشتوں کو زمین کے چا روں طرف بھیجے گا۔ وہ جن کو منتخب کیا ہے فرشتے انکوزمین کے چا روں طرف سے جمع کریں گے۔ 32 انجیر کا درخت ہمیں ایک سبق سکھا تا ہے۔ جب انجیر کے درخت کی شا خیں ہری ہو کر اس میں نرم کو نپلیں نکلنی شروع ہو تی ہیں تو تم سمجھ لیتے ہو کہ گرمی کا موسم آنے وا لا ہے۔ 33 اسی طرح جب سے تم ان حا لا ت کو پیش آتے ہو ئے دیکھو گے تو سمجھو کہ وہ وقت با لکل قریب ہے۔ 34 میں تم سے سچ کہتا ہوں۔ آج کے دور کے لوگوں کی زندگی ہی میں یہ واقعات پیش آئیں گے۔ 35 پو ری دنیا زمین وآسمان تباہ ہو جا ئیں گے۔ لیکن میں نے جن باتوں کو کہا ہے وہ نہیں مٹیں گی۔ 36 “وہ دن یا وہ وقت کب آ ئے گا کو ئی نہیں جانتا۔ بیٹے کو اور آسما نی فرشتوں کو وہ دن یا وہ وقت کب آئے گا معلوم نہیں۔صرف باپ کو معلوم ہے۔ 37 نوح کے زما نے میں جیسے حا لا ت پیش آئے تھے ویسے ہی حا لا ت ابن آدم کے آنے وا لے زمانے میں بھی پیش آئیں گے۔ 38 ان دنوں سیلاب سے پہلے لوگ کھا تے بھی تھے پیتے بھی تھے۔لوگ شادی بیاہ کر تے تھے۔ اور اپنے بچوں کی شادیاں بھی کیا کر تے تھے۔ نوح کی کشتی میں سوار ہو کر جانے سے پہلے تک لوگ ایسا ہی کیا کر تے تھے۔ 39 ان کو یہ معلوم نہ تھا کہ کیا پیش آنے وا لا ہے۔ پھر بعد میں پانی کا طوفان آیا اور ان تمام لوگوں کو تباہ و برباد کردیا۔ ابن آدم کے آنے کے وقت بھی ایسا ہی ہوگا۔ 40 اگر کھیت میں دو آدمی کام کر رہے ہوں گے تو ایک کو لے لیا جائیگا اور دوسرے کو چھو ڑ دیا جائیگا۔ 41 دو عورتیں اگر چکی میں اناج پیس رہی ہو نگی تو ان میں سے ایک کو لے لیا جائیگا۔ اور دوسری کو چھو ڑ دیا جائیگا۔ 42 اس وجہ سے ہمیشہ تیار رہو۔ تمہارے خداوند کے آنے کا دن تمہیں معلوم نہ ہوگا۔ 43 اس بات کو یاد کرو۔ اگر یہ بات گھر کے مالک کو معلوم ہو کہ چو ر اس وقت آئیگا تو وہ جاگتا رہیگا اور چور کو گھر میں نقب لگا نے نہ دیگا۔ 44 اسلئے تم بھی تیار رہو۔ اور تم سوچ بھی نہ سکو گے کہ ابن آدم آجائیگا۔ 45 “عقلمند اور قابل بھروسہ نوکر کون ہوسکتا ہے ؟ وہی نوکر جسے مالک دوسرے نوکروں کو وقت پر کھانا دینے کی ذمہ داری سونپتا ہے۔ 46 اس نوکر کو بڑی ہی خوشی ہو گی جبکہ وہ مالک کے دیئے گئے کام کو کرتا رہے اور پھر اسوقت مالک بھی آجائے۔ 47 میں تم سے سچ ہی کہتا ہوں کہ وہ مالک اپنی ساری جائیداد پر اس نوکر کو بحیثیت نگراں کار مقرّر کرتا ہے۔ 48 اگر وہ نوکر بے وفا ہو اور وہ یہ سمجھ بیٹھے کہ اسکا مالک جلدی واپس لوٹنے والا نہیں ہے تو اسکے لئے کیا بات پیش آئیگی ؟ 49 وہ نوکر دوسرے نوکروں کو مارنا شروع کریگا۔ اور شرابیوں کی صحبت میں پیتا رہیگا۔ 50 اور وہ تیار بھی نہ رہیگا۔ کہ غیر متوقع طور پر اسکا مالک آجائیگا۔ 51 اور وہ اسکو سزا دیکر وہ جگہ جہاں ریا کار ہونگے اسکو ڈھکیل دیگا۔ اور اس جگہ پر لوگ تکلیف میں مبتلاء ہونگے اور اپنے دانتوں کو پیسیں گے۔

25:1 اس دن آسمان کی بادشاہت کی مثال ایسی ہوگی کہ دس کنواریاں اپنے چراغ لئے ہوئے دولہے سے ملاقات کے لئے گئیں۔ 2 ان میں سے پانچ احمق تھیں۔ اور دیگر پانچ عقلمند تھیں۔ 3 وہ جو کم عقل لڑ کیاں تھیں اپنے ساتھ مشعلوں کے ضرورت کے مطابق تیل نہ لائیں۔ 4 اور جو عقلمند لڑکیاں تھیں وہ اپنی مشعلوں کے لئے حسب ضرورت تیل ساتھ لے لیں۔ 5 دولہے کی تشریف آوری میں تا خیر ہو ئی۔ وہ سب تھک کر اونگھتے ہوئے سو گئیں۔ 6 “کسی نے اعلان کیا کہ آدھی رات گزرنے پر دولہا آرہا ہے ! آجاؤ اور اس سے ملاقات کرو۔ 7 “تب تمام لڑ کیاں ہوشیاری سے اپنی تمام مشعلیں تیار کر لیں۔ 8 کم عقلمند لڑ کیاں عقلمند لڑکیوں سے کہنے لگیں کہ تمہارے تیل میں سے تھوڑا سا ہمیں بھی دے دو اس لئے کہ ہماری مشعلوں میں تیل ختم ہو گیا ہے۔ 9 عقلمند لڑکیوں نے جواب دیا کہ نہیں ہمارے پاس جو تیل ہے وہ ہمارے اور تمہارے لئے کافی نہ ہوگا۔ اور کہا کہ دکان کو جاکر تھوڑا تیل اپنے لئے خرید لو۔ 10 “تب پانچ کم عقلمند لڑکیاں تیل خرید نے کے لئے چلی گئیں۔ جب وہ جا رہی تھیں کہ دولہا آ گیا۔ وہ لڑکیاں جو نکلنے کے لئے تیار تھیں دولہے کے ساتھ دعوت میں چلی گئیں۔ پھر بعد دروازہ بند کر دیا گیا۔ 11 “کم عقلمند لڑکیاں آئیں اور کہنے لگیں کہ جناب جناب اندر جانے کے لئے ہمارے واسطے دروازہ کھولدو۔ 12 “لیکن دولہے نے جواب دیا، “میں تم سے سچ ہی کہتا ہوں کہ تم کون ہو یہ میں نہیں جانتا۔ 13 “اس وجہ سے تم ہمیشہ تیار رہو۔ اسلئے کہ ابن آدم کے آنے کا دن یا وقت تو تم نہیں جانتے۔ 14 “آسمانی بادشاہت ایک ایسے آدمی سے مشابہ ہے کہ جو اپنے گھر کو چھو ڑ کر دوسرے مقام پر کسی سے ملاقات کرنے کے لئے سفر کرتا ہو وہ آدمی سفر پر نکلنے سے پہلے اپنے نوکر سے بات کر کے اپنی جائیداد کی نگرانی کرنے کے لئے کہا ہو۔ 15 وہ ان نوکروں کی استطاعت کے مطابق انکو کتنی ذمہ داری دی جائے اسکا اس نے فیصلہ کر لیا۔ اس نے ایک نوکر کو پانچ توڑے اور دوسرے کو دو توڑے دیا۔ تیسرے نوکر کو ایک توڑا دیا۔ پھر وہ دوسری جگہ چلا گیا۔ 16 جس نوکر نے پانچ توڑے لیا تھا اس نے فوراً اس رقم کو تجارت میں لگایا۔ اور اس سے مزید پانچ توڑے نفع کمایا۔ 17 اور جس نوکر نے دو توڑے پایاتھا اسی طرح اس نے بھی اس رقم کو کار وبار میں لگایا۔ اور دو توڑے کا منافع کمایا۔ 18 لیکن جس نے ایک توڑا پایا تھا وہ چلا گیا اور زمین میں ایک گڑھا کھودا اور اپنے آقا کی رقم کو چھپا کر رکھ دیا۔ 19 “ایک عرصہ دراز کے بعد مالک گھر آیا اور اپنی دی ہو ئی رقم کے بارے میں اپنے نوکروں سے حساب پو چھا۔ 20 وہ نوکر جس نے پانچ توڑے پائے تھے اس نے مزید پانچ توڑے اپنے مالک کے سامنے لائے اور کہنے لگا کہ میرے مالک تم نے مجھ پر اعتماد کر کے پانچ توڑے دیئے تھے تو میں نے اس کو کاروبار میں شامل کیا اور دیکھو پانچ تورے میں نے کمائے ہیں۔ 21 “مالک نے کہا کہ تو ایک اچھا اور قابل بھروسہ نوکر ہے۔ اس چھو ٹی سی رقم کو اچھے انداز سے استعمال میں لا یا ہے۔ اس وجہ سے میں تجھے اس سے بھی ایک بڑا کام دونگا۔ اور تو بھی میری خوشی میں شریک ہو جا۔ 22 “پھر دو توڑے والا نوکر اپنے مالک کے پاس آکر کہنے لگا کہ میرے مالک ! تو نے مجھے صرف دو توڑے دیئے تھے میں نے اس رقم کو استعمال کیا اور اس سے مزید دوتوڑے کمایا ہوں۔ 23 “مالک نے جواب دیا کہ تو بھی ایک قابل اعتماد اچھا نوکر ہے۔ تو نے اس چھو ٹی سی رقم کو ایک اچھے انداز میں خرچ کیا۔ اس کی وجہ سے میں تجھے اس سے بھی ایک برا کام دونگا۔ اس لئے تو میری خوشحالی میں شامل ہو جا۔ 24 “تب ایک توڑا پا نے والا نوکر اپنے مالک کے پاس آکر کہتا ہے کہ اے میرے مالک ! تو ایک سخت آدمی ہے۔ تو ایسی جگہ سے پا تا ہے جہاں تو بویا ہی نہیں ہے۔ اور جہاں تخم ریزی نہیں کر تا ہے وہاں سے فصل کو کاٹتا ہے۔ 25 اس وجہ سے میں نے گھبراکر تیری رقم کو زمین میں چھپا دیا ہے۔ اور کہا کہ تو نے مجھے جو رقم دے رکھی تھی وہ یہاں ہے اسکو لے لے۔ 26 “اس پر مالک نے کہا کہ تو ایک سست و لا پرواہ اور برا نوکر ہے اور کیاتجھے یہ بات معلوم نہیں ہے کہ میں تخم ریزی نہ کرنے کی جگہ سے فصل پاتا ہوں اور جہاں بیج نہیں بوتا ہوں وہاں سے فصل کاٹتا ہوں۔ 27 اس لئے تجھے چاہئے تھا کہ تو میری رقم کو سود پر دیتا۔ تب اصل رقم کے ساتھ میں سود بھی پا لیتا۔ 28 “تب مالک نے اپنے دوسرے نوکروں سے کہا کہ اس سے وہ ایک توڑا لے لو اور اس کو دیدو جس نے پانچ توڑے پا ئے ہیں۔ 29 اپنے پاس کی رقم جو کام میں لا تا ہے ہر ایک کو بڑھا کر دیا جائیگا اور جس کسی نے اسکا استعمال نہ کیا تو اس آدمی کے پاس جو بھی رقم ہو گی اسے چھین لی جائیگی۔ 30 پھر اس نوکر کے بارے میں یہ حکم دیا کہ بیکار کے نوکر کو باہر اندھیرے میں دھکیل دو جہاں لوگ تکلیف کا ماتم کرتے ہوئے اپنے دانتوں کو پیستے ہونگے۔ 31 “ابن آدم دوبارہ آئیگا۔ وہ عظیم جلال کے ساتھ آئیگا۔ انکے تمام فرشتے انکے ساتھ آئینگے۔ وہ بادشاہ ہے اور عظیم تخت پر جلوہ فگن ہوگا۔ 32 تمام لوگ زمین پر ابن آدم کے سامنے جمع ہونگے۔ ایک چرواہا جس طرح اپنی بھیڑوں کو بکریوں سے الگ کرتا ہے ٹھیک اسی طرح وہ انکو الگ کریگا۔ 33 ابن آدم بھیڑوں کو اپنی داہنی جانب اور بکریوں کو اپنی بائیں جانب کھڑا کرے گا 34 “تب بادشاہ اپنی داہنی جانب وا لے لوگوں سے کہے گا کہ آؤ میرے با پ نے تمہا رے لئے بڑی بر کتیں دی ہیں۔ آؤ اور خدا نے تم سے جس سلطنت کو دینے کا وعدہ کیا ہے اس کو پا لو۔ وہ سلطنت قیام دنیا کے وجود سے ہی تمہا رے لئے تیار کی گئی ہے۔ 35 تم اس سلطنت کو حا صل کرو۔ کیوں کہ میں بھو کا تھا۔ اور تم لوگوں نے کھا نا دیا۔میں پیاسا تھا اور تم نے مجھے کچھ پینے کے لئے دیا۔ میں جب اکیلا گھر سے دور تھا تو لوگوں نے مجھے اپنے گھر مہمان بنا یا۔ 36 اور میں بغیر کپڑوں سے تھا تو تم نے مجھے پہننے کے لئے کچھ دیا میں بیمار تھا اور تم نے میری بیمار پرسی کی۔ میں قید میں تھا اور تم مجھے دیکھنے کے لئے آئے۔ 37 “تب نیک اور سچے لوگ کہیں گے اے ہمارے خداوند تجھے بھوکا دیکھ کر ہم نے کب تجھے کھا نا دیا ؟ اور تجھے پیا سا دیکھ کر ہم نے تجھے کب پانی دیا۔ 38 اور تجھے تنہا وطن سے دور دیکھ کر ہم نے کب تجھے مہمان بنایا اور کب تجھے بغیر کپڑوں کے دیکھ کر پہننے کے لئے کچھ دیئے۔ 39 ہم نے کب تجھے بیمار دیکھا یا قید میں اور تیری خاطر مدد کی۔ 40 “تب بادشاہ جواب دیگا میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ تم یہاں میرے بندوں کے ساتھ جو کچھ کر تے ہو گویا کہ وہ میرے ساتھ کر نے کے برابر ہے۔ 41 پھر بادشاہ نے اپنی داہنی جانب کے لوگوں سے کہا کہ میرے پاس سے دور ہو جاؤ۔ خدا نے تمہیں سزا دینے کا فیصلہ بہت پہلے کر لیا ہے۔ آ گ میں جاؤ جو ہمیشہ جلا ئیگی۔ وہ آ گ شیطان اور اسکے فرشتوں کے لئے تیار کی گئی تھی۔ 42 کیوں کہ میں بھوکا تھا اورتم لوگوں نے مجھے کھا نا نہ دیا۔ اور تم چلے گئے۔ اور میں پیاسا تھا تم لوگوں نے مجھے پینے کے لئے کچھ نہ دیا۔ 43 میں تنہا تھا، اور گھر سے دور تھا اور تم لوگوں نے مجھے اپنے گھر میں مہمان نہ ٹھہرایا۔ اور میں کپڑوں کے بغیر تھا لیکن تم لوگوں نے مجھے پہنے کے لئے کچھ نہ دیا۔ میں بیمار تھا اور قیدخانے میں تھا اور تم نے میری طرف نظر نہ اٹھا ئی۔ 44 “تب ان لوگوں نے جواب دیا اے خدا وند ہم نے کب دیکھا کہ تو بھو کا اور پیاسا تھا ؟ اور تو کب اکیلا اور گھر سے دور تھا ؟ یا کب ہم نے تجھے بغیر کپڑوں کے یا بیما ر یا قید میں دیکھا ؟ تجھے ان تما م با توں کو دیکھ نے کے با وجود بھی ہم تیری مدد کئے بغیر کب گئے۔ ؟ 45 “تب بادشا ہ انہیں جواب دے گا میں تم سے سچ کہتا ہوں۔ تم نے یہاں میرے بے شمار بندوں کے لئے کچھ کر نے سے انکا ر کیا تو میرے لئے بھی انکار کیا۔ 46 “پھر برے لوگ وہاں سے نکل جا ئیں گے۔ اور انہیں روزانہ سزا ملتی رہے گی لیکن نیک و راستباز لوگ ہمیشگی کی زندگی پا ئیں گے۔”

26:1 یسوع نے جب ان تمام باتوں کو سنا دیا اور اپنے شاگردوں سے کہا۔ 2 “تمہیں معلوم ہے کہ دو دن بعد فسح کی تقریب ہے اور یہ بھی کہا کہ اس دن ابن آدم کو صلیب پر چڑھا نے کے لئے دشمنوں کے حوا لے کر دیا جا ئے گا۔” 3 اور ادھر سردار کا ہنوں اور بزرگ یہودی قائدین نے اعلیٰ کا ہن کی رہا ئش گاہ پر اجلا س رکھا تھا اور اس اعلیٰ کا ہن کا نام کا ئفا تھا۔ 4 اس اجلاس میں انہوں نے بحث و مبا حشہ کیا یسوع کو کس طرح حکمت سے قید کریں اور قتل کریں۔ 5 لیکن اہل اجلا س کے ارکان نے کہا، “ہم فسح کی تقریب کے موقع پر یسوع کو گرفتار نہیں کرسکتے۔ ہم نہیں چاہتے کہ لوگ غصہ میں آئیں اور فساد کا سبب بنیں۔ 6 جب یسوع بیت عنیاہ میں شمعون کوڑھی کے گھر میں تھے۔ 7 تب ایک عورت نے سنگ مر مر کی عطردان میں قیمتی عطر لا ئی اور جب یسوع کھا نا کھا نے کے لئے بیٹھا تو اسکے سر پر اس عطر کو انڈیل دیا۔ 8 اس منظر کو دیکھنے والے شاگرد اس عورت پر غصّہ ہوئے اور کہا “اس نے اس قیمتی عطر کو کیوں ضا ئع کیا ؟ 9 اور انہوں نے کہا کہ اس کو اچھی قیمت میں بیچ کر اس رقم کو غریب لوگوں میں تقسیم کی جا سکتی تھی “۔ 10 لیکن یسوع جو اس واقعہ کی وجہ کو سمجھتا تھا اپنے شا گردوں سے کہا ، “اس عورت کو کیوں تکلیف دے رہے ہو۔ جس نے تو میرے حق میں بہت ہی اچھا کام کیا ہے۔ 11 غریب لوگ تو تمہارے ساتھ ہمیشہ رہتے ہی ہیں۔ لیکن میں تو تمہارے ساتھ ہمیشہ نہ رہو نگا۔ 12 میرے مرنے کے بعد میرے دفن کی تیا ری کے لئے اس عورت نے میرے جسم پر عطر کو ڈالدیا ہے۔ 13 اور کہا کہ میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ دنیا میں جہاں جہاں خوشخبری سنا ئی جائےگی۔ تو وہاں اس کام کو اسکی یاد میں معلوم کرا یا جائیگا۔” 14 تب بارہ شاگردوں میں سے ایک یہوداہ اسکر یوتی تھا وہ سردار کاہنوں کے پاس گیا۔ 15 اور اس نے پوچھا، اگر میں یسوع کو پکڑ کر تمہارے حوالے کروں تو تم مجھے کتنے پیسے دوگے “۔؟ کاہنوں نے یہوداہ کو تیس چاندی کے سکّے دیئے۔ 16 اسی دن سے یہوداہ یسوع کو پکڑوانے کے لئے وقت کے انتظار میں تھا۔ 17 “فسح کی تقریب کے پہلے دن شاگرد یسوع کے پاس آکر کہنے لگے کہ” ہم تیرے لئے فسح کی تقریب کے کھا نے کا کہاں انتظام کریں ؟ 18 یسوع نے کہا، “تو شہر میں جا اور میں جس شحص کی نشان دہی کرتا ہوں اس سے ملکر کہنا کہ مقرّرہ وقت قریب ہے۔ اور اس سے یہ بھی کہنا کہ فسح کی تقریب کا کھا نا تیرے گھر میں استاد اپنے شاگردوں کے ساتھ کھا ئے گا۔” 19 شاگردوں نے و یسا ہی کیا جیسا کہ یسوع نے کہا اور فسح کی تقریب کے کھا نے کا انتظام کیا۔ 20 شام میں یسوع اپنے بارہ شاگردوں کے ساتھ کھا نا کھا نے بیٹھے تھے۔ 21 جب سب کھا نا کھا رہے تھے تو یسوع نے کہا، “میں تم سے سچ کہتا ہوں۔ یہاں پر موجودہ بارہ لوگوں میں سے کوئی ایک مجھے دشمنوں کے حوالے کریگا۔” 22 شاگردوں نے اس بات کو سن کر بہت افسوس کیا اور شاگردوں میں سے ہر ایک یسوع سے کہنے لگا، “اے خدا وند ! حقیقت میں وہ میں نہیں ہوں۔” 23 یسوع نے کہا، “وہ جس نے میرے ساتھ طباق میں اپنے ہاتھ ڈبویا ہے۔ وہی میرا مخالف ہو گا۔ 24 اور کہا کہ صحیفوں میں لکھا ہے کہ ابن آدم وہاں سے نکل جا ئے گا اور مر جائیگا۔ لیکن وہ جس نے اس کو قتل کے لئے حوالے کیا تھا اس کے لئے تو بڑی خرابی ہو گی۔ اور کہا کہ اگر وہ پیداہی نہ ہو تا تو وہ اسکے حق میں بہت بہتر ہو تا۔” 25 تب یسوع کو اسکے دشمنوں کے حوالے کر نے والے یہوداہ نے کہا، “اے میرے استاد ! یقیناً میں تیرا مخالف نہیں ہوں۔ یہوداہ وہی ہے جس نے یسوع کو دشمنوں کے حوالہ کیا تھا۔ یسوع نے جواب دیا” ہاں وہ تو وہی ہے۔” 26 جب وہ کھا نا کھا رہے تھے تو یسوع نے روٹی اٹھا لی اور خدا کا شکر ادا کیا اور اس کو توڑ کر کہا، “اسکو اٹھا لو اور کھا ؤ، اور اپنے شاگردوں کو یہ کہہ کر دیا کہ یہ میرا جسم ہے۔ “ 27 پھر یسوع نے مئے کا پیا لہ اٹھا یا اور اس پر خدا کا شکر ادا کیا اور کہا، “ہر کو ئی اس کو پی لے۔ 28 نیا معاہدہ کو قائم کرنے کا یہ مئے میرا خون ہے۔ اور یہ بہت سے لوگوں کے گناہوں کی معا فی و بخشش کے لئے بہایا جا نے والا خون ہے۔ 29 میں اس وقت اس مئے کو نہیں پئیوں گا جب تک میرے باپ کی بادشاہی میں ہم پھر دوبارہ جمع نہ ہونگے تب میں تمہارے ساتھ اسکو دوبارہ پیونگا۔ اور یہ نئی مئے ہو گی۔ اس طرح کہتے ہو ئے وہ ان کو پینے کے لئے دیدیا۔” 30 تب تمام شاگرد فسح کی تقریب کا گیت گا نے لگے پھر اسکے بعد وہ زیتون کے پہاڑ پر چلے گئے۔ 31 یسوع نے اپنے شاگردوں سے کہا، “آج رات تم سب میرے تعلق سے اپنے ایمان کو ضائع کر لو گے۔صحیفوں میں لکھا ہے: 32 لیکن میں مر نے کے بعد پھر موت سے جی اٹھوں گا۔ تب میں گلیل جا ؤں گا تمہا رے وہاں پہنچ نے سے پہلے ہی میں وہاں رہوں گا۔” 33 پطرس نے جواب دیا، “ہو سکتا ہے کہ دوسرے تمام شاگرد تیرے تعلق سے اپنے ایما ن کو ضا ئع کر لیں۔ لیکن میں تو ایسا ہر گز نہ کروں گا “۔ 34 “میں تجھ سے سچ کہتا ہوں آج رات مرغ بانگ دینے سے پہلے تو میرے با رے میں تین مرتبہ کہےگا کہ میں تو اسے جانتا ہی نہیں “۔ 35 لیکن پطرس نے کہا، “میرے لئے تیرے ساتھ مرنا گوارہ ہوگا مگر تیرا انکا ر پسند نہ ہوگا۔” اسی طرح تمام شاگردوں نے بھی یہی کہا۔ 36 پھر اس کے بعدیسوع اپنے شاگردوں کے ساتھ گتسمنی نام کے مقام کو گئے۔ تب یسوع نے اپنے شاگردوں سے کہا، “یہیں بیٹھے رہنا میں وہاں جا کر دعا کرتا ہوں۔” 37 یسوع پطرس اور زبدی کے دونوں بیٹوں کو ساتھ لے کر گیا۔تب یسوع بہت افسوس کرتے ہوئے شکستہ دل ہو کر ان سے کہا۔، 38 “میری جان غم سے بھر گئی۔ اور میرا قلب حزن و ملا ل سے پھٹا جا رہا ہے۔ اور کہا کہ تم سب یہیں پر میرے ساتھ بیدار رہو-” 39 تب یسوع ان سے تھو ڑی دور جا کر زمین پر منھ کے بل گرے اور دعا کی” اے میرے باپ ! اگر ہو سکے تو غموں کا یہ پیالہ مجھے نہ دے۔تو اپنی مر ضی سے جو چا ہے کر۔ اور میری مرضی سے نہ کر “ 40 پھر اس کے بعد یسوع اپنے شاگردوں کے پاس لوٹ گئے۔ان کو سوتے ہو ئے دیکھ کر اس نے پطرس سے کہا، “کیا تمہا رے لئے میرے ساتھ ایک گھنٹہ بیدار رہنا ممکن نہیں ؟ 41 بیدار رہتے ہو ئے دعا کرو تا کہ آزما ئش میں نہ پڑو اور کہا روح تو آمادہ ہے لیکن جسم کمزور ہے۔” 42 یسوع دوسری مرتبہ دعا کر تے ہو ئے تھوڑی دور تک گئے اور کہے، “اے میرے باپ! اگر توغموں کا پیالہ مجھ سے دور کرنا نہیں چاہتا اور اگر مجھے یہ پینا ہی پڑیگا تو تیری مرضی سے ایسا ہو نے دے-” 43 پھر جب یسوع اہنے شاگردوں کے پاس واپس لوٹے تو وہ کیا دیکھتے ہیں کہ وہ سو رہے ہیں۔اور ان کی آنکھیں بہت تھکی ہو ئی تھیں۔ 44 اس طرح سے یسوع ایک بار پھر ان کو چھوڑ کر کچھ دور جانے کے بعد تیسری مرتبہ مزید اسی طرح دعا کر نے لگے۔ 45 تب یسوع نے اپنے شاگردوں کے پاس واپس لوٹ کر کہا، “کیا تم ابھی تک نیند اور آرام کر رہے ہو؟ابن آدم کو گنہگاروں کے حوا لے کر نے کا وقت قریب آ گیا ہے۔ 46 کھڑے ہوجاؤ!ہمیں جا نا ہو گا۔ اور مجھے دشمنوں کے حوا لے کر نے والا آدمی یہاں پہنچ گیا ہے۔” 47 یسوع باتیں کر ہی رہے تھے کہ یہوداہ وہاں آ گیا۔ اور یہوداہ ان بارہ شاگردوں میں سے ایک تھا۔سردار کا ہنوں اور بزر گ یہودی قائدین کی طرف سے بھیجے ہو ئے کئی لوگ اس کے ساتھ تھے۔ وہ چھری، چاقو، تلواریں اور لا ٹھیاں لئے ہو ئے تھے۔ 48 یہوداہ نے ان کو اشارہ کیا اس طرح وہ جان گئے کہ یسوع کو ن ہے جسے میں چوم لوں وہی یسوع ہے اس کوگرفتا ر کرو۔” 49 اسی وقت یہوداہ نے” یسوع “کے پاس جا کر اسے سلا م کرتے ہو ئے اس کو چوم لیا۔ 50 تب یسوع نے اس سے کہا ، “اے دوست ! تو وہی کر جس کام کو کرنے آیا ہے-” فوراً وہ سبھی لوگ آئے اور یسوع کو پکڑا اور گرفتا ر کرلیا۔ 51 جب یہ ہو رہا تھا یسوع کے ساتھیوں میں سے ایک نے اپنی تلوار کو نکا لا اعلیٰ کا ہن کے نوکر کو ما را اور اس کا کان کاٹ دیا۔ 52 یسوع نے اس سے کہا ، “تو اپنی تلوار کو میان میں رکھ دے تلوار کا استعمال کر نے والے لوگ تلوا ر ہی سے مرتے ہیں۔ 53 یقیناً تم جانتے ہو کہ اگر میں اپنے باپ سے عرض کرتا تووہ میرے لئے فرشتوں کی فوج کی بارہ ٹکڑیو ں کو بلکہ اس سے بھی زیادہ میرے بھیجا ہو تا۔ 54 اور کہا کے جس طرح صحیفوں میں لکھا ہوا ہے اس کو اسی طرح ہونا چاہئے۔” 55 تب یسوع نے ان لوگوں سے کہا تم مجھے ایک مجرم کی طرح قید کر نے کے لئے تلواریں اور لا ٹھیاں لئے ہو ئے یہاں آئے ہو۔ جب میں ہر روز ہیکل میں بیٹھ کر تعلیم دیتا تھا تب تم نے مجھے قید نہ کیا۔ 56 اور کہا کہ نبیوں نے جو کچھ لکھا ہے وہ پو را ہونے کے لئے یہ سب کچھ ہوا ہے۔ “تب شاگرد اسے چھو ڑکر بھاگ گئے۔ 57 یسوع کو قید کر نے وا لے اسے اعلیٰ کا ہن کے گھر لے گئے۔وہاں پر معلمین شریعت اور یہودیوں کے بزرگ قائدین سب ایک جگہ جمع تھے۔ 58 یسوع کا کیا حشر ہوگا اس بات کو دیکھنے کے لئے پطرس اس کو دور سے دیکھتے ہو ئے اور پیچھے چلتے ہو ئے اس اعلیٰ کا ہن کے بنگلہ کے آنگن میں آکر سنتری کے ساتھ بیٹھ گیا۔ 59 سبھی سردار کا ہن اور یہودیوں کی نسل کے لوگ یسوع کو سزائے مو ت دینے کے لئے ضرو ری جھو ٹی گواہیاں ڈھونڈیں۔ 60 کئی لوگ آتے رہے اور یسوع کے بارے میں جھو ٹے واقعات کہنے لگے۔لیکن یسوع کو قتل کر نے کے لئے کو ئی معقول وجہ تنظیم والوں کو نہ ملی۔تب دو آدمی آئے۔ 61 اور کہنے لگے کہ “یہ آدمی کہتا ہے کہ میں ہیکل کو منہدم کر کے پھر تین ہی دنوں میں نئی تعمیر کروں گا۔” 62 اعلیٰ کاہن نے کھڑے ہو کر یسوع سے کہا، “یہ لوگ تجھ پر جن الزا مات کو لگا رہے ہیں ان کے بارے میں تو کیا کہے گا ؟اور پوچھا کہ کیا جو کچھ کہہ رہے ہیں وہ صحیح ہے ؟ 63 لیکن یسوع خا موش رہے۔ اعلیٰ کاہن نے دوبارہ یسوع سے پوچھا ، “میں زندہ اور باقی رہنے وا لے خدا کے نام پر قسم دے کر پوچھ رہا ہوں ہمیں بتا کہ کیا تو خدا کا بیٹا مسیح ہے ؟” 64 یسوع نے کہا، “ہاں تیرے کہنے کے مطا بق وہ میں ہی ہوں۔ لیکن میں تجھ سے کہتا ہوں کہ اب تم ابن آدم کو خدا کے دائیں جانب بیٹھا ہوا اور آسمان میں بادلوں پر بیٹھا ہوا دیکھو گے-” 65 اعلیٰ کا ہن نے جب یہ سنا تو بہت غصہ ہوا اور اپنے کپڑے پھا ڑ لئے اور کہا، “یہ شخص خدا سے گستا خی کرتا ہے اب اسکے بعد ہمیں کسی اور گواہی کی ضرورت باقی نہیں رہی اب خدا سے کئی گستا خی کے الزام کو تم نے اس سے سنا ہے۔ 66 تم کیا سوچتے ہو ؟یہودیوں نے جواب دیا، “یہ مجرم ہے اور اس کو تو مرنا ہی چاہئے۔” 67 تب لوگوں نے اس جگہ یسوع کے چہرے پر تھوک دیا۔ اسے گھونسا ما رے اور گال پر طمانچہ رسید کئے۔ 68 انہوں نے کہا، “توہمیں دکھا کہ تو نبی ہے۔ اور اے مسیح ! ہمیں بتا کہ تجھے کس نے ما را۔” 69 اس وقت پطرس آنگن میں بیٹھا ہوا تھا۔ ایک خادمہ پطرس کے پا س آئی اور کہنے لگی۔، “تو وہی ہے جو گلیل میں یسوع کے ساتھ تھا۔” 70 لیکن پطرس نے سب کے سامنے انکار کر تے ہو ئے جواب دیا، “تو جو کہہ رہی ہے میں اس سے با لکل واقف نہیں ہوں۔” 71 تب پطرس نے آنگن کو چھو ڑا۔ پھا ٹک کے پاس ایک اور لڑکی نے اسے دیکھا۔لڑکی نے وہاں پر مو جود لو گوں سے کہا، “یہ آدمی یسوع ناصری کے ساتھ تھا-” 72 پطرس نے پھر دوبارہ کہا کہ میں یسوع کے ساتھ نہیں تھا۔اس نے کہا، “میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں اس آدمی کو جانتا تک نہیں ہوں-” 73 تھوڑی دیربعد وہاں کھڑے چند لوگ پطرس کے قریب جا کر کہنے لگے یسوع کے پیچھے چلے آنے والے لوگوں میں سے تو بھی ایک ہے اور اس بات کا اندازہ خود تیری گفتگو سے ہو رہا ہے۔ 74 تب پطرس خود پر لعنت بھیجتے ہوئے قسم کھا نے لگا، “اور کہنے لگا میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ یسوع نام کے آدمی کو میں تو جانتا ہی نہیں ہوں۔” اسی دوران مرغ نے بانگ دی۔ 75 پطرس کو یسوع کی بات یاد آئی جو کہ اس نے کہا تھا، “مرغ کے بانگ دینے سے پہلے تو میرا تین بار انکا ر کرے گا۔ “پطرس باہر گیا اورا س بات کویاد کر کے ز ا روقطار رو نے لگا۔

27:1 دوسرے دن صبح تمام سردار کا ہن اور بڑے لوگوں کے بڑے قائدین ایک ساتھ ملے اور یسوع کو قتل کر نے کا فیصلہ کر لیا۔ 2 وہ اس کو زنجیروں میں جکڑ کر گور نر پیلا طس کے پاس لے گئے اور اس کے حوالے کیا۔ 3 یہوداہ نے دیکھا کہ انہوں نے یسوع کو مارنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ یہوداہ وہی تھا جس نے یسوع کو اسکے دشمنوں کے حوالے کیا تھا۔ 4 جب یہوداہ نے دیکھا کہ کیا ہونے والا ہے۔ اس نے اپنے کئے پر نہایت پچتایا۔ اس طرح وہ تیس چاندی کے سکّہ لیکر سردار کاہنوں اور بزرگوں کے پاس آیا۔ اور بے گناہ کو قتل کر نے کے لئے تمہارے حوالے کردیا ہے۔ یہودی قائدین نے جواب دیا، “ہمیں اسکی پر واہ نہیں ! وہ تو تیرا معاملہ ہے ہمارا نہیں۔” 5 تب یہوداہ نے اس رقم کو ہیکل میں پھینک دیا اور وہاں سے جاکر خود ہی پھانسی لے لی۔ 6 سردار کاہنوں نے ہیکل میں پڑے چاندی کے سکّے چنے اور کہا کہ وہ رقم جو قتل کے لئے دی گئی ہو اسکو ہیکل کی رقم میں شامل کر نا یہ ہماری مذہبی شریعت کے خلاف ہے۔” 7 اسلئے انہوں نے اس رقم سے” کمہار کا کھیت” نام کی زمین خرید لینے کا فیصلہ کیا۔ یروشلم کے سفر پر آنے و الے اگر کو ئی مرجائ تو ان کو اس کھیت میں دفن کر نا طے پایا۔ 8 یہی وجہ ہے کہ اس کھیت کو آج بھی “خون کا کھیت” کہا جاتا ہے۔ 9 اس طرح یرمیاہ نبی کی کہی ہوئی بات پوری ہوئی: 10 خدا وند نے مجھے جیسا حکم دیا تھا۔ اسکے مطابق انہوں نے چاندی کے تیس سکّوں سے کمہار کا کھیت خرید لیا۔” 11 یسوع کو حاکم پیلا طس کے سامنے کھڑا کیا گیا پیلا طس نے اس سے پو چھا، “کیا تو یہودیوں کا بادشاہ ہے ؟” یسوع نے جواب دیا ، “ہاں تیرے کہنے کے مطابق وہ میں ہی ہوں۔” 12 سردار کاہنوں اور یہودیوں کے بڑے قائدین نے جب یسوع کی شکایت کی تو وہ خاموش تھا۔ 13 اس وجہ سے پیلا طس نے یسوع سے پو چھا، “لوگ تیرے تعلق سے جو شکایت کر رہے ہیں انکو سنتے ہو ئے تو جواب کیوں نہیں دیتا ؟” 14 اس کے باوجود یسوع نے پیلا طس کو کو ئی جواب نہیں دیا۔ اور پیلا طس کو اس بات سے بہت تعجب ہوا۔ 15 ہر سال فسح کی تقریب کے موقع پر لوگوں کی خواہش کے مطابق حاکم کا کسی ایک قیدی کو چھوڑنا اس زمانہ کا رواج تھا۔ 16 اس دور میں ایک شخص قید خانہ میں تھا جو نہایت بد نام تصور کیا جاتا تھا۔معروف قیدی جیل میں تھا اسکا نام بربّا تھا۔ 17 لوگ پیلاطس کی رہائش گاہ کے پاس جمع تھے۔ پیلاطس نے ان سے پوچھا ، “میں تمہارے لئے کس قیدی کو رہا کروں ؟ بربّا کو یا مسیح کہلا نے والے یسوع کو۔ 18 پیلاطس جانتا تھا کہ لوگ یسوع کو حسد سے پکڑوائے ہیں۔ 19 پیلاطس جب فیصلہ کے لئے بیٹھا ہوا تھا تو اسکی بیوی آئی اور ایک پیغام بھیجا۔ “اس آدمی کو کچھ نہ کر وہ مجرم نہیں ہے اسکے تعلق سے پچھلی رات میں خواب میں بہت تکلیف اٹھائی ہوں” یہی وہ پیغام تھا۔ 20 لیکن سردار کاہنوں اور بزرگ یہودی قائدین نے بربّا کے چھٹکا رے کے لئے اور یسوع کو قتل کر نے کے لئے لوگوں کو اکسایا کہ وہ اس بات کی گزارش کر لیں۔ 21 پیلاطس نے پو چھا، “میں تمہارے لئے کس کو رہا کروں ؟ بربا گویا یسوع کو لوگوں نے بربّا کی تائید میں جواب دیا۔” 22 پیلاطس نے کہا، “یسوع کو جو اپنے آپکو مسیح پکارتا ہے میں کیا کرو ں۔” لوگوں نے جواب دیا “اس کو صلیب پر چڑھا دو۔” 23 پیلا طس نے ان سے پو چھا، “تم اس کو صلیب پر چڑھا نے کیوں کہتے ہو اور اسکا کیا جرم ہے۔” لوگ اونچی آواز میں چیختے ہو ئے کہنے لگے “اسکو صلیب پر چڑھا دو۔ 24 “لوگوں کے خیالات کو بدلنا مجھ سے ممکن نہیں ہے۔ اس بات کو جا نتے ہوئے کہ لوگ فساد پر اتر آئے ہیں اسلئے پیلاطس نے تھوڑا سا پا نی لیا اور تمام لوگوں کے سامنے اپنے ہاتھوں کو دھو تے ہو ئے کہا، “میں اس آدمی کی موت کا ذمہ دار نہیں ہوں۔ کیوں کہ تم ہی لوگ ہو جو اسکی موت کا ذمہ دار ہو۔” 25 تمام لوگوں نے جواب دیا، “اس کی موت کے ہم ہی ذمہ دار ہیں۔ اور اسکی موت کے لئے بطور سزا کچھ مقّرر ہو تو اسکو ہم اور ہماری اولاد بھگت لیں گے۔” 26 تب پیلاطس نے بربّا کو رہا کیا اور یسوع کو کو ڑوں سے پٹوایا اور صلیب پر چڑھا نے کے لئے سپاہیوں کے حوالے کردیا۔ 27 پیلا طس کے سپا ہی یسوع کو شاہی محل میں لے گئے۔ اور تمام سپا ہیوں نے یسوع کو گھیر لیا۔ 28 اس کے کپڑے اتار دئیے اور اس کو قر مزی چو غہ پہنا یا۔ 29 کانٹوں کی بیل سے بنا ہوا ایک تاج اس کے سر پر رکھا۔ اور اس کے دائیں ہا تھ میں چھڑی دی۔ تب سپا ہی یسوع کے سامنے جھک گئے۔ اور یہ کہتے ہو ئے مذاق کر نے لگے ، “تجھ پر سلام ہوا ے یہودیوں کے بادشاہ۔” 30 سپاہیوں نے یسوع پر تھو کا تب اس کے ہاتھ سے وہ چھڑی چھین لی۔ اور اس کے سرپر مار نے لگے۔ 31 اس طرح مذاق اڑا نے کے بعد اس کا چوغہ نکا ل دئیے اور اس کے کپڑے دوبارہ اسے پہنا دئیے اور صلیب پر چڑھا نے کے لئے لے گئے۔ 32 سپا ہی یسوع کے ساتھ شہر سے با ہر جا رہے تھے۔سپا ہیوں نے زبردستی ایک اور شخص کو یسوع کے لئے صلیب اٹھا نے پر زور دیا۔ اس کا نام شمعون تھا جو کرینی سے تھا۔ 33 وہ گلگتا کی جگہ پہنچے۔(گلگتا جس کے” معنی کھوپڑی کی جگہ “) 34 سپا ہیوں نے گلگتا میں اس کوپینے کے لئے مئے دی۔اور اس مئے میں درد دور کر نے کی دوا ملا ئی گئی تھی۔ یسوع نے مئے کا مزہ چکھا لیکن اسے پینے سے انکار کردیا۔ 35 سپاہیوں نے یسوع کو صلیب پر کیل سے ٹھونک دیا۔ پھر اسکی پوشاک حاصل کر نے کے لئے آپس میں قرعہ اندازی کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ 36 جبکہ سپاہی یسوع کی پہرہ داری کر تے ہو ئے وہیں پر بیٹھے رہے۔ 37 اس کے علا وہ اس پر جو الزام تھو پا گیا تھا اس الزام کو لکھ کر اس کے سر پر لگایا گیا۔ اور وہ الزام یہی تھا: ” یہ یسوع ہے جو یہودیوں کا بادشاہ ہے۔“ 38 یسوع کے پہلو میں دو چوروں کو بھی صلیب پر چڑھایا گیا تھا۔ ایک چور کو اسکی داہنی جانب اور دوسرے کو بائیں جانب مصلوب کیا گیا 39 راستے پر گزرنے والے لوگ سر ہلا تے ہوئے اسکا ٹھٹھا کر تے رہے۔ 40 “اور کہتے ،تو نے کہا کہ ہیکل کو منہدم کر سکے گا۔ اور تین دنوں میں دوبارہ تعمیر کریگا۔ بس خود کو بچا ! اگر تو حقیقت میں خدا کا بیٹا ہے تو صلیب سے نیچے اتر کر آجا۔ “ 41 کاہنوں کے رہنما معلمین شریعت اور معزز یہودی قائدین وہاں پر موجود تھے۔ وہ بھی دیگر لوگوں کی طرح یسوع کا ٹھٹھا کر نے لگے۔ 42 وہ کہتے تھے اس نے دوسرے لوگوں کو بچا یا۔ لیکن خود کو بچا نہیں سکا ! لوگ کہتے ہیں کہ یہ اسرائیل کا بادشاہ ہے۔ اگر یہ بادشاہ ہے تو اس کو چاہئے کہ یہ صلیب سے نیچے اتر کر آئے تب ہم اس پر ایمان لائیں گے۔ 43 اسنے خدا پر بھروسہ کیا اسلئے خدا ہی اب اسکو بچائے اگر واقعی خدا کو اسکی ضرورت ہو۔ وہ خود کہتا ہے” میں خدا کا بیٹا ہوں۔” 44 اس طرح یسوع کی داہنی اور بائیں جانب مصلوب کئے گئے چوروں نے بھی اسکے بارے میں بری باتیں کہیں۔ 45 اس دن دوپہر بارہ بجے سے تین بجے تک ملک بھر میں اندھیرا چھا گیا تھا۔ 46 تقریباً تین بجے کے وقت میں یسوع نے زور دار آواز میں چیختے ہو ئے کہا تھا کہ“ ایلی ایلی لما شبقتنی“؟ یعنی اے میرے خدا ، اے میرے خدا مجھے اکیلا کیوں چھوڑ دیا؟”۔ 47 وہاں پر کھڑے چند لوگوں نے اسکو سن کر کہا یہ” ایلیاہ کو پکارتا ہے۔” 48 ان میں سے ایک دوڑے ہو ئے گیا اور اسپنچ لا یا اور اس میں سرکہ ڈبوکر بھر دیا اور اسکو ایک چھری سے باندھ دیا اور اسی چھری سے اسے اسپنچ کو یسوع کو دیا تا کہ وہ اسے پی لے۔ 49 لیکن دوسرے لوگوں نے کہا کہ اس کے بارے میں فکر مند نہ ہو ں کیوں کہ ہم یہ دیکھیں گے کہ کیا اسکی حفاظت کے لئے ایلیاہ آئیگا ؟ “ 50 تب یسوع پھر زور دار آواز میں چیخ کر جان دیدی۔ 51 پھر ہیکل کا پر دہ اوپری حصّہ سے نیچے کی جانب پھٹ کر دو حصوں میں بٹ گیا۔ اور زمین دہل گئی اور پتھر کی چٹانیں ٹوٹ گئیں۔ 52 قبریں کھل گئیں مرے ہو ئے کئی خدا کے لوگ قبروں سے زندہ ہو کر اٹھے۔ 53 وہ لوگ قبروں سے باہر آئے یسوع پھر دوبارہ جی اٹھا اور وہ لوگ مقدس شہر کو چلے گئے۔ اور کئی لوگوں نے انہیں اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ 54 سپہ سالار اور سپاہی جو یسوع کی نگہبانی کرر ہے تھے۔ زلزلہ اور چشم دید واقعات کو دیکھ کر گھبرا ئے اور کہنے لگے کہ” حقیقت میں وہ خدا کا بیٹا تھا۔” 55 کئی عورتیں جو گلیل سے یسوع کے پیچھے پیچھے اسکی خدمت کر نے کے لئے آئی ہو ئی تھیں دور سے کھڑی دیکھ رہی تھیں۔ 56 مریم مگدلینی یعقوب اور یوسف کی ماں مریم اور یوحنا و یعقوب کی ماں بھی وہاں تھیں۔ 57 اس شام مالدار یوسف یروشلم کو آیا۔ یہ ارمتیاہ شہر کا باشندہ تھا وہ یسوع کا شاگرد تھا۔ 58 یہ پیلا طس کے پاس گیا اور اس نے یسوع کی لاش اسکے حوالے کر نے کی گزارش کی۔ اور پیلا طس نے سپاہیوں کو حکم دیا کہ وہ یسوع کی لاش کو یوسف کے حوالے کریں۔ 59 یوسف لاش کو لیکر اور اسکو نئے سوتی کپڑے میں لپیٹا۔ 60 اور اس نے چٹان کے نیچے زمین میں جو قبر کھدوائی تھی اس میں رکھ دی۔ اور قبر کے منھ پر ایک بڑا پتھّر کو لڑکا کر چلا گیا۔ 61 مریم مگدلینی اور ایک دوسری عورت مریم اس جگہ قبر کے قریب بیٹھی ہو ئی تھیں۔ 62 اگلے روز جو تیاری کا دوسرا دن تھا گزر جانے کے بعد تمام سردار کاہن فریسی پیلاطس سے ملے۔ 63 اور کہا کہ وہ دھوکہ باز جب زندہ تھا۔ اور کہا تھا، “تین دن بعد میں دوبارہ جی اٹھونگا یہ بات اب تک ہمیں یاد ہے۔ 64 اس لئے تین دن تک اس قبر کی سختی سے نگرانی کا حکم دو اسلئے کہ اسکے شاگرد اس کی لاش کو چراکر لے جائیں۔ اور لوگوں سے یہ کہیں گے کہ وہ زندہ ہو کر قبر سے اٹھ گیا ہے۔ اور یہ پچھلا دھو کہ پہلے سے بھی برا ہو گا۔” 65 تب پیلاطس نے حکم دیا، “تم چند سپاہیوں کو ساتھ لے جاؤ اور جس طرح چاہتے ہو قبر پر پو ری چوکسی کے ساتھ نگرانی کرو۔ “ 66 وہ گئے اور قبر کے منھ پتھّر سے مہر کرکے سپاہیوں کی نگرانی میں وہاں پر سخت پہرہ بٹھا دیئے۔

28:1 سبت کادن گزر گیا۔ یہ ہفتے کے پہلے دن کا سویرا تھا۔مریم مگدلینی اور ایک دوسری عورت مریم قبر کو دیکھنے کے لئے آئیں۔ 2 تب خوفناک زلزلہ آیا۔ خداوند کا ایک فرشتہ آسمان سے اتر کر آیا۔ وہ فرشتہ قبر کے قریب جا کر منھ سے پتھّر کی اس چٹان کو لڑھکایا اور اس چٹان پر بیٹھ گیا۔ 3 وہ فرشتہ بجلی کی چمک کی طرح تابناک تھا۔ اور اسکی پو شاک برف کی طرح سفید اور صاف و شفاف تھی۔ 4 قبر کی نگرانی پر متعین سپاہیوں نے جب فرشتہ کو دیکھا تو بہت خوفزدہ ہو ئے اور ڈر کے مارے کانپتے ہو ئے مر دے کی طرح ہو گئے۔ 5 فرشتہ نے ان خواتین سے کہا، “تم گھبراؤ مت کیوں کہ میں جانتا ہوں کہ تم مصلوب یسوع کو تلاش کر رہی ہو۔ 6 اب یسوع تو یہاں نہیں ہے۔ اسلئے کہ وہ اپنے کہنے کے مطابق دوبارہ جی اٹھا ہے۔ آؤ اور جہاں اسکی لاش رکھی ہوئی تھی اس جگہ کو دیکھو p 7 جلدی کرو اور اسکے شاگردوں سے جا کر کہو ان سے کہو کہ یسوع دوبارہ جی اٹھا ہے۔ اور وہ گلیل کو جا رہا ہے۔ تم سے پہلے ہی وہ وہاں رہے گا۔ تم اسکو وہاں دیکھو گے۔” پھر سے فرشتے نے کہا، 8 فوراً وہ عورتیں کچھ خوف کے ساتھ اور قدرے خوشی و مسرت کے ساتھ قبر کی جگہ سے چلی گئیں۔ پیش آئے ہو ئے واقعات کو شاگردوں سے سنانے کے لئے وہ دوڑی جا رہی تھیں۔ 9 یسوع فوراً انکے سامنے آگیا اور کہنے لگا” تمہیں مبارک ہو۔” تب وہ عورتیں یسوع سے قریب ہو ئیں اور اسکے پیروں پر گر کر اسکی عبادت کی۔ 10 یسوع نے ان عورتوں سے کہا، “تم گھبراؤ مت میرے بھائیوں کے پاس جاؤ اور انکو گلیل میں آنے کے لئے کہدو اسلئے کہ وہ وہاں پر میرا دیدار کریں گے” 11 وہ عورتیں شاگردوں کو با خبر کرنے کے لئے چلی گئیں۔ اور ادھر قبر پر نگرانی کر نے والے چند سپا ہی شہر میں جاکر پیش آئے ہوئے سارے حالات سردار کاہنوں کو سنائے۔ 12 تب کاہنوں کے رہنما نے بڑے اور معزز یہودیوں سے ملاقات کر کے گفتگوں کر نے لگے اور ان سے جھوٹ کہلوانے کے لئے ایک بڑی رقم بطور رشوت دینے کی بھی تدبیر سوچنے لگے۔ 13 انہوں نے سپاہیوں سے کہنا شروع کیا او ر کہا، “لوگوں سے یہ کہو کہ رات کے وقت جب ہم نیند میں تھے تو یسوع کے شاگرد آئے اور اسکی لاش کو چرا لے گئے۔ 14 اور کہا کہ اگر حاکم کو یہ بات معلوم بھی ہو جائے تو ہم اسکو مطمئن کر دیں گے اور تم کو کسی قسم کی مصیبت نہ پہنچے اسکا انتظام کریں گے۔ “ 15 سپاہی رقم لے لئے اور انکے کہنے کے مطابق کر گزرے۔ یہ قصّہ آج بھی یہودیوں میں عام ہے۔ 16 وہ گیارہ شاگرد گلیل جاکر اس پہاڑ پر گئے جہاں یسوع نے انہیں جانے کے لئے کہا تھا۔ 17 پہاڑ پر شاگردوں نے یسوع کو دیکھا۔ انہوں نے اسکی عبادت کی۔ لیکن ان میں سے بعص شاگرد نے حقیقی یسوع کے ہو نے کو تسلیم نہ کیا۔ 18 اس لئے یسوع ان کے پاس آئے اور کہنے لگے، “آسمان کا اور اس زمین کا سارا اختیار مجھے دیا گیا ہے۔ 19 اس وجہ سے تم جاؤ اور اس دنیا میں بسنے والے تمام لوگوں کو میرے شاگرد بناؤ۔ باپ کے بیٹے کے اور مقدس روح کے نام پر ان سب کو بپتسمہ دو۔ 20 میں تم کو جن تمام باتوں کے کر نے کا حکم دیا ہوں اس کے مطابق لوگوں کو فرمانبرداری کر نے کی تعلیم دو۔ اور کہا ،میں رہتی دنیا تک تمہارے ساتھ ہی رہونگا۔”